ColumnFayyaz Malik

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور آئی جی پنجاب کا چیلنج

فیاص ملک
ریٹائرڈ انسپکٹر حاجی خدا بخش 1922ء میں تھانہ چوہنگ میں ایس ایچ او تعینات تھے اس دوران ایک انگریز ایس پی نے کہا کہ آپ کی رشوت کی شکایت ملی ہے، جس پر آپ نے فرمایا کہ اگر میرا گھوڑا جس پر میں سواری کرتا ہوں، رشوت کا چارہ کھا لے تو بھی راشی ہوں، تو انگریز ایس پی نے چارہ منگوایا لیکن گھوڑے نے کھانے سے انکار کر دیا، آپ نے اپنی جیب سے پیسے دیئے، چارہ لایا گیا تو گھوڑے نے کھا لیا، اگر کوئی چوہنگ سے حضرت میاں شیر محمد شرقپوری کے پاس دعا کیلئے جاتا تو آپ فرماتے اتنی دور کیوں آئے ہو، تھانیدار کے پاس چلے جاتے، ان کی ایمانداری پر انگریز گورنر نے 1926ء میں ریوالور بطور انعام دیا تھا، اسی طرح جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی میں تعینات پولیس انسپکٹر منشاء آفتاب بٹ اپنی ایمانداری اور سادہ طرز زندگی سے تمام پولیس والوں اور شہریوں کیلئے مثال بن گیا، یہ پولیس انسپکٹر کی اپنی نجی زندگی اس قدر سادہ ہے کہ ڈیوٹی اوقات کے علاوہ کبھی پولیس کی وردی میں باہر نہیں نکلے، وہ عام شہریوں کے ساتھ گھل مل جاتے اور انکا اپنے ماتحت افسران کے ساتھ سلوک بھی مثالی ہوتا، رشوت ستانی کا انکی زندگی میں کوئی کام نہیں انکا کہنا ہے کہ جتنے ان کے وسائل ہیں وہ اسی پر خوش ہیں،شہریوں کا کہنا تھا کہ منشا بٹ نہ صرف پولیس والوں بلکہ عام شہریوں کیلئے بھی شاندار اور روشن مثال ہیں، پولیس کی تاریخ ایسے ایماندار افسران کے واقعات سے بھری پڑی ہیں، یہ بھی حقیقت کہ ہمارے معاشرے میں عام طورپر پولیس کی کارکردگی اور خدمات کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چند ایک کرپٹ افسران کی وجہ سے پولیس کے ایماندار آفیسر بھی اپنی خدمات اور اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر خراج تحسین سے محروم رہتے ہیں، بہر حال اب کچھ بات ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے نیشنل کرپشن پر جاری ہونیوالی سروے رپورٹ کی ہوجائے جس میں ایک بار پھر محکمہ پولیس کو 30فیصد شرح کے ساتھ سب سے کرپٹ ادارہ قرار دیا گیا ہے، یاد رہے کہ 2022میں بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب پولیس کو کرپشن میں پہلا ہی نمبر دیا گیا تھا، لیکن یہاں یہ بھی سوال ہے کہ کرپشن کے معاملے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ میں ملک میں کرپشن کے لحاظ سے سرکاری محکموں کی درجہ بندی کا معیار اور عوامی سروے کا طریق کار کیا ہے؟ سروے رپورٹ کے اعدادوشمار اور طریقہ کار درست ہے یا غلط؟۔ اس بابت بہت سے سوالات مختلف سماجی حلقوں میں اٹھائے بھی جارہے ہیںکہ کیا صرف پولیس ہی کرپٹ ہے ؟ پولیس کے حوالے سے کرپشن رپورٹ کے انکشافات قابل یقین ہے یا نہیں؟ چند ایک افسران و اہلکاروں کی کرپشن کی وجہ سے پورے محکمے کو کرپشن میں نمبر ون کہنا کیا یہ درست ہے ؟، تاہم پولیس کو سب سے زیادہ کرپٹ سمجھے جانے کے تاثر کی ایک وجہ تو موروثی ہے وہ یہ ہے کہ ایک آدمی شکایت کنندہ ہوتا ہے اور ایک ملزم ہوتا ہے جس میں پولیس کسی ایک کے حق میں فیصلے لے تو دوسرا فریق لازمی طور پر ناراض ہوکر کرپشن کرپشن کا راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے، دوسرا یہ کہ ہماری فلموں، ڈراموں، تھیٹرز اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں بھی پولیس کے کردار کو انتہائی بھیانک انداز میں پیش کیا جاتا ہیں، جس کی وجہ سے پولیس کو لوگ زیادہ برا سمجھتے ہیں، یقین جانئے بحیثیت صحافی میرا تجربہ ہے کہ اس معاشرے کے جو لوگ ہر وقت پولیس کو برا بھلا کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، یقین جانئے ہر وقت پولیس پر تنقید کرنے والوں کی اپنی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کا بیٹا ، بھائی ، بھانجا ، بھتیجا، چچا ،ماموں غرضیکہ کوئی بھی رشتے دار کسی بھی طرح پولیس میں بھرتی ہوجائے جس کیلئے وہ ایک دوسرے سی یہی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ یار، پولیس کی نئی بھرتی کب آ رہی ہے، اس کا سلیبس اور ٹیسٹ کا طریقہ کار کیا ہے، مجھے پولیس میں بھرتی کا بہت شوق ہے، وغیرہ وغیرہ، خیر چھوڑیں ان سب باتوں کو اب ذرا تصور کیجئے اگر ایک دن شہر میں محکمہ پولیس کام کرنا چھوڑ دے تو بدنظمی اور امن و امان کا کیا عالم ہو؟ اس بارے میں سوچئے گا ضرور، دوسری جانب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے اس تناظری سروے پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ ایک ادارے نے دو، چار اضلاع میں چند ہزار لوگوں سے سروے کرا کے پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیں، وہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی پنجاب پولیس بارے اس رپورٹ کو چیلنج کریں گے اور فروری میں سروے کراتے ہوئے عوامی رائے تبدیل کریں گے، واضح رہے پنجاب پولیس کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی بھی آئی جی نے اس رپورٹ کو چیلنج کرنا تو درکنار، اس پر بات کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا لیکن عثمان انور پہلے انسپکٹر جنرل ہیں جنہوں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اپنے اس اعلان کو حقیقی معائنوں میں عملی جامہ پہنائیں گے اور اگر وہ اپنے اس چیلنج کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان پولیس کی تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پولیس کو بہتر بنانے کیلئے اندرونی احتساب کا مضبوط نظام بناتے ہوئے اصلاحات لائی جائیں جس کیلئے ضروری ہے کہ صرف باتیں نہ کی جائے بلکہ عملی طور پر اقدامات عمل میں لائے جائے لیکن مصیبت یہ بھی ہے کہ پولیس میں اصلاحات سیاسی طور پر کسی بھی حکومت کو قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ سیاسی رہنما پولیس کا استعمال کرتے ہیں اور اگر احتساب کا نظام لاگو ہوگیا تو وہ خود بھی پھنس سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے کوئی بھی ادارہ یا شخص پولیس میں اصلاحات لانے کیلئے تیار نہیں، اب اگر فرض کریں کہ پاکستانی پولیس بھی چینی ، ایرانی ، عرب ، یورپین یا امریکی پولیس کی طرح پروفیشنل بنا دی جائے تو کیا ہوگا ؟، یقینا سب سے زیادہ خسارہ طاقتور طبقے کو ہوگا ان کے ذاتی ، سیاسی اور سماجی دبدبے کی قوت کو زک پہنچے گی، ایک لمحے کیلئے پولیس کی کرپشن پر بات کرنے کی بجائے اگر ہم اپنی خود احتسابی کریں تو یہ کڑوا سچ سامنے آتا ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ کرپشن کے تالاب میں تیزی سے ڈبکیاں لگا رہا ہے، ہم اداروں میں بیٹھے ہوئے افسران کی بات کرتے ہیںکہ وہ کرپٹ ہیں لیکن بحیثیت پاکستانی اس حقیقت سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ دوسروں کو کرپٹ کہنے والے ہم خود کتنے ایماندار ہیں ؟، جھوٹ بولنا اور فریب دینا ہمارے قومی مشاغل بن چکے ہیں۔ دو نمبری کے بعد منافع کو بڑھانے کو عقلمندی قرار دینا ہمارے معاشرے کی پستی کو ظاہر کرتا ہے، گلی محلہ اور بازار میں بیٹھے ہوئے دوکانداروں میں من حیث القوم جھوٹ ، فریب، دھوکہ دہی جیسے افعال کو غیر قانونی تو درکنار گناہ بھی نہیں سمجھا جارہا، ہمارے اندر کرپشن کہاں تک سرایت کر چکی ہے اس بات کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جرم کرنے کے بعد ہم سب سے پہلے تھانہ کچہری میں ٹائوٹ ڈھونڈتے ہیں تاکہ ہم قانون کی گرفت میں نہ آسکیں، ہم سیاست دانوں، حکمرانوں ، بیوروکریسی، عدالتوں اور تمام ریاستی اداروں میں بیٹھے افراد پر کرپشن کے الزامات لگانے میں اک سیکنڈ نہیں لگاتے لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا گوارہ نہیں کرتے، باریک نظری سے جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان میں 90فیصد آبادی لٹنے کیلئے ہے اور دس فیصد لوٹنے والے ہیں ان کا تعلق کسی ایک طبقے سے نہیں، ہر شعبے میں موجود ہیں اسی وجہ سے تاثر یہ ملتا ہے کہ یہاں ہر کوئی لوٹ مار کر رہا ہے۔ آپ کسی بھی عام پاکستانی سے ملیں وہ آپ کو کرپشن پر کڑھتا نظر آئے گا، پچھلے کچھ عرصے میں چونکہ کرپشن کی باتیں بہت ہوئی ہیں اس لئے اس کا ذکر ہمارے ہاں ایک معمول بنا ہوا ہے۔ اس کے خلاف ہر شخص صدائے احتجاج بلند کرتا تو ملے گا تاہم اجتماعی آواز کہیں نظر نہیں آئے گی، یاد رہے فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ ترتیب دیتا ہے۔ اسی تھوڑا لکھے کو زیادہ سمجھا جائے ……..!!! ہم نیک و بد آپ کو سمجھائے دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button