ColumnImtiaz Aasi

انتخابات کو متنازعہ نہ بنایا جائے

امتیاز عاصی
عجیب تماشا ہے انتخابات قریب آ رہے ہیں تو وکلا تنظیموں نے چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔ تنازعہ حلقہ بندیوں کا ہے بھلا غیر ضرور ی طور پر حلقہ بندیوں کو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر حلقے تو زیادہ ہونے چاہیے تھے نہ کہ کئی حلقوں کو یکجا کرکے ایک نیا تنازعہ کھڑ کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے تو واضح طور پر انتخابات میں التواء قبول نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے اور حلقہ بندیوں کا معاملہ انتخابات کے بعد سنے جانے کا کہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی شیڈول کا اعلان اور انتخابی عملہ کی ٹریننگ کا آغاز ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کی طرف سے وہ گہماگہمی دکھائی نہیں دے رہی ہے جس کی امید تھی۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے انعقاد کا یقین نہیں آرہا ورنہ تو الیکشن سے پہلے انتخابی سرگرمیوں میں گرم جوشی دکھائی دیتی تھی نہ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے۔ بعض حلقے فروری میں برفباری کا عذر بنا کر انتخابات التواء کرنے کے خواہاں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری دو چار ہفتے الیکشن کو آگے لے جانے پر معترض نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے رٹیرننگ افسران انتظامیہ سے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ بعض سیاسی جماعتیں خصوصا پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے آر او ز عدلیہ سے ہونے چاہیں۔ پی ٹی آئی کے نزدیک ریٹرننگ افسران عدلیہ سے ہوں تو وہ کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کریں گے۔2013ء میں انتخابات ہوئے تو ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لگائے گئے جنہیں آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا یہ الیکشن آر اوز کا الیکشن تھا۔ اس سے پہلے2007کے الیکشن میں ریٹرننگ افسران کا تقرر عدلیہ سے کیا گیا تھا۔ جبکہ 1993ء اور1997ء میں ریٹرننگ افسران کا تقرر انتظامی افسران سے ہوا تھا۔ جس ملک میں سیاسی جماعتیں شکست تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوں اور انتخابات میں مرضی کے نتائج کی خواہش مند ہو اس ملک میں چاہے ریٹرننگ افسر عدلیہ سے یا انتظامیہ سے ہوں انتخابات ہمیشہ متنازعہ رہتے ہیں۔ حیرت ہے پی ٹی آئی الیکشن کے انعقاد پر زور دے رہی ہے اس کے برعکس مسلم لیگ نون کا دعویٰ ہے پی ٹی آئی الیکشن ملتوی کرانے کی خواہاں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے جانے کب جھوٹ بولنا بند کرنا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت جسے عوام کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو بھلا وہ کیسے الیکشن کو ملتوی کرانے کا کہہ سکتی ہے؟۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے مسلم لیگ نون اور جے یو آئی انتخابات کو التواء میں رکھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ جے یو آئی کو کے پی کے میں عوام کی خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ۔ مسلم لیگ نون جو پنجاب کو اپنی جماعت کا قلعہ تصور کرنے کی دعوی دار تھی ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد اس کایہ دعوی بھی ہوا میں اڑ گیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور جے یو آئی نے جلسے کر کے دیکھ لیا پی ٹی آئی کے جلسوں کی سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے عوام کی بہت بڑی تعداد پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین سمیت بہت سے رہنمائوں کو جیلوں میں رکھنے اور کئی ایک رہنمائوں سے پریس کانفرنس کرانے کے باوجود عوام پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ دراصل عوام نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کو کئی بار آزما لیا ہے دونوں جماعتیں عوام اور ملک کے معاشی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر اعظم مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف ہی تو تھے جو عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی عندیہ دینے کے باوجود مہنگائی کم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہمیں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے پی ٹی آئی کے قائد عمرا ن خان نے عوام کو باشعور کرنے کے ساتھ ان میں بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے وہ قائدین جو عوام کو عشروں سے سبز باغ دکھا رہے تھے انہیں آنے والے انتخابات میں شکست دکھائی دے رہی ہے لہذا وہ الیکشن کو التواء میں رکھنے کے لئے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کو سب سے بڑا نقصان بیرون ملک جائیدادیں بنانے اور منی لانڈرنگ سے ہوا جس کی تلافی ممکن نہیں۔ گو نواز شریف وطن واپس آگئے ہیں انہیں عوام کی جس طرح کی سپورٹ کی امید تھی وہ دکھائی نہیں دے رہی ہے لہذا وہ مایوسی کے عالم میں کبھی اداروں اور کبھی عدلیہ کے احتساب کی بات کرکے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں ۔ حیرت ہے نواز شریف بریت کے بعد مقدمات کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں، مقدمات جھوٹے تھے تو انہیں التواء میں کیوں رکھا گیا؟۔ اگر مقدمات جھوٹے تھے تو بنانے والوں سے بازپرس ہونی چاہیے تاکہ مستقبل قریب میں کوئی حکومت کسی کے خلاف من گھڑت مقدمات قائم نہ کر سکے۔ پاکستان جیسے ملک میں ایک عجیب ماحول ہے ایک حکومت کسی کے خلاف مقدمہ بناتی ہے تو دوسری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کو فیصلے ہوتے۔ اصولی طور پر نیب قوانین کے تحت ایسے مقدمات کا فیصلہ ایک مقررہ مدت میں ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں تو باوا آدم نرالا ہے۔ تفتیش کرنے والے افسران حکومت بدلنے کے بعد اپنے لکھے ہوئے کو عدالتوں میں جھوٹا قرار دے کر ملزمان کی بریت کا باعث بنتے ہیں۔ تفتیشی اداروں نے ملک کو تماشا بنایا ہوا ہے خود ہی مقدمہ بناتے ہیں حکومت بدل جائے تو خود ہی مقدمات کو بے بنیاد قرار دے کر ملزمان کو بری کراتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور وکلاء کو انتخابات شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کرکے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انتخابات ہوئے اور سیاسی جماعتوں نے نتائج کو تسلیم نہیں کیا تو پھر کیا ہوگا اللہ نہ کرے ہمارا ملک پھر سے کسی بحران کا شکار ہو جائے۔ الیکشن کمیشن اور اداروں کو انتخابات ہر صورت میں متنازعہ بننے سے روکنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہمارا ملک کسی نئے بحران کا شکار نہ ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button