Columnمحمد مبشر انوار

عوامی مقبولیت

محمد مبشر انوار( ریاض)
ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور یہ اصول ہر شعبہ ہائے زندگی پر یکساں لاگو ہوتا ہے کہ جہاں بھی ضرورت پڑتی ہے،بنی آدم اپنے لئے کوئی نہ کوئی نئی ایجاد کر لیتا ہے تا کہ اس کا مقصد حاصل ہو سکے یا وہ اپنے معاملات کو بخوبی سرانجام دے سکے۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستانی سیاست میں دیکھنے میں آئی ہے کہ تحریک انصاف جو ہمیشہ سے سیاست میں جدت پسندی کی طرف مائل رہی ہے، نے قومی سیاست میں مزید ایک طرح روشناس کروا دی ہے۔ تحریک انصاف نے جو حالیہ طرح سیاست میں متعارف کروائی ہے، مستقبل قریب میں اس کا عملی مظاہرہ، اس کی حریف سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئے جانے کا امکان تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے کہ اتنا بڑا رسک لینے کے لئے حریف سیاسی جماعتیں کسی بھی صورت تیار نہیں ہو ں گی۔ تحریک انصاف کی حریف سیاسی جماعتوں کے لئے تو میدان میں جلسہ کرنا بھی مشکل تر ہو چکا ہے کہ عموما دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ مقررین ،تمام تر حکومتی وسائل کے ساتھ بھی صرف خالی کرسیوں سے خطاب کرتے دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں جدید طرز کے جلسوں کا انعقاد ان کے لئے کیسے اور کیونکر ممکن ہو پائے گا؟ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے، تحریک انصاف نے اس ورچوئل جلسہ میں، اپنی اسیر قیادت کی تقریر بھی شرکاء کو سنوائی،جس پر اطلاعات یہی ہیں کہ شرکاء نے اپنے قائد کی تقریر نم آنکھوں سے سنی ہے۔ عوام کی اتنی شدت سے محبت و عقیدت خال ہی کسی سیاسی قائد کا نصیب رہی ہے بالخصوص ایسے خطہ میں کہ جہاں شخصیت پرستی و موروثیت کا مرض اپنی پوری شدت کے ساتھ معاشرے میں راسخ ہو، کسی نئی قیادت کا یوں ابھرنا اور پھر عوام کے دلوں میں گھر کر جانا، اس امر پر دلالت ہے کہ معاشرہ نہ صرف بیدار ہو چکا ہے بلکہ اسے اپنے مخلص قائد کا ادراک بھی ہو چکا ہے۔ تاہم دوسری طرف ’’ سٹیٹس کو‘‘ ہنوز اپنے جوڑ توڑ اور دم توڑتے شکنجے کے لئے مسلسل بروئے کار ہے، تحریک انصاف کے لئے کسی بھی صورت سیاسی میدان میں اترنے کو روکنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے، اور اس ضمن میں قانون کی دھجیاں جس طرح بکھیری جا رہی ہیں، آنیوالا مورخ اس پر اپنی بے لاگ رائے ضرور دے گا۔ بیرون ملک ذرائع ابلاغ بہرطور اس وقت بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہے ہیں اور تحریک انصاف کے اس جلسے کو موقر ترین میڈیا صفحہ اول کی زینت بنا چکا ہے کہ عمران خان کی اپنی ذات کا طلسم ہی ایسا ہے کہ گزشتہ پچاس برس سے وہ کسی نہ کسی حوالے سے میڈیا کے صفحہ اول کی زینت رہا ہے۔ اس کے مخالفین، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس کی طلسماتی شخصیت سے کوسوں دور ہیں، عمران خان کی سیاسی شخصیت پر آج دنیا بھر میں اسے اپنے وطن و قوم سے مخلص اور انقلابی کی حیثیت سے میڈیا میں جگہ ملتی ہے جبکہ اس کے مخالفین کے لئے جو القابات استعمال ہوتے ہیں، انہیں یہاں لکھنا اس لئے مناسب نہیں سمجھتا کہ کئی ’’ کاغذی شیر ‘‘ اس وقت جعلی طاقت کے نشے میں، اوقات سے باہر ہوئے جاتے ہیں وگرنہ دنیا جانتی ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں میں آج دنیا بھر میں صف اول کون ہے اور بھتہ کھانے والا کون اور سرکاری زمینوں کو ہڑپ کرنے والا کون ہے؟ یہ وہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو ساری دنیا جس حوالے سے جانتی ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ دائروں میں سفر کرنے والی اس قوم کی یہ بدنصیبی ہے کہ پاکستان میں سیاسی کھیل کو ترتیب دینے والے، آج بھی ماضی میں زندہ ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس سیاسی شعور کو بزور دبا لیں گے۔
بالفرض، سٹیٹس کو، قوتیں اپنی انا کی تسکین یا ضد کے باعث ایک عوامی شخصیت کو پردہ سکرین سے ہٹانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں، جیسے ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح، شیخ مجیب اور بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا، تو کیا یہ واقعتا پاکستان کی خدمت ہو گی؟ کیا کسی ایک شخصیت کی منشا و مرضی ملک و قوم سے بڑھ کر ہو سکتی ہے ؟ نظام سے بڑھ کر ہو سکتی ہے یا نظام وہی ہے کہ جسے وہ نافذ کرنا چاہیں، بغیر کسی آئین و قانون کے، بلا شرکت غیرے مالک و مختار رہنا چاہیں؟ مروجہ جمہوری سیاسی نظام میں، بندوں کو گنا جاتاہے، تولا نہیں جاتا، تو پھر جو اکثریت حاصل کرتا ہے، اسے حکومت دینے میں تامل کیوں ہے؟ صرف ایک شخص پر دو سو کے قریب مقدمات دائر کرکے، اسے پابند سلاسل رکھ کر، اس کے انتخابی امیدواران کو ہراساں کر کے انتخابی عمل سے باہر رکھ کر، کیسے انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور ان انتخابات کی حیثیت قابل قبول بھی ہو گی یا نہیں؟ انتخابی نتائج کے بعد ملکی صورتحال کیا ہو سکتی ہے؟ کیا ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟ انتخابی مشینری کی جانبداری عیاں ہے کہ کیسے ایک سیاسی جماعت کے خلاف صف آرا ہے اور اسے مسلسل دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، اسے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے انتظامات کئے جارہے ہیں لیکن کیا یہ واقعی اسے متاثر کر سکیں گے؟ اب تو مہذب معاشرے کی دی جانیوالی دلیل بھی بے وقعت سی لگنے لگی ہے کہ اعتزاز احسن صاحب نے ایک اور گرہ کھول دی کہ سب سے پہلے یہ تو تعین کر لیں کہ آپ مہذب معاشرہ ہیں بھی یا نہیں کہ مہذب معاشروں میں واقعی ایسی مشق نہیں کی جاتی اور ہمیں مہذب معاشرہ بننے کے لئے ہنوز دو چار صدیاں درکار ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے ایک مسلمہ حکومتی نظام کو، فقط دنیا کو دکھانے کے لئے اپنا رکھا ہے، جسے ہم کماحقہ لاگو کرنے سے بھی قاصر ہیں اور اس کی وضع قطع اس حد تک بگاڑ چکے ہیں کہ کوئی بھی اس کو بغیر جھجھک ایک آمرانہ طرز حکومت قرار دے سکتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر کٹھ پتلیاں پردہ سکرین پر نظر آتی ہیں، جو اپنے آقائوں کے اشارہ ابرو پر ناچتی دکھائی دیتی ہیں، ان کے مفادات کا تحفظ کرتی دکھائی دیتی ہیں یا پھر ذاتی مالی مفادات کشید کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
نو مئی کے پس منظر میں، ایسی کارروائیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن ان کا نتیجہ سوائے ترقی معکوس کے کچھ نہیں نکلا لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا اور نہ ہی کوئی اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے تیار ہے کہ بہت ناگزیر، خستہ حال ٹنوں مٹی اوڑھے قبور میں پڑے ہیں۔ اس کے باوجود ہر بااختیار کو ایک ہی زعم ہے کہ وہی عقل کل ہے اور صرف وہی ملک و قوم کا رہبر و مسیحا ہے وگرنہ باقی تو ملک کو ڈبونے کے درپے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور کسی جمہوری معاشرے میں اصولا سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع ملنا ان کا آئینی و جمہوری حق ہے جبکہ ریاستی مشینری کو آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے، حکمرانوں کی پالیسیوں پر عمل درآمد کروانا ہے۔ البتہ سیاسی نظام حکومت اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ وہ ازخود خلاف قانون کسی بھی عمل پر حرکت میں آئے اور بلا امتیاز ملزم کے خلاف بروئے کار آئے، کسی بھی قسم کا سیاسی و معاشرتی دبائو ریاستی مشینری پر اثر انداز نہ ہو سکے اور عوام کا نظام پر اعتماد برقرار رہے۔ گاشتہ دنوں ڈالر کی اونچی اڑان کے متعلق ایک آپریشن کی بازگشت سنائی دی تھی اور اس پر بڑے زور و شور سے عمل درآمد شروع ہوا تھا، کہا یہ گیا تھا کہ ڈالر کی قیمت دو سو سے نیچے لائی جائے گی، دیگر احباب کی طرح راقم نے بھی اس کی تعریف و توصیف کی تھی لیکن ہوا کیا؟ چند دن کے آپریشن سے ڈالر کو تین سو سے نیچے تو لایا گیا لیکن بعد ازاں یکدم اس آپریشن کے متعلق خبریں آنا بند ہو گئی، کیا ڈالر واقعی دو سو سے نیچے آ گیا؟ کیا اس کی سمگلنگ ختم ہو گئی؟ قارئین بین السطور حقیقت کو خود سمجھ جائیں گے کہ ڈالر کے خلاف ہونے والی کارروائی کیوں اور کیسے روکی گئی۔
برصغیر میں بالعموم جبکہ پاکستان میں بالخصوص کسی بھی عوامی قاءد کو سیاسی افق پر تا دیر چمکتا نہیں دیکھا گیا البتہ تاریخ میں زندہ رہنے کے خواہشمند بھی چند دہائیوں کے بعد سیاسی میدان میں عوامی مقبولیت کھو بیٹھتے ہیں اور اس خلاء کو کوئی دوسرا پر کر دیتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں اقتدار کا حصول بہرطور عوامی مقبولیت کی بجائے مقتدرہ کی قبولیت سے مشروط ہے، جو بیک وقت نا ممکن ہیں۔ ماضی اس حقیقت کا گواہ ہے کہ ہر عوامی مقبولیت رکھنے والے سیاسی شخصیت کا انجام بہرحال دردناک ہی رہا ہے تاہم جو عوامی مقبولیت عمران خان کے نصیب میں آئی ہے، وہ بلا شک و شبہ کسی بھی دوسرے سیاسی رہنما کا نصیب نہیں رہی۔ موجودہ حالات ایک بار پھر اسی دردناک انجام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جتنے مقدمات عمران خان پر دائر ہیں، جس طرح عدالتیں بروئے کار ہیں، ایسا انجام ممکن ہے لیکن قدرت کے اپنے کھیل ہیں اور مارنے والے سے بچانے والا بہرکیف زیادہ طاقتور ہے بشرطیکہ اسے اپنے بندے سے کوئی اہم کام لینا ہو، جیسے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی بیماری دشمنوں سے پوشیدہ رکھی گئی، کون جانے کہ عمران خان کو یہ عوامی مقبولیت اور حیثیت بھی اس سے کوئی اہم کام لینے کے لئے ہی دی گئی ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button