Column

جھرلو کا نیا نام

سیدہ عنبرین
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا، نواز شریف حکومت معزول ہوئی پھر ایک ڈیل کے بعد شریف خاندان دس سالہ معاہدہ کر کے جدہ چلا گیا حالات نے دس برس بعد پلٹا کھایا پرویز مشرف معزول ہوئے، زرداری صاحب کی حکومت کا وقت ختم ہوا تو نئے الیکشن کیلئے جوڑ توڑ شروع ہوا کوششیں شروع ہو گئیں کہ ن لیگ اور ق لیگ کو اکٹھا کر دیا جائے۔ شریفوں کو ق لیگ سے شکوہ تھا کہ وہ پرویز مشرف کا ساتھ نہ دیتے تو وہ دس برس اقتدار میں نہ رہتے، ق لیگ کا جواب تھا کہ شریف خاندان تو نہایت خاموشی راز داری سے ڈیل کر کے سب کو تنہا کر کے چلا گیا، انہوں نے اپنے لیے جو بہتر سمجھا کیا۔ ہم نے اپنے لیے جو راستہ چنا وہ اختیار کیا۔ دونوں لیگوں کو اکٹھا کرنے کے مشن پر نکلے دوستوں نے مشورہ دیا ماضی پر کوئی بات نہ کی جائے کوئی کسی کو الزام دے نہ کوئی کسی سے معافی مانگے بس کھلے دل کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کیا جائے۔ چوہدری برادران کو منا لیا گیا کہ وہ رائے ونڈ پیلس جائینگے جہاں نواز و شہباز انہیں گلے لگائیں گے۔ چھوٹے چوہدری صاحب دنیا دار اور بڑے چوہدری صاحب دین دار انسان سمجھے جاتے ہیں چھوٹے چوہدری صاحب نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا نواز شریف نے ماضی میں ہم سے کیا کوئی وعدہ کبھی پورا نہیں کیا۔ وہ اس مرتبہ بھی دھوکہ دیگا۔ بڑے چوہدری صاحب نے کہا چلو مٹی پائو میں وعدہ کر چکا ہوں اب ہمیں وہاں جانا ہی ہے۔ دونوں چوہدری مع اپنے اپنے فرزندوں، رائے ونڈ پہنچ گئے۔ آدھ گھنٹہ، ایک گھنٹہ، دو گھنٹے ہو گئے کوئی ملنے آیا نہ کوئی نامہ و پیام ہوا، شریف برادران کی ضرورت پڑی تو وہ پہاڑی پر چڑھ گئے۔ چوہدری برادران واپس آگئے وقت گزر گیا خان حکومت ڈانواں ڈول ہوئی تو مسافروں نے ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں لگا نا شروع کر دیں۔ سیاسی میدان میں ہل چل شروع ہوئی، ن لیگ نے چاہا ق لیگ ان کے ساتھ آملے تحریک انصاف نے کہہ دیا ہماری طرف آئو پنجاب کی وزارت اعلیٰ تمہاری، پرویز الٰہی نے ن لیگ سے مذاکرات شروع کئے سمجھوتہ ہو گیا جس پر دعائے خیر کی گئی۔ صبح اس سمجھوتے کا اعلان کیا جانا تھا، پرویز الٰہی اٹھے اور خان سے ملکر اس سے ساتھ نبھانے کا عہد کرلیا، صبح اس کا اعلان ہو گیا ن لیگ کے کرتا دھرتا منہ دیکھتے رہ گئے جس طرح رائے ونڈ جا کر نواز شریف، شہباز شریف کے نہ ملنے پر چوہدری برادران منہ دیکھتے رہ گئے تھے۔ پرویز الٰہی نے حساب برابر کر دیا اسی روز سے ایک نئی سیاسی رقابت کا آغاز ہوا، دوسری طرف بھی اونٹ ہیں چوہدری برادران جس کے اشارے پر نواز و شہباز سے ملنے رائے ونڈ چلے گئے تھے۔ اب ان ہی کے اشارے پر نواز و شہباز، چوہدری شجاعت سے ملنے کیلئے اٹھارہ برس بعد ان کے دروازے پر پہنچ گئے۔ ضرورتیں انسان کو کیا کیا کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بوقت ضرورت سب اصول اور اصول پسندی دھری کی دھری نظر آتی ہے، چوہدری خاندان کی گھر کی پانچ، چھ سیٹیں دیکھ کر کون سی سیاسی جماعت ہے جس کے منہ میں پانی نہیں آرہا۔ وزیر اعظم کے انتخاب میں پانچ ووٹ نقشہ بدل سکتے ہیں۔ اسی نقشے میں رنگ بھرنے کیلئے ظہور الٰہی روڈ چل کر آنا گوارا کیا گیا، چوہدریوں نے بارہ سیٹوں کی فرمائش کی، شاید یہ سوچ کر کی ہو گی کہ بارہ مانگیں گے تو چھ ملیں گی لیکن ن لیگ اس دعائے خیر کے بعد اب انہیں تین، چار سیٹوں سے زیادہ پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں دینا چاہتی۔ معاملہ بگڑنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں کچھ ایسا ہی منظر کراچی میں ہے۔ ایم کیو ایم کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے انہیں لارے دئیے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں وہ بھی اس لیے کہ وہ پیپلز پارٹی سے محبت نہ بڑھانے لگیں۔
تحریک انصاف کی طرف لپکنے والوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ان سے دور رہیں بصورت دیگر اس بات کی کوئی گارنٹی نہ ہو گی کہ پنجاب کس کے پاس ہو گا اور سندھ کس کے پاس ہو گا، پیپلز پارٹی نے پہلا اعلان تو کر دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے ساتھ مل کر الیکشن میں نہیں جائیگی۔ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے درمیان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا اسی طرح غائب ہو سکتا ہے جس طرح پنجابی کے ایک محاورے میں ماں اور بیٹی کے درمیان ایک چیز غائب ہو جاتی ہے۔
جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین کا رحجان کافی حد تحریک انصاف کی طرف نظر آیا لیکن چیئرمین کے انتخاب اور اس حوالے سے ہونے والی کارروائیوں کے بعد سب نے اپنی بڑھتے قدم روک لیے ہیں۔
الیکشن میں آنے والے ایام میں ایک بڑا اپ سیٹ ہونے کا امکان ہے، پی ٹی آئی کا نیو چیئر مین اڑ گیا یا پارٹی فنڈنگ کیس میں اڑا دی گئی تو پھر اس کے بینر تلے الیکشن لڑنے والوں کے پاس دو راستے ہو نگے اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں یا پھر گھر بیٹھ جائیں اور مخالفین کو کھلا میدان دے دیں۔ ’’ انہی پتھروں پر چل کر گر آسکو تو آئو‘‘، والا راستہ مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔ کہکشاں کا راستہ کھلا ہے، بعض سمجھدار وقت شناس شخصیات نے سیدھا راستہ پسند کیا انہوں نے مال ناک اور ساکھ بچانے کیلئے آئی پی پی میں شمولیت کر لی وہ یکسوئی سے اپنی انتخابی مہم پر توجہ دے رہے ہیں۔
سیدھا راستہ اختیار کرنے والوں نے کچھ تاخیر بھی کی ہے لیکن وہ دیر سے گھر لوٹے ہیں، ان میں ہمایوں اختر خان تازہ ترین اضافہ ہیں، مسلم لیگ ن میں ایک دھڑا ایسا تھا جو انہیں لینا چاہتا تھا دوسرا دھڑا ان کا راستہ روکے بیٹھا تھا، ادھر سے انکار کے بعد وہ آئی پی پی میں آگئے ہیں اور لاہور کینٹ سے اپنے پرانے حلقے سے الیکشن لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے ہیں، وہ ن لیگ کے سعد رفیق کے مقابل ہو نگے۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف اپنی کارکردگی کے پیش نظر لاہور کے علاوہ کراچی سے الیکشن لڑنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں وہ مکمل شکست کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے، نواز شریف اہلیت کا سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑیں گے مریم نواز دو جگہوں سے اسی طرح حمزہ شہباز بھی اپنے پرانے حلقے کے علاوہ ایک اور حلقے سے الیکشن لڑنے کا پروگرام رکھتے ہیں، لاہور میں نواز، شہباز، مریم، حمزہ، سعد رفیق جہاں سے بھی الیکشن لڑیں گے وہاں گھمسان کا رن ہو گا۔ ان حلقوں میں منصفانہ الیکشن ہوں نہ ہوں آزادانہ ضرور ہو نگے۔ جبکہ انہیں حلقوں کا الیکشن ملک کا مہنگا ترین الیکشن بھی ہوگا۔ وسائل کی انتہا ہو گی روپیہ پانی کی طرح بہایا جائیگا کیونکہ ان حلقوں سے الیکشن لڑنے والوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ جیت کیلئے سب کچھ دائو پر لگا دیا جائیگا۔
1970ء کے انتخابات سے لیکر بعد ازاں ہر انتخاب میں ’’جھرلو‘‘ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پس 8فروری کے انتظار میں ’’جھرلو‘‘ نے بھی ڈنڈ بیٹھکیں لگا نا شروع کردی ہیں۔ ’’جھرلو‘‘ اپنی پر فارمنس کہاں کہاں دکھائے گا یہ پوچھنے والا سوال ہرگز نہیں لیکن 16جنوری کو کاغذات نامزدگی واپس لیے جانے سے آئندہ روز حتمی امیدوار سامنے آجائینگے، جس کے بعد میز پر پھیلے ایک بڑے نقشے کو سامنے رکھ کر میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ’’ جھرلو‘‘ کی ذمہ داریاں کہا اور کیا ہو نگی۔ ’’ جھرلو‘‘ کا خفیہ نام کبھی انتخابی لہر تو کبھی آر ٹی ایس ہوتا ہے، دیکھیں اس مرتبہ اس کا نیا نام کیا رکھا جاتا ہے ہوگا میڈ ان انگلینڈ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button