Columnمحمد مبشر انوار

نئے افق

محمد مبشر انوار( ریاض)
علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں۔ ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں، یوں تو علامہ اقبالؒ کی شاعری کا بیشتر حصہ شاعرانہ قرآنی تفسیر ہی دکھائی دیتا ہے اور اس میں بھی یہ حقیقت سامنے نظر آ رہی ہے کہ کوئی مانگنے والا تو ہو، متلاشی تو ہو، وہ تو ہمیشہ مائل بہ کرم رہتا ہے۔ رب کریم کے کرم کی تو ان گنت مثالیں دنیا میں مل جاتی ہیں جو ازل سے ابد تک جاری و ساری رہیں گی کہ اس کا ابر رحمت مسلسل برستا رہنے والا ہے، اس کو کبھی نہ تنگی ہے نہ کوئی کمی ہے، وہ مالک مختار ہے، قادر مطلق ہے، جسے چاہے جہاں چاہے اور جیسے چاہت عطا کر سکتا ہے، یہ رب کی شان بے نیازی ہے۔ البتہ جو طریقہ کار رب کریم نے عطا کا طے کر رکھا ہے، وہ یہی ہے کہ رب کی شان کریم کے علاوہ، بنی آدم کا اس سے مانگنا، متلاشی ہونا اور پھر اس کے بعد بھی اپنی شان کریمی سے عطا کرنا، یہ صرف اور صرف رب کی ذات کو سوا ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا یوں عطا کرنے پر قادر نہیں، ماسوائے جسے وہ اتنا اختیار از خود دے۔ ریاست پاکستان بھی، برصغیر کے مسلمانوں کو رب کریم کی ایسی عطا ہے، جسے بے انتہا قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، جسے اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا، دین اسلام کا احیاء اس سرزمین کا مقصد تھا لیکن صد افسوس کہ آزاد ہوتے ہی، سب مقاصد کسی ردی کی ٹوکری میں پھینک دئیے گئے، اس ریاست میں اصول و ضوابط و قوانین نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، صرف طاقتوروں کی اجارہ داری ہے، ان کی چیرہ دستیاں ہیں جو معاشرے کو دن بدن زوال کی طرف کے جا رہی ہیں۔
اس ریاست میں دین اسلام کے قوانین کا احیاء تو کیا ہوتا، یہاں تو ارباب اختیار، مقننہ کے اپنے بنائے ہوئے قوانین کا احترام خود مقننہ و انتظامیہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ چھہتر برسوں پر نظر دوڑائیں تو حقیقتا ندامت ہوتی ہے کہ ہمارا رویہ کیا رہا ہے، ہماری اشرافیہ نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے؟ یہ کیسے حکمران ہیں، یہ کیسے عالی دماغ و اذہان ہیں کہ ان کی ساری عالی دماغی کا محور و مرکز صرف اور صرف ان کی اپنی ذات، اقربا و احباب کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے، عوام کے نصیب میں سوائے رسوائی و کسمپرسی کے کوئی دوسری چیز نظر نہیں آتی، حتی کہ ریاست بھی ان کے ہاتھوں کھلونا بنی دکھائی دیتی ہے۔ آج بھی ہمارا حالیہ ہے ہر دوسرے دن مراد ہر آنیوالی حکومت ڈنگ ٹپانے کے، اپنے اقتدار ہو قائم رکھنے کے لئے، طاقتوروں کی خوشنودی کی خاطر ایسے قوانین متعارف کرواتی ہے کہ جن کا مہذب دنیا سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ تسلیم کہ مہذب دنیا کا دہرا کردار بھی اپنی جگہلیکن خدارا اس کو سمجھیں کہ ان کا دہرا کردار، اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے ہے نہ کہ اپنی ریاست یا شہریوں کو نقصان پہنچانے یا انہ کے حقوق سلب کرنے کی خاطر ہے۔ مہذب دنیا قوانین کے حوالے سے آج بھی بنیادی اصولوں کو فوقیت دیتی ہے اور اگر کہیں کسی جگہ کسی کو فائدہ دینا مقصود ہو بھی، ریاستی مفاد کے علاوہ کسی عام شہر ی کے حق کو سلب کرنے کا تصور قطعا موجود نہیں اس کے برعکس پاکستان میں اولا کسی کو حق ملتا نہیں، محکموں کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے کہ ان کا زیادہ وقت حکمرانوں کی چاپلوسی و خوشامد کے ساتھ اپنے مفادات کشید کرنے میں گزرتا ہے، ایسے میں عوام کن مصائب کا شکار ہو سکتی ہے، انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ بات قوانین کی ہو رہی تھی مگر کہیں سی کہیں نکل گئی، قوانین کے ساتھ ہماری چھیڑ چھاڑ بلکہ شدید کا یہ عالم ہے کہ ہم مسلسل دائروں میں گھوم رہے ہیں، بنیادی تصور و اصول کو فراموش کر کے بس وقت کی مناسبت کے ساتھ قوانین بناتے رہتے ہیں اور اسی میں خوش، ایک دوسرے ک و نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔ آج کل سب سے زیادہ زور شور ملٹری کورٹ کے حوالے سے ہو رہا ہے، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے خلاف کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا گیا تو آج عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ فیصلہ سنا دیا گیا کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز شہریوں کے خلاف مقدمات سنے جا سکتے ہیں، جس پر ایک طوفان بپا ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ کن سویلینز پر فوجی عدالتوں میں مقدمات ہو سکتے ہیں؟ کون سے جرائم فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے ہیں؟ اگر اس کا تعین ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ ملزم کون ہے، سویلین شہری ہے یا کوئی فوجی؟ عدالت کا دائرہ اختیار جرم کی نوعیت پر ہے نہ کہ شخصی حیثیت پر جبکہ ہم اس کے برعکس چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے، فریق مخالف کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان فروعی مسائل سے جتنی جلد نپٹ سکیں، ان سے نپٹ کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، آنیوالی نسلوں کے لئی بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں، دنیا ان مسائل پر قائل ہو کر، اپنا راستہ متعین کر کے ترقی کی منازل طے ر رہی ہے جبکہ ہم ان مسائل میں الجھے، دائروں کے سفر میں غلطان ہیں۔
گزشتہ ہفتے شہر ریاض میں ’’ پروفیشنل ایکسیلینس کانفرنس‘‘ میں سعودی وزیر اعظم و ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن2030میں تناظر میں جو اہداف طے کر رکھے ہیں، ان کا جائزہ لیا گیا، ان کامیابیوں کو سراہا گیا اور جو سقم نظر آئے، ان پر مسلسل نظرثانی سے اس وژن کا حصول ممکن بنایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب بلاشبہ وسائل کے اعتبار سے انتہائی با وسائل ریاست ہے لیکن ان وسائل کو کماحقہ بروئے کار لانا، سمت کا تعین کرنا اور اس پر یکسوئی و اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہونا، یقینی طور پر انتہائی قابل ستائش و قابل تحسین و قابل تقلید ہے۔ سعودی حکومت نے جو اہداف طے کر رکھے ہیں، ان کو نہ صرف وقت سے پہلے حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں بلکہ ان میں مسلسل بہتری کے لئے غور و خوص جاری رہتا ہے تا کہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوا جا سکے۔ شبانہ روز محنت اور انتھک کوششوں کے ثمرات، سعودی معاشرے میں ہمہ جہت دیکھے جا سکتے ہیں اور نئی نسل ان اقدامات سے انتہائی مسرور دکھائی دیتی ہے کہ جس میں انہیں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع میسر ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں ذاتی مفادات اس قدر ترجیح کا شکار ہیں کہ قدرت کی طرف سے میسر انتہائی بیش قیمت وسائل کو بیدردی کے ساتھ لٹایا جا رہا ہے اور اس پر کوئی ملال بھی نہیں۔ قیادت کا اخلاص درحقیقت کسی بھی ریاست کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، کہ اسی کی بدولت ریاستیں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی نظر آتی ہیں، نت نئے افق سر کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ پاکستان جیسی ریاست زوال و پستی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ آج کی تحریر مسجد نبوی میں بیٹھ کر، اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے ریاست پاکستان اور امت مسلمہ کی زبوں حالی سے نجات کی دعائیں کرتے ہوئے لکھی گئی ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم سب مسلمانوں کی اپنے گھر اور محبوب ص کے روضہ کی زیارت نصیب کرے اور پاکستان کے حکمرانوں کو پاکستان کے ساتھ مخلص ہونے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ پاکستان بھی ترقی کے نئے افق سر کر سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button