ColumnImtiaz Ahmad Shad

ہم بھول جاتے ہیں

امتیا ز احمد شاد
وطن عزیز کو اپنے قیام کے بعد سے ہی پے در پے حوادث و سانحات کا سامنا رہا۔ بمشکل کچھ عرصہ ہی ملک میں سکون کا گزرا ہوگا، ورنہ تاریخ کے صفحات پر ہمیں ملک میں انتشار، بدامنی، انارکی، اور عوام کی قربانیوں کی طویل داستان دکھائی دیتی ہے۔ 16دسمبر کا دن بھی ایسے ہی دو بڑے سانحات کی یاد لیے سامنے آتا ہے۔ ان دونوں سانحات میں برسوں کا فرق ہے لیکن ہر سانحہ خود میں درد و الم اور خونریزی کی داستان سمیٹے ہوئے ہے۔
16 دسمبر 1971ء کا سقوطِ ڈھاکہ ہو یا پھر 16دسمبر 2014ء کا سانحہ اے پی ایس پشاور، دسمبر کی آمد کے ساتھ ہی ملک کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان سانحات کا تذکرہ شروع ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت قوم کے سوئے ہوئے دانشور بھی جاگ جاتے ہیں اور پاکستان کے دو لخت ہونے اور آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کی شہادت پر اپنے اپنے انداز میں خامہ فرسائی شروع کردی جاتی ہے۔ اور کبھی نہ فراموش کئے جانے والے ان سانحات کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہم ایسے ہی بے حس ہیں، جو اِن کبھی نہ بھلائے جانے والے سانحات کو بھی دانستہ اپنے ذہنوں سے محو کرکے، اِن سانحات سے کچھ بھی نہ سیکھنے کا عمل دہرائے جارہے ہیں۔ ان سانحات کی لرزہ خیز داستان کبھی بھلائی نہیں جاسکتی، لیکن ہم بھول جاتے ہیں اور صرف دسمبر کے اِن مخصوص دنوں میں اچانک ہمارے اندر حب الوطنی کا بیکراں سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ حیرت تو اُن پر ہوتی ہے جو اپنی گفتگو اور تحاریر میں بھی ان واقعات پر اپنی شرپسند سوچ کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں رہتے۔ ان سانحات کا تذکرہ ایسے کیا جاتا ہے کہ گویا یہ سانحات نہ ہوں، ہماری معمولی سی غلطیاں ہوں، جنہیں بھول کر آگے بڑھ جانا چاہیے۔ آخر ہم اتنے سخت دل کیسے ہوسکتے ہیں؟ جو قوم اپنی تاریخ اور تاریخ کے صفحات پر درج حقائق سے منہ موڑ لیتی ہے وہ مستقبل میں آنے والے حادثات کو کبھی نہیں بھانپ سکتی۔ بد قسمتی سے پاکستانی قوم مختلف طبقات میں منقسم ہے اور رہی کسر سیاست کے بیوپاریوں نے ذاتی مفادات کی خاطر نکال رکھی ہے۔ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کی روش نے ہمارا یہ حال کر دیا کہ ایک ایٹمی طاقت رکھنے والا، دنیا کی بہترین فوج اور زراعت میں دنیا کا ساتواں بڑا ملک، جس نے ہر محاذ پر فتح کے جھنڈے گاڑے ہوں وہ ایسی خوفناک دلدل میں گر چکا کہ اقوام عالم میں سے کوئی بھی دل سے اس کے قریب آنے کو تیار نہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر سانحہ اے پی ایس پشاور تک ہونے والے حادثات کا کبھی بغور جائزہ لیں تو واضح ہو گا کہ ہماری بربادیوں کے ضامن ہم خود ہیں۔ کبوتر آنکھیں موند لے تو اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ بلی چلی جائے گی۔ آج بھی قوم اسی طرح منقسم ہے جیسے سقوط ڈھاکہ کے موقع پر تھی۔ بلوچستان سے لے کر شمالی علاقہ جات تک ایسے دکھائی دیتا ہے کہ آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اور بقیہ ملک تماشائی ہے۔ قوم کا مزاج چڑچڑا، یقین متزلزل، ذہنوں میں خلفشاری، دلوں میں قدورت، لہجوں میں سختی اور رویوں میں بداخلاقی اور بددیانتی واضح نظر آتی ہے۔ ایسے حالات میں دہشتگردی کا بے قابو جن کبھی بھی کہیں بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی سے زیادہ دہشت زدگی ہے جس نے پوری قوم کو حواس باختہ کر رکھا ہے۔ دنیا میں ہر قوم سانحات اور حادثات کا شکار ہوتی ہے، مگر ان حوادث اور المیوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہوئے ذمہ داروں کو منطقی انجام تک پہنچانا اور متاثرہ افراد کی قربانی کو کبھی نہ بھولنا عظیم قوم کی نشانی ہے۔ قوموں کی ترقی میں ان کی تاریخ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور جو قومیں اپنے ماضی کو فراموش کردیتی ہیں اور اپنی غلطیوں کو نہیں سدھارتیں وہ ترقی نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ان قوموں کے معاشروں میں انسانی جان کی اہمیت باقی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک تاریخی حقیقت پر مبنی چند سیکنڈ کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس کا عکس قارئین کی نذر ہے۔ امریکہ کی نسبتاً پسماندہ ریاست اوکلاہوما میں19اپریل 1995ء کو وفاقی عمارت الفریڈ پی موراہ میں خوفناک دھماکے کے نتیجے میں 19بچوں سمیت 168افراد موت کی آغوش میں چلے گئے، یہ امریکہ کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ تھا جس سے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اس واقعے سے ملنے والے سبق کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے حکومت نے جو طریقہ اپنایا اس سے متعلق کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ بم دھماکے کے واقعے کے بعد اوکلاہوما سٹی کے میئر آفس، گورنر کے دفتر، غیر سرکاری تنظیموں کو عوام کے مختلف طبقات کی طرف سے بم دھماکے میں اپنی جانیں گنوانے والوں کی یاد میں ایک ’ یادگار‘ تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی جسے منظور کیا گیا اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے خیالات اور رائے کو شامل کرتے ہوئے طویل منصوبہ بندی کے بعد یادگار تعمیر کی گئی۔ بیرونی حصے کے درمیان میں بہتا پانی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بڑے سے بڑے سانحے کے بعد بھی زندگی رواں دواں رہتی ہے جبکہ واقعے کے ایک طرف کھڑی یادگاری دیوار پر 9بج کر ایک منٹ یہ بتاتا ہے کہ اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا اور دوسری طرف دیوار پر 9بج کر 3منٹ کا وقت اس لیے لکھا گیا ہے کہ دو منٹ بعد ہی پورا منظر تبدیل ہو چکا تھا۔ ان تمام مناظر کو دیکھ کر میرے ذہن میں 2014ء کے سانحہ آرمی پبلک سکول ( اے پی ایس) پشاور آگیا اور ملک کی تاریخ میں دہشت گردی کے ہولناک واقعات میں سے ایک کی فلم جیسے نظروں کے سامنے چلنے لگی۔ اپنے جذبات پر جیسے ہی قابو پایا تو ذہن میں کئی سوالات اٹھے۔ بلاشبہ سانحہ اے پی ایس ایک ایسا واقعہ تھا جس کے بارے میں سوچ کر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے اور اس واقعے نے پوری قوم اور ملکی قیادت کو پاک سرزمین سے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے نیا جذبہ دیا اور سیاسی و عسکری قیادت نے پرعزم ہو کر نیشنل ایکشن پلان ( نیپ) ترتیب دیا۔ لیکن کیا ہم نے اس واقعے سے سبق سیکھنے اور دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم کو تازہ رکھنے لیے کچھ کیا؟ کیا ہم شہیدوں کے لواحقین کا غم بھول چکے ہیں؟ کیا ہمارے بچے اپنے تعلیمی اداروں میں بلاخوف تعلیم حاصل کر پا رہے ہیں؟ بطور قوم ہم چاہتے تو ایسے کئی اقدامات اٹھا سکتے تھے جس سے اس سانحے کا غم ہمیشہ تازہ رہتا اور ہماری آنے والی نسلیں اس اندوہناک واقعے کو یاد رکھ کر دہشت گردوں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف ہمیشہ متحد رہتیں۔ مگر افسوس ہمیں سیاست کے گندے بازار میں خریداری سے ہی فرصت نہیں۔ اگر ہم واقعی دنیا میں ایک بیدار، ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھنے، ملک کے لیے مر مٹنے کا عزم رکھنے والی اور اس کے لیے جانوں کی قربانی دینے پر فخر کرنے والی قوم کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج ہی اپنے رویے پر نظر ڈالنی ہوگی، قومی غیرت کو للکارنا ہوگا اور اپنے کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم واقعی ایک زندہ قوم ہیں جو اپنے شہیدوں کے خون کا قرض اتارنا بھی جانتی ہے اور دنیا میں ہر سطح پر اپنا لوہا منوانا بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button