CM RizwanColumn

قانون کی حکمرانی کا خواب

سی ایم رضوان
قائد اعظم محمد علی جناحؒ بانی پاکستان سے لے کر آج کے ایک عام ذی شعور پاکستانی تک ہم سب کا یہ خواب ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی والا نظام پوری طاقت، رعنائی اور اعلیٰ ترین روایات کے ساتھ نافذ ہو۔ لیکن افسوس کہ پچھلے 75سالوں میں یہ خواب پورا نہیں ہو سکا البتہ اس خواب کی تکمیل کی امیدیں اکثر بندھتی اور ٹوٹتی رہی ہیں۔ قانون کی حکمرانی کا تعلق چونکہ ہمارے عدالتی نظام سے ہے اس لئے یہاں پر وقتاً فوقتاً لگنے والے آئین و قانون کے حوالے سے مختلف مقدمات، پٹیشنز اور ریفرنسز ہمیشہ سے ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ایئر مارشل ر اصغر خان کی جانب سے پاکستانی سیاست، انتخابات اور حکومتوں کی تشکیل میں پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے مشکوک کردار کو چیلنج کیے جانے کے مقدمات اکثر حوالہ کی صورت اختیار کرتے رہے ہیں جن کی سماعت کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کے بیانات خاصی شہرت پا چکے ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چودھری کی عدالت میں اسد درانی نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل ( ر) اسلم بیگ کی ہدایت پر سیاستدانوں میں14کروڑ روپے تقسیم کیے تھے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں تین رکنی پینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی تھی۔ سماعت کے دوران اسد درانی نے عدالت کو بتایا تھا کہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ سن انیس سو نوے کے موسمِ سرما میں مجھے اسلم بیگ کی جانب سے ہدایت ملی تھی کہ کراچی کی کاروباری برادری کے بعض ارکان نے اسلامی جمہوری اتحاد کو دینے کے لئے فنڈز جمع کر لئے ہیں۔ عدالت کے سامنے با آوازِ بلند اپنا بیان پڑھتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم تھا کہ اسلم بیگ کو رقم اکٹھی کرنے کی ہدایت اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے آئی تھی اور مجھے کہا گیا تھا کہ اسی مقصد کے لئے بنائے گئے الیکشن سیل کی جانب سے دیئے گئے فارمولے کے مطابق رقم کی تقسیم یقینی بنائو۔ مزید یہ کہ اسی بیان میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے خفیہ ادارے میں کسی بھی سیاسی ونگ کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی فوجی سیاسی کام کر سکتا ہے۔ اس سے قبل جب سماعت شروع ہوئی تھی تو سب سے پہلے فوج کے سابق سربراہ جنرل ( ر) اسلم بیگ کو عدالت میں جمع کرائے جانے والے اپنے بیان کے پیراگراف نمبر چودہ کے لئے تحریری معافی مانگنا پڑی تھی۔ اس پیراگراف میں انہوں نے تین مختلف چیف جسٹس صاحبان کے سامنے اپنی پیشی کو ’ ہیٹ ٹرک‘ کہا تھا۔ عدالت نے اسلم بیگ کے بیان کے پیراگراف نو پر بھی ان کی سرزنش کی تھی جس میں انہوں نی لکھا ہے کہ ’’ سیاست اور جرم مل گیا تو انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ بنی‘‘۔ اسلم بیگ نے اپنے بیان کے آخر میں کہا تھا کہ ’’ مجھے سزا کس جرم کے لئے دی جا رہی ہے‘‘۔ جبکہ سابق جنرل اسلم بیگ نے یونس حبیب کی جانب سے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بے قصور ہیں۔ سماعت کے دوران جسٹس خلجی عارف نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ کچھ لوگ ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ بہرحال اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جو وردی پہن کر دھاندلی کرتے ہیں اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ فوجداری عدالت نہیں ہے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ان افراد کے خلاف اقدامات کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو ہدایت دے یا پھر عدالت کوئی ڈیکلیریشن دے۔ جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی کے بیانات کے بعد درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ مقدمے میں ملوث سرکاری افسران نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔
پاکستان جس آئینی صورت حال سے تب دوچار تھا تقریباً وہی صورت آج بھی ہے۔ چند طاقت ور ماضی میں اپنی دھونس جمانے کے لئے آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے رہے لیکن ان کے خلاف بعض اوقات قانون موم کی ناک بنا رہا۔ جس کے اثرات آج بھی لوگوں کو خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اور لوگ مختلف خدشات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن آج صورتحال کافی مختلف ہے بغیر کسی لگی لپٹی کے گزارش ہے کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آئین و قانون کی بالادستی کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں اور مزید بھی ایسے ہی فیصلے متوقع ہیں جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ زندہ مثال سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اپیل کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف نوٹس جاری ہونا ہے جس کو کئی حلقے قابل ستائش قرار دے رہے ہیں۔ اس سے یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں اور جو طاقت میں آنے کے بعد اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ان کے لئے یہ ایک مضبوط پیغام ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی اپیل کی سماعت کے دوران چار افراد کو نوٹسز جاری کئے ہیں، جس میں سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور خان کاسی، ریٹائرڈ بریگیڈئیر عرفان رامے اور سابق رجسٹرار ارباب محمد عارف شامل ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت پانچ رکنی بینچ شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برخواستگی کے خلاف اپیل کو سن رہی تھی۔ بینچ کے دوسرے ارکان میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سادات شامل تھے۔ جبکہ شوکت عزیز صدیقی نے اپنی ترمیمی اپیل میں سات افراد کے نام دیئے تھے۔ تاہم عدالت کی حجت تھی کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور دو سابق بریگیڈئیرز فیصل مروت اور طاہر وفائی کا اس کیس سے کوئی براہ راست تعلق نہ ہے۔ واضح رہے کہ شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے 11اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو نوکری سے ہٹایا گیا تھا۔ انہوں نے دوران ملازمت 21جولائی 2018ء کو راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر سنگین الزامات لگائے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ عدلیہ پر دبا ڈال کر بینچز بنواتے ہیں۔ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ( ر) فیض حمید کو اپنے دور میں انتہائی طاقتور سمجھا جاتا تھا اور ان کے حوالے سی کچھ عرصہ پہلے ایک بزنس مین نے بھی شکایت کی تھی کہ ان کے کہنے پر انہیں اغوا کیا گیا اور ان کی فیملی کو ہراساں کیا گیا۔
وکلا برادری نے بھی مذکورہ نوٹسز کے اجراء کو بہت مثبت قرار دیا گیا ہے۔ یہ انتہائی حوصلہ افزا، مثبت پیش رفت ہے کہ عدالت طاقتور لوگوں کو یہ بتا رہی ہے کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور یہ کہ اگر کسی نے بے پناہ طاقت کے ساتھ اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے تو عدالت اس کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ قانون کی زد میں آ سکتا ہے اور پاکستان قانون کی حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے، جو یقیناً عام پاکستانی کے لئے ایک اچھی بات اور نہایت جرات مندانہ اقدام ہے اور بات صرف نوٹسز جاری کرنے تک ہی نہیں بلکہ جس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کو سینسر کیا گیا تھا گزشتہ روز وہ پورے پاکستان کو سپریم کورٹ کے ذریعے پہنچی، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے کھل کر یہ الزام لگایا تھا کہ کس طرح اس وقت کے چیف جسٹس نے کوئٹہ میں بیٹھ کر بینچز بنوائے تھے۔ اب عدالتیں بھی یہ بات پیش نظر رکھتی ہیں کہ ان کی ساکھ پر سوال نہ اٹھے۔ اب صرف سپریم کورٹ نہیں بلکہ دوسری عدالتیں بھی جرات کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور وہ بھی طاقتور لوگوں کو طلب کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک کیس ایک ریٹائرڈ کرنل کا لاہور ہائی کورٹ پنڈی برانچ میں سامنے آیا ہے، جس میں کرنل کو ریٹائرمنٹ کے باوجود پینشن نہیں دی جا رہی۔ اس کیس میں متعلقہ عدالت کے جج نے ایک حاضر سروس میجر جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا کہا ہے، عملاً یہ ساری باتیں حوصلہ افزا ہیں اور اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ملک قانون کی حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سابقہ حالات و واقعات کے تناظر میں گو کہ آج بھی پاکستان میں عام خیال کیا جاتا ہے کہ جرنیلوں کا عدالتیں احتساب نہیں کر پاتیں۔ تاہم جنرل مشرف سمیت تاریخ میں کچھ ایسے فوجی افسران گزرے ہیں جن کے خلاف عدالتوں نے فیصلے دیئے ہیں اب بھی امید ہے کہ آئندہ بھی قانون کی حکمرانی قائم ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button