ColumnRoshan Lal

کشمیر کس کا۔۔ کشمیریوں کا کون؟

تحریر: روشن لعل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو بھارتی پارلیمنٹ نے اگست 2019ء میں ختم کیا ۔ بھارتی آئین کے جس آرٹیکل میں یہ شرط درج ہے کہ اس میں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی رضا مندی کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اسے بھارتی پارلیمنٹ نے یکطرفہ کاروائی کرتے ہوئے ختم کیا ۔ بھارتی پارلیمنٹ نے صرف آرٹیکل 370ہی ختم نہیں کیا بلکہ کشمیر کو لیہ و لداخ اور جموں و کشمیر کے نام سے دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں ریاستی حیثیت دینے کی بجائے مرکز کے ماتحت علاقہ بنا دیا۔ بھارتی حکومت اور پارلیمنٹ کے اس عمل کو خاص طور پر کشمیری رہنمائوں نے فوراً بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ بھارتی سپریم آرٹیکل 370کے خاتمے کے خلاف درخواستیں وصول کرنے کے بعد لمبی تان کر سو گیا۔ بھارت کی اس سب سے بڑی عدالت نے ان درخواستوں کے لیے اس وقت آنکھیں کھولیں جب بھارت کے آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں ایک برس سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اگست 2023میں روزانہ کی بنیاد پر اس کیس پر سماعت شروع کی ، ستمبر میں فیصلہ محفوظ کیا اور 11دسمبر 2023کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں آرٹیکل 370کے خاتمے کو بھارتی پارلیمنٹ کا جائز عمل قرار دے دیا۔1846سے 1947تک پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر تاج برطانیہ کے ماتحت علاقے کی حیثیت سے خود مختار ریاست کے طور پر وجود رکھنے والے کشمیر کے موجودہ منقسم حصوں کو چاہے کوئی شہ رگ یا اٹوٹ انگ کہتا رہے مگر گوگل کے جاری کردہ نقشوں میں اسے متنازعہ علاقہ ظاہر کیا جاتاہے۔ اصل میں کشمیر کو اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی روشنی میں متنازعہ علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ کشمیری عوام رائے شماری کے ذریعے یہ طے کریں گے کہ ان کا خطہ کس ملک کا حصہ بنے گا۔ گزشتہ 76برسوں سے متنازعہ حیثیت میں موجود کشمیر کے عوام کو رائے شماری کا موقع کیوں نہیں مل سکا ور اس کے لیے کون کتنا ذمہ دار ہے یہ ایک الگ بحث ہے مگر ایسی بحثوں کے جاری رہنے کے باوجود کوئی کشمیر کے متنازعہ ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس متنازعہ علاقے کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے رہنے کے باوجود بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370کے تحت اسے ایسی خصوصی حیثیت دے رکھی تھی جو کسی دوسری بھارتی ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ پہلے بھارتی پارلیمنٹ نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370کو ختم کیا اور اب بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے اپنی پارلیمنٹ کی کارروائی کی توثیق کر دی ہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں سمیت بھارت میں بھی تبصرے کیے جارہے ہیں ۔ جب بھارت سے شائع ہونے والا معتبر انگریزی اخبار ’’ دی ہندو‘‘ انڈین سپریم کورٹ کے آرٹیکل 370پر آنے والے فیصلے کو قانونی اور مبنی بر انصاف ماننے کی بجائے ایسا سیاسی فیصلہ قرار دے جس کا مقصد آئندہ الیکشن میں نریندر مودی کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے تو پھر یہ دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ پاکستان یا دنیا کے دیگر ملکوں میں اس فیصلے پر کیا تبصرے کیے جارہے ہیں۔
ایک متنازعہ علاقہ کے متعلق بھارتی پارلیمنٹ نے جو عمل کیا اور اس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے جس طرح اس عمل کی توثیق کی اسے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کے علاقے کو تو اپنا بنائے رکھنا چاہتا ہے مگر اس علاقے میں بسنے والے کشمیریوں کے جذبات ، احساسات اور زندگیوں سے اسے کوئی غرض نہیں ہے۔ کشمیریوں کے حوالے سے جو بات بھارت کے متعلق کہی جاسکتی ہے وہی بات پاکستان کے متعلق کہنے کا بھی مکمل جواز موجود ہے مگر اس وقت موضوع بحث کیونکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر ، وہاں کے کشمیری اور ان کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 370 ہے اس لیے یہاں صرف اسی موضوع پر بات کی جائے گی۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کے متعلق بات کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ جس آرٹیکل 370کو بھارتی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ نے آئین سے حذف کیا آخر اسے آئین کا حصہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔ اگر کسی کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ بھارت نے آرٹیکل 370کو اپنے آئین کا حصہ کیوں بنایا تو اسے یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ کشمیر میں بسنے والے کشمیری بھارت اور پاکستان کے لیے ہمیشہ بے وقعت نہیں تھے۔ یہ بات ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے وقت کشمیر پر جنگ شروع ہونے کے بعد پنڈت نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے اور اس ادارے کی منظور کردہ ان قراردادوں کو تسلیم کیا گیا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ، رائے شماری کے ذریعے کشمیری خود کریں گے۔ ان قراردودوں کے مطابق رائے شماری سے قبل پاکستان اور ہندوستان پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی گئی تھیں جنہیں ان دونوں ملکوں نے پورا نہ کیا۔ ان دونوں ملکوں کے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کا جواز قرار دے دیا جاتا ہے مگر اس طرح کا جواز پیش کرنے والوں میں سے کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہوتا کہ ذمہ داریاں اگر پاکستان اور بھارت نے پوری نہیں کیں تو اس میں کشمیریوں کا ایسا کیا قصور ہے کہ انہیں رائے شماری کے تسلیم شدہ حق سے محروم رکھا جائے۔
کشمیریوں کو بھارت اور پاکستان نے اس وقت تک بہت اہمیت دیئے رکھی جب رائے شماری ہونے کا بہت زیادہ امکان اس وجہ سے موجود تھا کیونکہ سرد جنگ کے آغاز کے باوجود دنیا کے ملک واضح طور پر مختلف دھڑوں کا حصہ نہیں بنے تھے۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت کے ایما پر کشمیر کے مہاراجہ ہر ی سنگھ نے 30اکتوبر کو جب ریاست کا اقتدار شیخ عبداللہ کے حوالے کیا تو اس سے قبل جنگ کے نتیجے میں پاکستان کے زیر انتظام آچکے علاقوں میں سردار ابراہیم کی صدارت میں آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں لایا جا چکا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت اور پاکستان ایک دوسرے سے بڑھ کر یہ تاثر دینے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ کشمیری انہیں اتنے عزیز ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ دوسرا فریق کر ہی نہیں سکتا۔ ایسی کوششوں کے تسلسل میں نہ صرف بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370کو آئین کا حصہ بنایا بلکہ یہ شرط بھی رکھی کہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی منشا کے بغیر بھارتی پارلیمنٹ کو اس آرٹیکل میں ترمیم و ردوبدل کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
وہ دور کب کا گزر چکا جب بھارت اور پاکستان کے لیے صرف کشمیر نہیں بلکہ کشمیری بھی اہم ہوا کرتے تھے ۔ بھارتی حکومت ، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370کے ساتھ جو کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت کے لیے کشمیری نہیں صرف کشمیر اہم ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے لیے کسی طرح بھی اہم نہیں ہیں مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کشمیری ہمارے لیے کیا ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button