ColumnQadir Khan

زرداری پُر اعتماد اور مطمئن کیوں؟

تحریر: قادر خان یوسف زئی
کہا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری کی سیاست وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے پاکستان میں روایتی سیاست ختم ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست کے غیر متعینہ اصولوں کو دیکھتے ہوئے، زرداری ایک نمایاں شخصیت ہیں، جو بغیر کسی لیول پلیئنگ گرائونڈ کے اپنا سیاسی میدان بنانے میں ماہر ہیں۔ آخری لمحے تک اپنے ارادوں کے بارے میں اندھیرے میں اتحادیوں کو بھی رکھنا اکثر چونکا دینے والا قرار دیا جاتا ہے یہاں تک کہ مشکلات کے باوجود، زرداری نے اپنے سیاسی قد کو برقرار رکھا، جیل میں گزارے گئے اپنے وقت کو سیاسی میدان کے لیے ایک منفرد تربیت گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ ان کے پاس چیلنجوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کی مہارت ہے۔ اتحادیوں کو بھی علم نہیں ہو پاتا کہ ان کا اونٹ کب اور کیس کروٹ بیٹھے گا ، زرداری اپنے پتے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور ان پتوں کو آخر میں شو کر کے جیت بھی اپنا نام کر لیتے ہیں۔
یہ تو ایک رائے ہے جو عمومی طور پر ان کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں جب رائو انوار نے ایک نجی نیوز چینل کو تہلکہ خیز انٹرویو دیا تو زرداری پر سوالات اٹھے۔ حالانکہ، وہ رائو انوار کو غیر اہم ایشو قرار دیتے ہوئے، اپنی وفاداری کو ’’ گولڈ میڈل‘‘ سے منسوب کرکے اسے ماضی میں ’’ اپنا بچہ‘‘ قرار دیتے نظر آتے تھے۔ اس اقدام نے نہ صرف زرداری کے اعتماد کو متاثر نہیں کیا بلکہ ملک میں سیاسی جوش میں اضافہ کیا ۔ سیاسی جنگ کا واضح اعلان کرتے ہوئے زرداری کے موجودہ ہدف شریف برادران ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ اگلے وزیر اعظم ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ جبکہ بلاول جوان ہیں اور اچھی شہرت رکھتے ہیں، پرانے سیاست دانوں کے خلاف واضح کہہ چکے کہ ان سے تو مقابلہ ہی نہیں تاہم زرداری کا دعویٰ کہ ضرورت پڑنے پر خود باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے یہ امر بھی بڑی باریکی سے واضح کر دیا کہ جب وہ کسی اور کے لئے نمبر پورے کر سکتے ہیں تو اپنے لئے نمبر پورے کرنا اُن کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نوجوان اور سیمابی کیفیت رکھتے ہیں۔ اس وقت وہ جو کچھ ہیں زرداری کی وجہ سے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، وزارتوں کا ملنا اور وزارت عظمی لینے میں زمین آسمان کا فرق ہے اس وقت بیانیہ پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف جاری ہے۔ چوتھی بار وزیر اعظم رہنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے ان کا چیلنج غیر معمولی ہے۔ پارٹیوں و بندوں کے جوڑ توڑ اور بند کمروں کے ساتھ کھلے ماحول میں گیم نمبر بدلنے میں آصف علی زرداری جیسا ماہر بھی کوئی نہیں ۔ سیاست میں جمہوریت کا مطلب کیونکہ بندے گننا ہے اس لئے بندے پورے کرنا بھی اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں ۔ چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اپنے بدترین مخالف کو اتحادی بنا لینا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔
بند دروازوں کے پیچھے کھیل کی حرکیات کو تبدیل کرنے، جماعتوں اور افراد کو جوڑ توڑ کرنے میں زرداری کی سیاسی ذہانت بے مثال ہے۔ سابق مخالفین اور چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اس کے اتحاد جمہوری میدان میں اس کی حکمت عملی کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو، ذوالفقار مرزا، فضل الرحمان، ایم کیو ایم، یا ن ، ق لیگ کے ساتھ معاملہ، مخالفین کو بے اثر کرنے میں زرداری کی حکمت عملیاں ضرب المثل بن چکی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کا تعاون، جو نائب وزیر اعظم کے عہدے کی تخلیق میں واضح ہے، سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اگرچہ سندھ میں سیاسی منظر نامے میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے دوبارہ زرداری کے ساتھ اتحاد ی بننے کے امکان خارج از امکان بھی نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اقتدار سے ہٹانے کا الزام لگاتے ہوئے شاندار کارکردگی کی داستان کے ساتھ خود کو کھڑا کر رہی ہے۔
زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کسی بھی سیاسی میدان میں نیویگیٹ کرنے کے لیے تیار ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اس وقت نظر نہ آنے کے باوجود مفاہمت کی سیاست بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہے اور اس سلسلے میں زرداری کی مہارت بے مثال ہے پاکستان مسلم لیگ ن کا اصل مقابلہ پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ ان کی حکومت کے اتحادی مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری سے ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بینک مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے لیکن عمران خان کی عدم مطابقت اور مشرف دور کے الیکٹیبلز کی موجودگی اسے زرداری کے اثر و رسوخ کا شکار بنا سکتی ہے۔ زرداری کا اعتماد اور اطمینان پاکستانی سیاست کے غیر متوقع میدان میں چال چلانے کی ان کی صلاحیت سے پیدا ہوا، جہاں صرف تبدیلی ہی مستقل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو کراچی کی جو نشستیں دلوائی گئیں ، وہ کسی کو بھی دی جا سکتی ہیں۔ یہ ناممکن تو نہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ ن اس بیانیہ کے ساتھ میدان میں ہے کہ ان کی کار کردگی شان دار رہی، اور انہیں ایک منصوبے کے تحت اقتدار سے الگ کیا گیا۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ مخالفت کر کے دیکھ لی، اس بار حمایت کر کے دیکھتے ہیں۔ ان پر سپر لاڈلے کی چھاپ لگ چکی ہے، لیکن اس سے عوام کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی میدان میں کسی بھی فیلڈ میں کھیلنے کے لئے آمادہ ہے، زرداری کے اعصاب مضبوط ہیں۔ جو صدر مملکت کے طاقت در اختیارات پارلیمان کو منتقل کر سکتا ہے تو اُس کی اعتماد کا لیول جانچا جا سکتا ہے۔ بادی النظر ان کی ٹرین کو گرین سگنل کی ضرورت ہے ،پی پی پی کی سیاسی ٹرین اس وقت سندھ کی بارڈر پر رکی ہوئی ہے ان حالات میں از خود ٹرین کو بڑھانے کا رسک زرداری نہیں لینا چاہتے کہ ایسا نہ ہو کہ پٹریاں اکھڑ جائیں اور سندھ اُن کے ہاتھ میں نہ رہے۔ پی ٹی آئی کا قانونی دفاع ایک جیالا کر رہا ہے۔ ان کا نائب بھی ایک سابق جیالا ہے اور جسے پارٹی کی بھاگ دوڑ حوالے کی ہے وہ بھی ایک سابق جیالا ہی تھا۔ پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی میں کوئی نظریاتی نہیں ۔ اس لئے نا ممکن نہیں کہ زرداری کی نظریں ایک سبز اشارے کے بعد پی ٹی آئی پر چمک اٹھیں، چونکہ سیاست میں حرف آخر نہیں تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہو جانا نا ممکن نہیں، اس لئے گمان کیا جا سکتا ہے زرداری اتنے پر اعتماد اور مطمئن کیوں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button