ColumnTajamul Hussain Hashmi

بھٹو لیڈر یا بعد کے لیڈر

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
گزرے 44سالوں کی تاریخ فیصلہ دے چکی کہ سابقہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک ‘‘ عدالتی نا انصافی ‘‘ تھی۔ اس نا انصافی سے ایک لیڈر دینا سے چلا گیا، شاید ہمارے ہاں ایسے بے باق لیڈروں کی ضرورت نہیں تھی جو اس طرح ٹریٹ کر کے سزائے موت دے دی گئی ۔
اب نہ بھٹو زندہ ہے نہ جنرل ضیاء اور نہ وہ کردار جو بھٹو کے شدید مخالف تھے۔ بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تو کیا اس کے بعد آنے والے حکمرانوں کے ساتھ انصاف ہوا ؟ بھٹو کی پھانسی سے پہلے کیا کچھ نہیں ہوا، کئی پلان ترتیب دئیے گئے، سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے لیکن ماضی سے ہم کہاں سیکھنے والے ہیں۔ آج سب مانتے ہیں کہ بھٹو فیصلہ سازی میں مضبوط تھا۔ امریکا جیسے سپر پاور کی ڈکٹیشن کو نہیں مانتا تھا ، اس کی سوچ میں ملک اور قوم کی مضبوط بنیاد تھی۔ ویسے سپر پاور کے ساتھ الجھائو کی سیاست کی سمجھ نہیں آئی، ہمارا امریکا کے ساتھ کیسا موازنہ، ہمارے لیڈر امریکا کے نام پر اپنی سیاسی دکان کیوں چلاتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جیسا کہ ماضی کی حکومتوں میں ہوتا رہا اور ابھی چند سال پہلے سابقہ وزیر اعظم نے ایسا غلط تاثر پیدا کیا جس کے نتیجے میں ملک افراتفری کا شکار ہوا اور 9مئی کا دن دیکھنا پڑا۔ کسی سپر پاور کی ڈکٹیشن سے لیڈر خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ وہ قوم کو معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط کرتے ہیں، جیسا کہ بھٹو نے ملکی سلامتی کے پروگرام پر کوئی ڈکٹیشن قبول نہیں کی اور پروگرام جاری رکھا۔ لیڈر نظریے اور قوم کے غلام ہوتے ہیں، ان کے نظریے میں موت چھوٹی ملکی مفاد اہم ہوتا ہے، مفاہمت پر یقین نہیں کرتے، عوامی سپورٹ کو حقیقی طاقت تسلیم کرتے ہیں ، سہاروں پر زندہ نہیں رہتے۔ اسی لیے بھٹو آج تاریخ میں زندہ ہے لیکن بھٹو کے بعد کے لیڈروں کی حالت اور ملک و قوم کی حالت سب کے سامنے ہے، تاریخ اپنے فیصلے کرتی ہے اگر کوئی تاریخی ہو۔ ہمارے ہاں لیڈروں کو تاریخ نہیں تخت پر بیٹھنے کا جنون ہے۔ لیڈر کا فیصلہ ملکی وقار کو زندہ رکھتا ہے، بھٹو نے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا سپر پاور کی ایک نہیں مانی اور آج تاریخ میں زندہ ہے، آج پاکستان کی عدلیہ سے قوم پر امید ہے۔ جو آئین کے مطابق فیصلے دے رہی ہے۔ کسی نظریہ ضرورت کے تابع نہیں۔ فیصلے جمہوریت کے لیے خوش آئند ہوں گے عوامی مفاد کے تحفظ کے فیصلے کئے جائیں گے، بھٹو کی پھانسی کے کئی کردار آج دنیا میں نہیں ہیں، لیکن حیران کن لمحات ہیں کہ آج کے لیڈر نظریے سے زیادہ مفاہمت کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں ،مفاہمت کیا ہے اس کی سمجھ ہر خاص و عام کو ہو چکی ہے ، مفاہمت کو سمجھ کے لیے سینئر صحافی سلیم صافی کے کالم ’’ بادشاہانہ سیاست ‘‘ پڑھیں، جس میں لکھا کہ ’’ میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے مقدمات بھی کسی اور نے ان کے لیے ختم کرنے ہیں سیاسی بیانیہ بھی ان کے لیے کسی اور نے تشکیل دینا ہے اور پی ٹی آئی کو بھی کسی اور نے سمجھانا ہے ۔
میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ کسی اور نے ان کے لیے یہ سب کچھ کر کے اقتدار ان کی جھولی میں ڈالناہے‘‘۔ ہمارے لیڈروں کو ایسی مفاہمت، سہاروں کی ضرورت ہے۔ عوامی ووٹنگ سے پہلے ہی وزیر اعظم کے نعرے لگ جائیں ، ’’ ساڈی گل ہو گئی اے‘‘ جیسی باتیں میڈیا پر چل رہی ہوں۔ جہاں حکومت اس مقصد کے لیے حاصل کی جاتی ہے کہ اپنے ذاتی کاروبار کو ترجیح اور سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنا مقصود ہو، ان 76سالوں سے اسٹیبلشمنٹ پر الزام ترشی سنتے ہوئے کان پک گئے ہیں ، 1970سے پہلے جو منصوبے لگے ان جیسا دوسرا کوئی پراجیکٹ نہیں بنا۔ آج کل تو یہ بھی مارکیٹ ہے کہ نواز شریف دور کے پراجیکٹ نکال دیں تو کچھ نہیں بچتا ، ایسے کئی بیانیے بنائے جاتے رہے لیکن پھر بھی کوئی بیانیہ نہ بنا سکے، مفاہمت زدہ لیڈروں کی حالت ایک پریس کانفرنس ہے جو گزشتہ روز رائو انوار کی طرف سے کی گئی جس میں 7کھرب کی منی لانڈرنگ کا پردہ چاک ہوا، اربوں روپے کے محلات، دنیا بھر میں کاروبار۔ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کا مقصد قوم کو سمجھ گئی، ان سیاست دانوں کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں، 24کروڑ عوام اعلیٰ اداروں کے خلاف بیانوں کو ریجیکٹ کر چکے ہیں، ملکی تحفظ کی ذمہ داری بھر پور ادا کی جا رہی ہے، روزانہ ہمارے جوان ملکی سلامتی کے لیے شہید ہو رہے ہیں، لیکن جن سیاسی قائدین کے ذمہ معیشت تھی وہ آج بیان بازیوں میں مصروف ہیں، ملک اس طرح کبھی نہیں چل سکتے، جس طرح چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پھر تنقید ان پر جو اپنی ڈیوٹی پر کھڑے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button