ColumnM Riaz Advocate

بھٹو نے عدالت کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کر دیا

تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ

سال 2011میں صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر درج ذیل سوالات کی صورت میں رائے حاصل کرنے کی بابت صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ 1۔ ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ 2۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ 3۔سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ 4۔ سزائے موت قرآنی احکامات کے مطابق درست ہے؟ 5۔ فراہم کردہ ثبوت اور شہادتیں سزا سنانے کے لیے کافی تھیں؟۔
صدارتی ریفرنس دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اس کیس کی پہلی سماعت 2جنوری 2012جبکہ آخری 12نومبر 2012ء کو ہوئی۔ پہلی 5سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں 11رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔ آخری سماعت کے بعد 8 چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت پوری کر چکے مگر کسی نے بھی اس صدارتی ریفرنس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر نہ کیا۔ صدارتی ریفرنس کے سوالوں کے جوابات کی تلاش کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 9رکنی لارجر بینچ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی سماعت کر رہا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے نجی ٹی وی کے پروگرام میں سینئر صحافی افتخار احمد کو دیئے گئی انٹرویو کے دوران دیئے گئے بیانات کو بنیاد بنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہونے کی بجائی لاہور ہائی کورٹ میں کرنا غیر آئینی تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا صدر پاکستان سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر سکتا ہے؟ جی بالکل ، صدر پاکستان آئین پاکستان کے آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر سکتا ہے ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 186کے مطابق صدرِ مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل معاملہ /سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس معاملہ پر رائے لینے کے لیے عدالت عظمیٰ کو بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا دے گی۔ اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صدارتی ریفرنس دائر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟ اور صدارتی ریفرنس کے اختتام پر سپریم کورٹ کی رائے کے کیا اثرات ہونگے؟ تاریخی طور پر وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو کو تختہ دار پر اک سازش کے تحت پہنچایا گیا۔ جسکی سب سے بڑی گواہی بھٹو کو پھانسی دینے والے بینچ کے جج جسٹس نسیم حسن شاہ کا ضیاء الحق کے دباو میں آکر پھانسی کا فیصلہ دینے کا اعترافی ٹی وی بیان تھا ۔ یہ بیان آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ صدر زرداری کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے کا مقصد بظاہر تاریخ کی درستی کرنا ہے۔ مگر درحقیت بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل ثابت کرانا ہی اصل مقصد ہے۔ آرٹیکل 189کے تحت قانونی سوالات ، قانون کے اُصولوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پیروی کرنا پاکستان کی تمام عدالتوں پر لازم ہے جبکہ بھٹو پھانسی ایسا فیصلہ ہے جس کو پاکستان کی کسی عدالت میں بطور نظیر پیش نہیں کیا جاتا کیونکہ بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچانے میں آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسا سپریم کورٹ نے بنا کسی ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کارروائی تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ مقدمہ میں مسند اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔نواز شریف کو اقتدار سے ہٹاکر سزا پہلے سنائی گئی اور نیب عدالت کا ٹرائل بعد میں کیا گیا۔ یاد رہے مروجہ فوجداری قوانین کے تحت قتل مقدمہ کی عدالتی کاروائی سب سے پہلے سیشن کورٹ میں کی جاتی ہے اس کے بعد معاملہ ہائیکورٹ اور بالآخر سپریم کورٹ پہنچتا ہے مگر بھٹو کے معاملہ میں سیشن کورٹ کو چھوڑ کر براہ راست مقدمہ ہائیکورٹ میں چلایا گیا۔ جو بالکل غیر آئینی اور غیر قانونی تھا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 10Aکے تحت پاکستان کے ہر شہری کو منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ پاکستان کی آئینی تاریخ کے ساتھ ساتھ عدالتی تاریخ بھی حوصلہ افزا نہیں رہی۔ غیر سیاسی و غیر منتخب آمروں نے جہاں آئین پاکستان کی دھجیاں اُڑائیں وہیں پر منتخب و سیاسی افراد کے خلاف ہمیشہ ہی محاذ جنگ کھولے رکھا ۔ کسی کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا ، کسی کو جلاوطنی کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آمر ضیاء الحق نے تو حد ہی کردی ۔ ایک مشکوک مقدمہ میں وقت کے سب سے زیادہ طاقتور سیاستدان و حکمران کو عدالتی کارروائی کے ذریعہ پھانسی دلوا کر منظر عام سے ہی ہٹا دیا۔ بھٹو کا شمار عالم اسلام کی قد آور شخصیات میں کیا جانے لگا اور یہ بات عالمی سامراج کے لئے ایک چیلنج سے کم نہ تھی ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کے قائدین بشمول بھٹو چُن چُن کر سامراجی سازشوں کا شکار ہوتے گئے۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے پاس آئینی طور پر سزا جزا کے برعکس صرف رائے دینے کا اختیار حاصل ہے ، ریفرنس کاروائی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو دنیا میں واپس تو نہیں آسکتے مگر پاکستانی عدلیہ کو اپنے ماتھے پر لگا بھٹو عدالتی قتل کا داغ صاف کرنے کا تاریخی موقع میسر آیا ہے اور یقینی طور ریفرنس کے اختتام پر عدالت عظمی کی رائے سے پاکستان کی آئینی و عدالتی تاریخ پر ان گنت اثرات مرتب ہونگے اور نہ صرف جسٹس منیر اور جسٹس انوار الحق جیسے کٹھ پتلیوں کے غیر آئینی اقدامات کی علامتی طور پر مذمت ہوگی بلکہ تاریخ کی درستی بھی ہوگی کہ بھٹو کو عالمی سامراجی قوتوں کے ایماء پر ایک سازش کے تحت قتل کے جھوٹے مقدمہ میں جھوٹی سزا دلوائی گئی۔ کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ 44برس بعد بھٹو نے عدالت کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے، پھر سوال کیا جاتا ہے کہ بھٹو کیسے زندہ ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button