Editorial

کھاد کی مصنوعی قلت کا تدارک ضروری ہے

پاکستان زرعی ملک ہے۔ کُل مجموعی قومی آمدن کا لگ بھگ 20فیصد حصّہ اسی سے حاصل ہوتا ہے۔ کسان ہمارے وطن کے وہ سپاہی ہیں جو شب و روز ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کی خاطر بھرپور محنت و مشقت کرتے، اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں، کڑکتی دھوپ ہو یا سرد راتیں، وہ فصلوں کی آب یاری اور دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ بڑی محبت اور محنت سے اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ پوری قوم ان کی احسان مند ہے۔ جب بھی کسی نئی نقد آور فصل کے موسم کی آمد ہوتی ہے تو کسانوں کی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب منڈلاتے دِکھائی دیتے ہیں۔ وہ دن و رات اپنے اہل خانہ کی خوش حالی کے خواب کو پالتے ہیں۔ فصلوں کے لیے بھاری رقوم قرض لیتے ہیں۔ منہ مانگے داموں مہنگے زرعی آلات اور سامان خریدتے ہیں۔ بعض اوقات اُنہیں زرعی سامان کی خریداری کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد ہی کھاد کا بحران سر اُٹھاتا ہے۔ کبھی بیج کی من مانی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ غریب کسانوں کی جیبوں پر بھرپور نقب لگانے کے سلسلے جاری رہتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ملک بھر میں غریب کاشت کار اس حوالے سے احتجاج کرتے ہیں۔ اپنے مطالبات منظور کرانے کے مطالبات کرتے ہیں، لیکن کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اُن کے حالات نہیں بدلتے، بلکہ صورت حال پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ قصہ آج کا نہیں، بلکہ یہ سلسلہ پچھلے 76برسوں سے جاری ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ملک سے وسیع پیمانے پر کھاد کی اسمگلنگ ہوتی رہی۔ اسمگلر مافیا ملکی کھاد کو بیرون ملک لے جاکر بھاری بھر کم منافع کماتا اور قومی معیشت اور زراعت کی جڑیں کھوکھلی کرتا رہا۔ پچھلے مہینوں نگراں حکومت کے تحت ملک بھر میں اسمگلرز اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ترین کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا، جس کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ ڈالر، سونا، کھاد، چینی، گندم اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ کا تدارک کیا گیا۔ اربوں روپے مالیت کی اسمگلنگ کی کوششیں ناکام بنائی گئیں۔ انتہائی وافر مقدار میں گندم، چینی، کھاد، سونا اور ڈالر اسمگلروں سے برآمد کیے گئے۔ ذخیرہ اندوزوں سے بھی بھاری مقدار میں یہ اشیاء پکڑی گئیں۔ اس کے بعد کھاد کی قیمتوں میں کچھ کمی آئی۔ قبل ازیں کھاد کی بلیک مارکیٹنگ ملک بھر میں متواتر جاری تھی اور غریب کسان اس پر سخت پریشان تھے۔ کھاد کی وافر مقدار برآمد ہونے سے کاشت کاروں کی کچھ اشک شوئی ہوئی۔ اب پھر سے ملک بھر سے کھاد کے بحران کی آوازیں سر اُٹھا رہی ہیں۔ چاروں صوبوں سے کھاد کی من مانی قیمتیں وصول کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ کھاد کی بلیک مارکیٹنگ جاری ہے۔ کاشت کاروں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ اُن کے فصلوں کے خواب چکنا چُور ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی قیمتی فصلوں کی کاشت پر ضرب پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ربیع سیزن بے پناہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جس میں گندم سمیت دیگر اہم فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔ کسانوں کے گرد تاریک مستقبل کے اندیشے گردش کررہے ہیں، جو اُنہیں ٹھیک سے سونے دیتے ہیں نہ سکون لینے دیتے ہیں۔ اسی لیے اُن کی جانب سے صورت حال کا سدباب کرنے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ اس حوالے سے مطالبات شدّت پکڑ گئے ہیں۔ پورے ملک سے کسانوں کی جانب سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ اس تناظر میں حکومت کی جانب سے اُن کی اشک شوئی کا مناسب بندوبست کرنے اور بلیک مارکیٹنگ اور مصنوعی بحران کے ذمے دار عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اچھی اطلاع یہ آئی ہے کہ نگران وفاقی حکومت نے ملک میں کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا ہے۔ نگران وزیر صنعت و تجارت گوہر اعجاز نے کہا کہ ملک میں کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو ہدایت کردی ہے کہ پیداوار اور سپلائی میں کمی نہ آنے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے قلت کے پیش نظر درآمدی کھاد کے آرڈرز بھی کردئیے ہیں، 20دسمبر سے کھاد کے جہاز روزانہ کی بنیاد پر پورٹ پر پہنچنا شروع ہوں گے۔ گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ مقررہ نرخ پر گندم کی فصل کے لیے کھاد دستیاب ہوگی۔نگران حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ احسن قرار پاتا ہے۔ اس کی جتنی توصیف کی جائے، کم ہے۔ درآمدی کھاد کے آنے سے مصنوعی قلت کی صورت حال پر قابو پانے میں بڑی مدد ملی گی۔ بس اس وقت پورے ملک میں ذخیرہ اندوزوں کو اپنی حشر سامانیاں بپا کرنے سے سختی کے ساتھ روکنا ہوگا اور اُن کی ذخیرہ اندوزی کے تمام تر راستے مسدود کرنے ہوں گے۔ کھاد تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی پیداوار اور سپلائی میں توازن قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ زراعت کے شعبے کو نقصان پہنچانے اور اپنی تجوریاں بھرنے والے منافع خور کھاد ڈیلرز، اسمگلرز اور ذخیرہ اندوزوں کا معاشرے سے قلع قمع کرنے کا راست بندوبست کیا جائے کہ اس کے بغیر زراعت میں بہتری ممکن ہے اور نہ کسانوں کی زندگی میں خوش حالی آسکتی ہے۔ بلیک مارکیٹنگ میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کریک ڈائون کا آغاز کیا جائے اور اسے ان کے اختتام تک تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ زراعت ہی سے ملک کا بہتر مستقبل وابستہ ہے۔ زرعی شعبے کی بہتری اور اس میں اصلاحات سے ہی پیداوار بڑھائی جاسکتی اور معیشت کو مزید استحکام عطا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو کسانوں کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے بھی راست اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ اُن کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔ اُن کی زندگیوں کو خوش حالی سے ہمکنار کیا جائے کہ کسان خوش حال ہوگا تو ہی ملک ترقی و خوش حالی کی معراج کو پہنچ سکے گا۔
عالمی یوم انسدادِ بدعنوانی اور اس کے تقاضے
پاکستان میں بدعنوانی اپنی انتہائی مضبوط جڑیں رکھتی ہے۔ ملک و قوم کو اس کے باعث بے پناہ نقصانات برداشت کرنے پڑے ہیں۔ وطن عزیز کے کئی اہم ادارے اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچے ہوئے ہیں، جس کی وجہ یہ کرپشن ہی ہے۔ یہ ادارے قومی خزانے پر بدترین بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ ان میں موجود کالی بھیڑوں نے ناصرف ملک کا امیج دُنیا بھر میں تباہ کیا بلکہ اہم قومی اداروں کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے اپنے لیے دُنیا میں محلات بنائے اور اپنی اولادوں کو آسائشات سے ہمکنار کیا۔ خود دُنیا کی رنگینیوں میں کھو کر یہ قومی مجرم بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ ملکی اداروں میں اوپر سے لے کر نچلی سطح تک کرپشن کے سلسلے رہتے ہیں۔ سرکاری اداروں سے وابستہ کام کے لیے عوام کو بے پناہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ رشوت دے کر کام ہوتے ہیں۔ اکثر اداروں کا یہی حال ہے۔ گزشتہ روز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقع پر ملک سے کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے بڑے عزائم ظاہر کیے گئے۔ اس حوالے سے پروگرام بھی منعقد ہوئے، جن میں بدعنوانی کے انسداد کے لیے کوششوں پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر ایک مایوس کُن اطلاع بھی یہ ملی کہ ملک میں بدعنوانی کے حوالے سے صورت حال بہتر رُخ اختیار نہیں کرسکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انسداد رشوت ستانی کیلئے کئی اقدامات کے دعوئوں کے باوجود صورتحال میں بہتری نہ آسکی، رواں سال بھی 180بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان 140ویں نمبر پر موجود ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق خود ایف بی آر کے اعلیٰ عہدیدار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کے محکمے میں سالانہ 5 سے 6سو ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، یہ تو صرف ایک محکمے کی صورت حال ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں پولیس اور عدلیہ کو بھی بدعنوان ترین اداروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ پبلک کو ڈیل کرنے والے شاید ہی کسی سرکاری محکمے کو صاف اور شفاف قرار دیا جاسکے، اس حوالے سے بارہا رابطہ کرنے کے باوجود اینٹی کرپشن حکام اپنا موقف دینے سے گریزاں رہے۔ یہ حقائق ہماری جگ ہنسائی کا باعث ہیں۔ عوام باشعور ہیں۔ اُنہیں ناصرف خود بدعنوانی سے دُور رہنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی اس سے دُور رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ عالمی یومِ انسداد بدعنوانی تقاضا کرتا ہے کہ دوسری جانب حکومت کو بدعنوانی کے مکمل خاتمے کے لیے راست حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے، جس پر سختی کے ساتھ کاربند رہا جائے۔ کرپٹ عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کی جائے۔ ان کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا جائے۔ نشان عبرت بنایا جائے۔ سخت اقدامات کیے بغیر صورت حال ہرگز بہتر نہیں بنائی جاسکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button