ColumnRoshan Lal

بھٹو ریفرنس، نیا نظریہ ضرورت؟

تحریر : روشن لعل
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے تحت تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عدالتی قتل کہا گیا۔ بھٹو کے عدالتی قتل کی بنیاد بننے والے سپریم کورٹ کے جس فیصلے کو عوام کی بہت بڑی تعداد نے عدلیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا کہا اسے زبردستی عدل کے ماتھے کا جھومر بنانے والے لوگ بھی اس ملک میں نظر آتے رہے۔ یہ لوگ کون ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس چیف جسٹس انوار الحق نے نہ صرف خود بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ سنایا بلکہ دیگر ججوں کو بھی سازش کے تحت اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ، اس کی موت پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک معروف صحافی نے 8مارچ1995 ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے تعزیتی کالم میں یہ لکھا’’ انوار صاحب ایک صاف ستھرے اور دیانتدار انسان تھے‘‘۔ یہ بات آج شاید بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہو کہ جسٹس انوارالحق کے مرنے پر میاں نواز شریف نے جو بیان جاری کیا وہ کچھ یوں تھا ’’ جسٹس انوار الحق ایک نڈر اور بے باک انسان تھے جنہوں نے عدلیہ کو ہر دبائو سے پاک رکھا‘‘۔ جن لوگوں نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے جج انوار الحق کے مرنے پر اپنے مذکورہ جذبات کا اظہار کیا ان کے متعلق آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس فیصلے کو بھٹو کا عدالتی قتل کہا گیا، وہ فیصلہ اور اس کا خالق ان کے لیے کیا مقام رکھتا تھا۔
کچھ ناعاقبت اندیشوں نے بھٹو کے عدالتی قتل کے فیصلے کو چاہے جو بھی مقام دئیے رکھا مگر تاریخ ہماری عدلیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا بننے والے فیصلے کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے فوراً بعد اس کے خلاف آواز یں اٹھانا شروع کر دی تھیں۔ ضیا نے اپنے مارشل لا کے دور ان ان آوازوں کو بلند ہونے سے روکنے کے لیے جبر اور ظلم کا ہر حربہ استعمال کیا مگر وہ ان آوازوں کو مکمل طور پر دبا نہیں سکا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ آواز زیادہ بلند ہوئیں بلکہ اس کی حمایت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ آوازیں تو بلند ہوتی رہیں مگر جن عدالتوں نے بھٹو کو سزا دی تھی ان کے اندر چہرے بدلنے کے باوجود ان کا کردار تبدیل نہ ہو سکا جس کی وجہ سے انہیں یہ احساس نہ دلایا جاسکا کہ وہاں بیٹھے سابقہ منصفوں نے کس طرح انصاف کی روح کو پامال کرکے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ پھانسی کی سزا کے 32برس بعد بھٹو کے ورثا کو اس وقت ان کے عدالتی قتل کے خلاف درخواست دینے کا حوصلہ ہوا جب ایک تحریک کے نتیجے میں بحال ہونے والے ججوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اب آزاد ہیں اور آئندہ کسی کے دبائو میں آکر فیصلے نہیں کریں۔ ججوں کے اس دعوے پر یقین کرتے ہوئے 2اپریل 2011 کو پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت نے ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ آف پاکستان سے استدعا کی کہ بھٹو کی پھانسی کا کیس دوبارہ کھول کر اس عدالتی غلطی کی تصحیح کی جائے جس کا اعتراف پھانسی کی سزا سنانے والے ایک جج نسیم حسن شاہ نے سرعام کیا تھا۔ اس صدارتی ریفرنس پر سماعت کا آغاز تو ہو گیا مگر جنوری 2012میں کے بعد اسے بری طرح سے فراموش کر دیا گیا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی اولین حکومتیں آئین کی شق 58ٹو بی کے تحت ایک جیسے الزامات کے تحت ختم کی گئی تھیں ۔ جن ججوں نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کو درست قرار دیا جب ان ججوں نے نوازشریف کی حکومت کی بحالی کے حق میں فیصلہ دیا تو پھر پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ آواز اٹھائی گئی کہ ججوں کے غیر مساوی رویے کی وجہ دونوں سابق وزرائے اعظموں کے ڈومیسائل کا فرق ہے۔ اکتوبر1999ء کے بعد پاکستان میں یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ جس نوازشریف کو بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں مختلف ڈومیسائل رکھنے کے طعنے دیئے گئے تھے اسے بھی طیارہ اغوا کے مقدمے میں عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ اس کے بعد چاہے میاں نوازشریف نے مشرف سے سمجھوتہ کر کے جلا وطنی اختیار کر لی مگر ان کا نام بھی عدالتی ریکارڈ میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سزا یافتہ مجرم کے طور درج ہوگیا۔ جب یہاں عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے نام پر افتخار محمد چودھری جیسے جج بحال ہوئے تو انہوں نے بھٹو کے عدالتی قتل کے الزام کا کلنک تو عدلیہ کے ماتھے پر سجا رہنی دیا مگر مجرموں کی فہرست میں درج میاں نوازشریف کا نام جتنی جلدی اور جیسے بھی ممکن تھا نکال باہر کیا۔
آصف علی زرداری کے عہد صدارت میں بھٹو کی پھانسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں جو اہم قانونی نکات اٹھائے گئے وہ کچھ یوں ہیں۔ (1)کیا لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ان بنیادی حقوق کو ملحوظ خاطر رکھا جو انہیں آئین کے آرٹیکل4 ، (1) (2)، 8،9،10A ،14اور 25کے تحت حاصل تھے۔ اگر مرکوزہ آئینی حقوق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تو ان کے مقدمہ پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ (2) آئین کے آرٹیکل 189کے تحت تمام عدالتیں ، عدالت عالیہ اور عظمیٰ کے فیصلوں کو نظیر بنا کر ان کی روشنی میں فیصلے دے سکتی ہیں، کیا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کو آئین کے آرٹیکل 189کے تحت کسی بھی عدالت میں کبھی قانونی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو کن نتائج اور وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں کیا گیا۔ (3)اس ( بھٹو کے) مقدمے سے جڑی حیران کن تفصیلات کی موجودگی میں کیا موت کی سزا اور اس پر عملدرآمد کو قابل جواز قرار دیا جاسکتا ہے یا اسے تعصب کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کا جان بوجھ کر کیا گیا قتل سمجھا جائے؟ (4)ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ کا فیصلہ کیا اسلامی ضابطوں کی ان ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جو قران سنت میں بیان کی گئی ہیں۔ (5)مقدمہ میں دستیاب ثبوتوں اور مواد سے ذوالفقار علی بھٹو کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا کا جو فیصلہ سنایا گیا ، کیا ایسا فیصلہ سنایا جاسکتا تھا؟
بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے نکات پر جب سماعت کا آغاز ہو گیا تو اس کے بعد سپریم کورٹ کو جلد از جلد اس پر قابل جواز فیصلہ سنانا چاہیے تھا مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا۔ اب بارہ برس بعد اس وقت یہ ریفرنس کو زیر سماعت لایا جا رہا جب ایک مرتبہ پھر سے مجرموں کی فہرست میں درج ہوچکا میاں نواز شریف کا نام حذف کرنے کی تیاریاں صاف نظر آرہی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں کچھ لوگ یہ کہہ رہے کہ جس طرح ایک خاص نظریہ ضرورت کے تحت بھٹو کو پھانسی دی گئی، اسی طرح ایک دوسرے نظریہ ضرورت کے تحت پھانسی کے 44برس بعد ان کی سزا واپس لینے کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button