ColumnRoshan Lal

پیپلز پارٹی، پنجاب اور دیگر سیاسی جماعتیں

تحریر : روشن لعل
پیپلز پارٹی 30نومبر 1967ء کو لاہور میں قائم کی گئی تھی۔ ہر برس، پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر میڈیا پرسنز اس پارٹی کے پروگرام ، اس کی قیادت اور کارکردگی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ نہ صرف عام صحافی بلکہ جید سمجھے جانے والے میڈیا پرسنز بھی اکثر پیپلز پارٹی کی متعلق منفی رائے کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر یہ مشق نہ صرف جاری رہتی ہے بلکہ اس میں شدت آجاتی ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں گزشتہ تین الیکشنوں میں ہر بار اپنی جیتی ہوئی سیٹوں میں بتدریج اضافہ کرتے ہوئے حکومت بنانے میں کامیاب رہی مگر اس کے باوجود اسے ملک کی دیگر دو بڑی سیاسی جماعتوں کی نسبت غیر مقبول اور ناکام پارٹی قرار دے دے کر ناکامی کی تمام تر ذمہ داری اس کی قیادت پر ڈال دی جاتی ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی نے 2008کے بعد منعقد ہونے والے ہر الیکشن میں خاص طور پر پنجاب سے ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں انتہائی کم نشستیں حاصل کیں۔ جو لوگ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی انتہائی کم نشستوں کے لیے اس کی قیادت کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں انہیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ دیگر جماعتوں کی قیادتوں اور پی پی پی کے قائدین کے کردار اور رویوں میں ایسا کیا فرق ہے کہ اس صوبے کے عوام ان پر اپنے ووٹوںکے ذریعے زیادہ اعتماد ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن کے الزامات لگا کر سیاستدانوں کو مطعون کرنی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ گو کہ اس طرح کے الزامات کا سب سے زیادہ نشانہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بنایا گیا مگر اب یہاں کوئی بڑا سیاستدان ایسا نہیں ہے جس پر پی پی پی کے قائدین سے بھی زیادہ کرپشن کے الزامات نہ لگائے جاچکے ہوں۔ جو ادارے پیپلز پارٹی کی قیادت پر الزامات عائد کرتے رہے و ہی ادارے دیگر جماعتوں کے لیڈروں کو کرپشن کے زیادہ سنگین الزامات کی زد میں لے کر آئے۔ عجیب بات ہے کہ پی پی پی کی قیادت پر کرپشن کے جس طرح کے الزامات کو اس پارٹی کے ووٹ بنک میں کمی کی وجہ قرار دیا جاتاہے دیگر پارٹیوں کے لیڈروں پر کرپشن کے زیادہ سنگین الزامات لگنے کے باوجود پنجاب میں نہ ان پارٹیوں کے ووٹ بنک اور نہ ہی سیٹوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کی نسبت پیپلز پارٹی کے قائدین کے رویوں کو اس لیے بہتر قرار دیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے انتہائی ناموافق حالات کی باوجود ملک میں رہتے ہوئے نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ ان ججوں کی عدالتوں سے باعزت بری بھی ہوئے جو انہیں ضمانتیں دینے میں حیل و حجت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ان کے بدترین مخالف تصور کیے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے قائدین سے نسبتاً کم اخلاقی معیار کا حامل ہونے اور کرپشن کے زیادہ سنگین الزامات کی زد میں آنے کے باوجود اگر دیگر جماعتوں کے قائدین کا ووٹ بنک پنجاب میں کم نہیں ہوا تو پھر اس بات کو کیسے درست مانا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں پی پی پی کی شکست کی وجہ اس کی قیادت پر لگنے والے کرپشن کے الزامات ہیں۔ پی پی پی کی قیادت پر عائد کرپشن کے الزامات اگر پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں بہت بڑی کمی کی وجہ اس کی قیادت پر لگنے والے کرپشن کے الزامات نہیں ہیں تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر کن عوامل کی وجہ سے پنجاب کے عوام پیپلز پارٹی سے انتہائی دور محسوس ہورہے ہیں۔
کرپشن کے جس طرح کے الزامات پیپلز پارٹی کے قائدین پر لگائے گئے اسی طرح کے الزامات دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں پر بھی عائد ہوئے مگر مختلف پارٹیوں کی قیادتوں پر الزامات لگانے اور انہیں پختہ بنانے والوں کے رویوں میں یہ فرق واضح طور پر نظر آیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے معاملے میں نہ صرف ایجنسیاں، میڈیا اور عدالتیں ایک صفحے پر پائی گئیں بلکہ ان اداروں کے اندر بھی پی پی پی مخالف وسیع پیمانے پر متحد رہے۔ اس کے برعکس دیگر جماعتوں کے لیڈروں کے کرپشن کے الزامات کی زد میں آنے پر ایجنسیوں، میڈیا اور عدلیہ کے لوگ ان لیڈروں کی حمایت اور مخالفت میں واضح طور پر منقسم نظر آئے۔ اداروں میں بیٹھے لوگوں کے جس قسم کے رویے پی پی پی مخالف سیاستدانوں کے لیے نظر آئے، اسی قسم کے رویے اگر پی پی پی کی قیادت کے لیے نظر نہیں آسکے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک پیپلز پارٹی کے ساتھ کبھی کسی گل، پاشا اور فیض کا نام جڑا نظر نہیں آیا۔ ایسے نام جب کسی پارٹی کے ساتھ جڑے ہوں تو اس کے علاوہ کوئی اور مطلب نہیں ہوتا کہ ان ناموں کے حامل لوگوں نے اپنا مرتبہ اور مقام جس حد تک ممکن تھا ان پارٹیوں کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کیا ۔ ایسے نام صرف خاص پراجیکٹ کے تحت پارٹیوں کی تعمیر ہی نہیں کرتے بلکہ ہر اس سیاسی جماعت کو ختم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جو ان کی زیر تعمیر پارٹیوں کے لیے کسی طرح بھی ضرر رساں ثابت ہو سکتی ہو۔ یہ لوگ جب بھی کسی پارٹی کی تعمیر یا اپنے ہاتھوں سے شکستہ کی ہوئی پارٹی کی مرمت کرتے ہیں تو پنجاب کو اس وجہ سے اپنے کام کا مرکز بناتے ہیں کیونکہ اگر دیگر تین صوبوں میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 150تو صرف پنجاب کی 173ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب میں غیر مقبول ہونے کی کچھ دیگر چھوٹی چھوٹی وجوہات بھی ہیں مگر سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ نام ، مقام اور مرتبے والے لوگوں نے من پسند پارٹیوں کی تعمیر کے وقت پی پی پی میں تخریب کا اس حد تک اہتمام کیا کہ اس کی قیادت سمیت کارکنوں کو بھی تخریب کا روں کا سب سے بڑا نشانہ بنا دیا ۔ گو کہ کسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کو تخریب کاری کا نشانہ بنانا اب ماضی کی طرح ممکن نہیں رہا مگر جو کچھ قبل ازیں ہوتا رہا اس کی وجہ سے سازش کے تحت کچھ سیاسی جماعت کو برتر بنانے اور کسی جماعت کو کم تر ظاہر کے لیے کی گئی ذہن سازی کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہو سکے ۔ اس طرح کے اثرات کی وجہ سے پیپلز پارٹی دیگر پارٹیوں کی نسبت بہتر پروگرام رکھنے اور اپنی قیادت کے بہتر کردار اور رویوں کے باوجود پنجاب میں دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں کمزور نظر آتی ہے۔
پیپلز پارٹی کا پنجاب میں کمزور نظر آنا ایک نا قابل تردید حقیقت ہے ۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی سے وابستہ لوگ اس حقیقت کے برعکس نظر آنے کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ شاید پنجابی جیالوں کے رویوں کی وجہ سے ہی پارٹی کی مرکزی قیادت نے صوبہ پنجاب کی بجائے بلوچستان سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے پارٹی کے 56ویں تاسیسی جلسہ کے لیے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا انتخاب کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے طرز عمل اور طرز فکر کے دیگر جماعتوں کے قائدین کی نسبت بہتر ہونی کی کئی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر پی پی پی پنجاب کی قیادت اور دیگر اہم لیڈروں کے لیے ہر گز ایسا نہیں سوچا جاسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button