Editorial

پاکستان اور کویت میں اربوں ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے

پاکستان کی معیشت کو پٹری پر واپس لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات جاری ہیں۔ نگراں حکومت کے دور میں اس حوالے سے راست کوششیں کی جارہی ہیں، جن کے ثمرات بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ پچھلے مہینوں اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف تواتر کے ساتھ ملک بھر میں کریک ڈائون کیا گیا، جس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوئے، مختلف کارروائیوں میں ڈالرز سمیت وافر غیر ملکی کرنسی اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں سے برآمد کی گئی، اسی طرح اربوں مالیت کی گندم، چینی اور کھاد کی برآمدگیاں ہوئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں ڈالر کی قیمت میں تواتر کے ساتھ کمی واقع ہوئی، اسی طرح آٹے، چینی اور کھاد کے نرخوں میں بھی کمی آئی۔ نگراں حکومت نے فوری طور پر اس کا ریلیف عوام کو منتقل کیا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخ میں پہلی بار انتہائی بڑی کمی دیکھنے میں آئی۔ پٹرول کے دام40 روپے فی لٹر کم کیے گئے۔ مہنگائی کا کچھ زور ٹوٹا۔ دیگر اشیاء بھی سستی ہوئیں، لیکن مہنگائی میں خاطرخواہ کمی ڈالر کی قیمتیں پُرانی سطح پر واپس آنے تک ممکن نہیں۔ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کے طفیل اب بھی کچھ دنوں سے ڈالر کے نرخ مسلسل گر رہے ہیں اور پاکستانی روپیہ مستحکم ہورہا ہے۔ یہ امر موجودہ حالات کے تناظر میں تازہ ہوا کے خوش گوار جھونکے سے کسی طور کم نہیں۔ پچھلے ادوار میں دہشت گردی سمیت بہت سی وجوہ کے باعث سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ سمیٹ کر بیرون ممالک کا رُخ کیا تھا۔ ملک میں صنعتی پہیہ بھی جام سا دِکھائی دیتا تھا۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے بھی نگراں حکومت نے بھرپور کاوشیں کی ہیں۔ دوست اور برادر ممالک کے ساتھ رابطے کیے جارہے ہیں، جن کے مثبت جواب آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے ہیں۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ یو اے ای کے دورے پر تھے، جہاں اُنہوں نے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ متحدہ عرب امارات سے اُنہوں نے کویت کا رُخ کیا، وہاں سے بھی قوم کے لیے خوش کُن اطلاعات سامنے آرہی ہیں اور کویت کے ساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے بڑے معاہدے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور کویت نے تحفظ خوراک، زراعت، پن بجلی، معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے 7معاہدوں اور 3مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کویت کے فرسٹ ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر داخلہ شیخ طلال الخالد الاحمد الصباح سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔ دونوں رہنمائوں نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور برادرانہ تعلقات کو باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرکے مزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنمائوں نے دونوں ممالک کے درمیان 7معاہدوں اور 3مفاہمت کی یادداشتوں کی تقریب میں شرکت کی۔ ریاست کویت کی جانب سے پاکستان کے مختلف شعبوں بشمول فوڈ سیکیورٹی، زراعت، پن بجلی، پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی اور کان کنی کی سرگرمیوں میں تعاون کیلئے کان کنی فنڈ کا قیام، ٹیکنالوجی زونز ڈیولپمنٹ اور مینگرووز کے تحفظ سمیت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے 7 معاہدوں اور ثقافت اور آرٹ، ماحولیات اور پائیدار ترقی کے شعبوں میں تعاون کیلئے 3مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔ دونوں رہنمائوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی رفتار پر انتہائی اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے قریبی رابطے میں رہنے اور پاکستان اور کویت تعلقات کو مزید مضبوط اور گہرا کرنے کے لیے تیز رفتار اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے کویت کے ساتھ ان معاہدوں کو ان کامیابیوں میں ایک اور سنگ میل قرار دیا، جو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے پلیٹ فارم سے ملک کے لیے سامنے آرہی ہیں۔ وزیر اعظم نے کویت کے امیر شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح کی صحت یابی کے لیے بھی دعا کی۔ مزید براں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کویت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، توانائی، آئی ٹی، معدنیات، سرمایہ کاری سمیت مضبوط اقتصادی روابط کے قیام کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار نگران وزیراعظم نے کویت کے ولی عہد شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح سے ملاقات میں کیا۔ نگران وزیراعظم نے کویت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان کثیر الجہتی فورمز پر قریبی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے صحت، سیکیورٹی، انفرا اسٹرکچر کے شعبہ جات میں پاکستانی افرادی قوت کی بھرتی پر کویت کے اقدامات کو سراہا۔ کویت کے ولی عہد نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور وسیع بنانے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ نگران وزیراعظم کویت کے دو روزہ سرکاری دورے پر ہیں، جس کا بنیادی مقصد چھ دہائیوں سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو اقتصادی تعلقات میں بدلنے کیلئے مختلف شعبہ جات میں تعاون بڑھانے کیلئے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے جا رہے ہیں۔ ادھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی کویت کے ولی عہد شیخ مشعل الجابر الصباح سے ملاقات کی۔ کویتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملاقات میں پاکستان اور کویت کے دو طرفہ تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دریں اثنا نگراں وزیراعظم اقوام متحدہ کی اٹھائیسویں کانفرنس آف پارٹیز (کوپ 28) میں شرکت کے لیے دبئی پہنچ گئے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں کویت کے ساتھ تحفظ خوراک، زراعت، پن بجلی، معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے 7معاہدوں اور 3 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس پر نگراں حکومت مبارک باد کی مستحق ہے۔ عسکری قیادت نے بھی اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں بھرپور نبھائی ہیں۔ یو اے ای اور کویت سے سرمایہ کاری کے بڑے معاہدوں کے بعد اُمید کے دیے مزید روشن ہوگئے ہیں۔ اگلے وقتوں میں ملک و قوم خوش حالی سے ضرور ہمکنار ہوں گے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں، اس ارض پاک پر قدرت کا خاص کرم ہے۔ اُس نے اسے بیش بہا نعمتیں عطا کی ہیں۔ بس اُنہیں درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے پاس 65فیصد نوجوان آبادی ہے، جو حالات کو اپنے موافق کرنے کی پوری طاقت رکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ اگلے کچھ عرصے میں ملک و قوم ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن نظر آئیں گے۔
بجلی کی قیمت میں پھر اضافے کا اندیشہ
ملک عزیز میں بجلی کے نرخ پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بے پناہ زیادہ ہیں۔ ہمارے عوام کی آمدن کا بڑا حصّہ ہر ماہ بجلی کے بھاری بھر کم بلوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ بھارت، چین، ایران، بنگلہ دیش و دیگر ممالک میں بجلی انتہائی سستی ہے اور ان کے ماہانہ بجلی بل وہاں کے عوام پر کسی طور گراں نہیں گزرتے جب کہ وطن عزیز میں اس حوالے سے صورت حال بالکل اُلٹ ہے۔ یہاں تو دو دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے ماہانہ بجلی بل بھیجنے کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروں کے مکینوں کے لیے جن کی آمدن پہلے ہی محدود ہے، بھاری بجلی بل سوہانِ روح سے کم نہیں ہوتے۔ یہاں سستی بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر اُس طور پر توجہ نہ دی جاسکی، جس کی ضرورت تھی۔ محض مہنگی بجلی پیدا کرنے پر توجہ رکھی گئی، چاہے اس سے قوم کا بھرکس ہی کیوں نہ نکل جائے۔ اسی ڈگر پر چلا جاتا رہا اور اب بھی یہی روش اختیار کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے اور اس میں مزید اضافے کے اندیشے خارج از امکان نہیں۔ اسی حوالے سے تازہ اطلاعات یہ سامنے آرہی ہیں کہ عوام پر ایک بار پھر بجلی گرانے کی تیاریاں ہیں۔ بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کیے جانے کا امکان ہے، جس سے صارفین پر 40ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بجلی کی قیمت میں 3روپے 53پیسے فی یونٹ اضافے کا امکان ہے۔ یہ اضافہ اکتوبر 2023کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے، جس پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سی پی پی اے کی درخواست پر سماعت کی۔ فیول پرائس اور بقایا جات کی مد میں سی پی پی اے کی درخواست پر بجلی کی قیمت میں من و عن اضافے کی صورت میں جی ایس ٹی سمیت بجلی صارفین پر قریباً 40ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ نیپرا کے مطابق سی پی پی اے کی درخواست پر سماعت مکمل ہوچکی ہے۔ اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ جاری کیا جائے گا۔ بجلی کی قیمت میں مزید بڑھوتری کسی طور مناسب طرز عمل نہیں۔ اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے جان چھڑائی جائے اور اس کے حصول کے سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے اور اس حوالے سے منصوبے لگائے جائیں، جنہیں جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کیے جائیں، خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ شمسی توانائی سے بجلی کشید کے منصوبوں پر توجہ دی جائے۔ اس حوالے سے چنداں تاخیر نہ کی جائے۔ ہنگامی بنیادوں پر اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔ اس سے ناصرف پانی کی قلت کے قدیم مسئلے کا حل نکل سکے گا بلکہ سستی بجلی بھی وافر میسر آسکے گی۔

جواب دیں

Back to top button