Columnمحمد مبشر انوار

قومی حکومت !!!

تحریر :محمد مبشر انوار (ریاض)
آئینی جمہوریت میں قانونی و اصولی طور پر جمہور کو آزادی رائے کاحق مسلمہ تسلیم کیا جاتا ہے اور عوامی نمائندگی کے لئے جمہور اپنے نمائندے خود منتخب کرتے ہیں ،جو ملک و قوم کے لئے نہ صرف قوانین بناتے ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کروانا بھی ان کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔بقول سینئر قانون دان و سیاستدان اعتزاز احسن،بدقسمتی سے پاکستان اس وقت سرزمین بے آئین بن چکا ہے کہ یہاں طاقتور جیسے چاہیں آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کر سکتے ہیں،انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ دوسری طرف ہمارا عدالتی نظام ہے کہ جس کی بنیادی ذمہ داری آئین و قانون کی تشریح کے ساتھ ساتھ آئین و قانون شکنوں کو تمام تر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے،غیر جانبداری کے ساتھ سزائیں سنانا ہے لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ عدالتی نظام بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔قانون کے اندھی ہونے کا تصور پاکستان میں ممکن ہی نہیں رہا کہ پاکستانی قانون اس قدر سمجھدار ہو گیا ہے کہ اسے بخوبی علم ہے کہ کہاں اسے اندھا ہونا ہے اور کہاں اسے نہ صرف اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں بلکہ ’’ آقائوں‘‘کی منشا و مرضی کے مطابق فیصلے بھی صادر کرنے ہیں۔قانون کی نظر میں عموما سب برابر ہوتے ہیں لیکن پاکستانی قانون کے کیا کہنے،اس کی اپنی ترجیحات ہیں،اپنی پسند،اپنی ناپسند،اپنا معیار ہے کہ جسے چاہے،جب چاہے اور جہاں چاہے،ایک فریق کو ایک ہی طرح کے جرم میں ڈھیل/ڈیل دئیے رکھے لیکن ’’ نافرمان‘‘ پر قانون کی یوں عمل داری کروائے کہ خود قانون اس پر شرمندہ نظر آئے۔ بہرکیف یہ سب باتیں لمحہ موجود میں بری طرح آشکار ہو چکی ہیں لیکن جھوٹ کی پیداوار چند افراد انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ میدان میں ڈٹے نظر آتے ہیں اور ان کے نزدیک قانونی عمل کو زیر کرنے کے بعد،راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے اور ان کی کامیابی یقینی ہے۔حیرت اس امر پر ہے کہ انتخابات کے حوالے سے عمومی سروے،کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ہر سروے لمحہ موجود کے نا پسندیدہ ترین شخص اور اس کی جماعت کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے،اس کے باوجود ایک سیاسی جماعت نجانے کس برتے پر،انتہائی تیقن کے ساتھ اپنی سیاسی ساتھیوں کو اپنی کامیابی کی نوید سنا رہی ہے۔بہرحال میڈیا ذرائع کے مطابق حقیقت احوال یہ ہے کہ لاہور میں اس وقت مسلم لیگ ن کی صورتحال انتہائی مخدوش نظر آتی ہے اور عوام میں جانے کی ہمت ان میںدکھائی نہیں دیتی کہ ووٹرز ان کی درگت بنانے کو تیار بیٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح مسلم لیگ ن کے امیدوار اپنی انتخابی مہم کے لئے ان کے پاس آئیں تا کہ وہ ان سے حساب لے سکیں۔اس کے پس پردہ محرکات انتہائی واضح ہیں کہ لاہور کے شہری فطرتا ایسی قیادت کو پسند کرتے ہیں جو بہادری و دلیری کے ساتھ ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرے اور مشکل وقت میں عوام کا ساتھ چھوڑ کر نہ جائے،اس کی مثال پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں موجود ہے کہ بھٹو مرحوم نے عوامی خواہشات کی ترجمانی بعینہ کی تھی۔اپنے اس کردار کی وجہ سے بھٹو پاکستانی سیاست میں آج بھی ایک بہادر و دلیر لیڈر کی حیثیت میں امر ہو چکا اور عوام نے اس کے ساتھ اپنے وفا و خلوص کا رشتہ چار دہائیوں تک بخوبی نبھایا،الگ بات کہ پیپلز پارٹی کی قیادت زرداری کے ہاتھوں آتے ہی،یہ رشتہ کمزور ہوتے ہوتے اب تقریبا ختم ہو چکا ہے۔
پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ختم کرنے میں مقتدرہ کے کردار سے کسی بھی سیاسی طالبعلم کو انکار نہیں کہ مقتدرہ کے کردار نے ایک قومی جماعت کے ساتھ جوسلوک کیا،اس نے پاکستان کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا اور نااہلوں کی ایسی فوج تیار کی کہ جسے صرف ذاتی مفادات ہی مقدم رہے ہیں۔یہی کردار ،تھوڑی ردوکد کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی بخوبی نبھایا گو کہ ان کے راستے میں مشکلات کا انبار رہا لیکن عوام سے اپنے رشتے کو انہوں نے بھی کبھی کمزور نہیں پڑنے دیا،پنجاب میں اپنے آخری جلسہ سے خطاب کے دوران بھی چشم فلک نے عوام کے جم غفیر کا مشاہدہ کیا، لیکن یہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں آخری کامیاب جلسہ ہی ثابت ہوا۔بہرطور 2007کے اس جلسہ میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ دونوں سیاستدان ،بظاہر تیسر ی قوت کے کردار کو محدود کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکے تھے اور اس پر عملدرآمد بھی بہرحال شروع ہو چکاتھا لیکن محترمہ کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کوشش دم توڑ گئی۔یہاں معروضی حقائق سے انکار بھی ممکن نہیں کہ یہاں تک پہنچنے کے لئے بہرکیف محترمہ نے سیاسی دائو پیچ کا استعمال ضرور کیا اور مشرف سے میثاق جمہوریت کے بعد رابطے کر کے،این آر او بھی حاصل کیا لیکن اس این آر او کا ایک طرف ذاتی فائدہ تھا تو دوسری طرف ملک میں سیاسی عمل کو شروع بھی اسی این آر او کے تحت ہی کروایا تھا،لہذا اس این آر او کو فقط ذاتی مفادات کا حصول کہنا بھی قطعی مناسب نہیں۔ بعد ازاں تیسری قوت کے کردار کو محدود کرنے کی بجائے، میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اولا زرداری نے وعدوں کو قرآنی صحیفی ماننے سے انکار کیا اور دوئم نواز شریف میمو گیٹ سکینڈل میں سپریم کورٹ جا پہنچے، یوں سیاستدان ایک بار پھر غیر سیاسی قوت کی زلف کے اسیر ہو گئے۔ اصولا اگر یہ خود ساختہ منجھے ہوئے سیاستدان، تیسری قوت کے کردار پر متفق ہوتے تو تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ملاکر ایسی نقب زنی کو روک سکتے تھے لیکن مجبوری یہ ہے کہ تحریک انصاف کے حوالے سے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اقتدار کے دوران اسے بھی تقویت تیسری قوت سے ہی ملی تھی جبکہ اقتدار سے رخصت کرنے کے لئے پی ڈی ایم کو بھی ترغیب وہیں سے ملی تھی، اس لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف اس پس منظر میں اس حوالے سے متحد و متفق ہو سکیں، علاوہ ازیں! عمران خان نے اپنے دوراقتدار میں کبھی بھی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کو درخور اعتناء نہیں سمجھا تھا۔ قومی مفاد پر تو یہ سیاستدان اکٹھے ہونے کی بجائے، ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے کے لئے تیار نظر آئے لیکن جہاں بات اپنی بقا کی نظر آئی ، یہ سیاستدان پھر ڈگڈگی پر ناچتے ہوئے، اکٹھے ہو گئے۔ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں تما م سیاستدان اکٹھے بیٹھے دکھائی دئیے لیکن حکومت ختم ہوتے ہی، گو کہ نئے انتخابات کا یقین آج بھی کسی کو نہیں، لیکن یہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آ رہے ہیں، جسے عوام سوائے نورا کشتی کے کچھ اور سمجھنے کے لئے قطعی تیار نہیں۔ اپنے اس کردار کے باعث، ان سیاستدانوں کے لئے عوامی ردعمل کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی عوام ان کے جلسوں میں شریک نہیں ہو رہے، جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی ساری قیادت جیلوں میں ہے یا اپنے گھروں سے بھاگی ہوئی ہے لیکن عوام ان کی کال پر، رکاوٹوں اور جبر کے باوجود، جوق درجوق آتے ہیں۔
انتخابات کے حوالے سے یہ صورتحال یقینی طور پر پی ڈی ایم اور دیگر جماعتوں کو پریشان کئے ہوئے تو دوسری طرف عدالتی نظام کے شکنجے میں جکڑے تحریک انصاف کے چیئرمین کے لئے بھی مشکلات مسلسل بڑھتی نظر آ رہی ہیں کہ انہیں کسی بھی طرح ریلیف نہیں مل رہا۔ حالانکہ اب تو سائفر، توشہ خانہ اور ایک سو نوے ملین پائونڈ کے مقدمات بھی انتہائی بھونڈے اور بے بنیاد ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ’’ خواہش و ضد و انا‘‘ کے اسیر عمران خان کو ہر صورت جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ میڈیا ذرائع ہی اسیری کی کہانی سنا رہے ہیں کہ عمران خان کو مختلف پیشکشیں کی جارہی ہیں، جن کو عمران خان مسلسل رد کرتے چلے جا رہے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ صاف شفاف انتخابات کروا دئیے جائیں۔ ان پیشکشوں میں ایک پیشکش یہ بھی ہے کہ ملک میں قومی حکومت بنا دی جائے، جس میں سب جماعتیں شامل ہوں، اور شنید یہی ہے کہ عمران خان اس پر بھی متفق نہیں ہوئے، آئینی جمہوریت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ انتخابات سے قبل ہی حکومت سازی کے کسی فارمولے پر متفق کروایا جا سکے؟ مزید یہ کیسے ممکن ہے کہ بنیادی اختلافات کی موجودگی میں سب سیاسی جماعتیں مل کر قومی حکومت بنائیں اور تحریک انصاف کرپشن کے خلاف بیانیہ رکھتے ہوئے، کرپٹ عناصر کے ساتھ حکومت میں بیٹھے، گو کہ تحریک انصاف کی اپنی حکومت میں کئی ایک نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ پاکستانی سیاستدان تو اقتدار میں بلا شرکت غیرے کے قائل ہیں، قومی حکومت میں یہ سیاستدان کب ملکی معاملات اور اصلاحات پر توجہ دے گے؟ ملکی و قومی معاملات پر توجہ دینے کے لئے قومی حکومت کی بجائے قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے، جو حکومت سے باہر رہتے ہوئے بھی پیدا کی جا سکتی ہے، قومی حکومت بنانے کا مقصد تو صرف اتنا دکھائی دیتا ہے کہ ہر کوئی حصہ بقد جثہ وصول کرے اور کسی تیسرے کے خلاف اکٹھا ہونے کی بجائے اس کا احسان مند رہے تاکہ مستقبل میں بھی اختیار ان سیاستدانوں کے پاس نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button