Editorial

پاک، ایران گیس منصوبے کی بحالی کیلئے کاوشیں

ملک عزیز عرصہ دراز سے توانائی کے بدترین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ بجلی کے بدترین بحران اس قوم پر گزرے ہیں۔ بجلی جاتی زیادہ اور آتی کم تھی۔ گرمیوں میں تو غریب عوام کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ عذاب بن جاتی تھی۔ ایک طرف سورج آگ برساتا تو دوسری جانب بجلی نہ ہونے سے لوگ گھروں میں حبس زدہ ماحول کے باعث شدید اذیت کا سامنا کرتے۔ اب بھی صورت حال کچھ حوصلہ افزا ہرگز قرار نہیں دی جاسکتی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ملک میں پچھلے کئی سال سے قدرتی گیس کی قلت کی صورت حال ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سردی ہو یا گرمی، اکثر علاقوں میں گیس کی فراہمی بالکل نہیں ہوتی یا کم پریشر کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ گیس کی بندش بھی کی جاتی ہے۔ گیس آنے کے اوقات کار بھی مقرر کر دئیے گئے ہیں۔ پہلے قوم کو 24گھنٹے گیس میسر ہوتی تھی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں قدرت کی عطا کردہ نعمت قدرتی گیس کا استعمال انتہائی بے دردی سے کیا گیا۔ سالہا سال تک گیس کا ضیاع ہوتا رہا۔ لوگ باگ بھی گیس کے استعمال میں انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے دِکھائی دئیے۔ لوگوں کی بڑی تعداد قدرتی گیس سے جنریٹرز چلاکر بجلی کشید کرتے رہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے بھی قدرتی گیس کا اس کے لیے بھرپور استعمال کیا۔ قدرتی گیس کو عوام کی بڑی تعداد نے CNGکی صورت گاڑیوں میں بطور ایندھن استعمال کیا۔ قانون قدرت ہے کہ جب کسی نعمت کی بے قدری کی جائے تو وہ ہم سے چِھن جاتی ہے۔ یہی معاملہ سوئی گیس کے حوالے سے بھی ہوا۔ اب ملک کے طول و عرض سے عوام گیس کی قلت کی شکایات کرتے نہیں تھکتے۔ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے 2008میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے دورِ حکومت کے اواخر میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں سابق صدر زرداری نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح بھی کیا تھا، ایران پاکستانی سرحد تک 900کلومیٹر طویل پائپ لائن کب کا بچھا چکا ہے جب کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر 800کلومیٹر تک لائن بچھانا تھی، جو تاحال بچھائی نہ جاسکی۔ ایران عرصہ دراز تک بیرونی پابندیوں کا شکار رہا ہے۔ بیرونی دبائو کے باعث اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جاسکا تھا۔ گیس بحران کے حوالے سے پیدا شدہ صورت حال کے تناظر میں اب اس معاملے کو مکمل کرنے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے اور اس حوالے سے حکومتی سطح پر کاوشیں سامنے آرہی ہیں۔ امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ پاکستان کے ایک خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر پابندیوں سے استثنیٰ کے لیے پاکستان نے امریکا کے ساتھ رابطوں کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنا شروع کر دئیے۔ خبر ایجنسی کے مطابق حکومت مبینہ طور پر امریکی حکام کے ساتھ رابطے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کر رہی ہے، تاکہ اربوں روپے کے پاکستان ایران ( آئی پی) گیس پائپ لائن منصوبے پر پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کیا جاسکے۔ نگراں وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے حال ہی میں اس منصوبے اور توانائی کے شعبے سے متعلق دیگر امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایران کا دورہ کیا تھا، ملاقات کے دوران فریقین نے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس کی فروخت اور خریداری کے معاہدے (جی ایس پی اے) پر جون 2009میں دستخط کیے گئے تھے اور یہ جون 2010میں شرائط مکمل کرنے کے بعد نافذ العمل ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایران پاکستان اور ایران کی سرحد (ایران سیکشن) تک 1150کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے اسسالویہ میں واقع ساحلی گیس پروسیسنگ پلانٹ سے گیس فراہم کرے گا۔ پائپ لائن کا پاکستان سیکشن ایران پاکستان سرحد سے پاکستان میں نواب شاہ تک بچھایا جانا ہے جو 781کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ ہے جب کہ ایران جی ایس پی اے کے تحت 750ایم ایم سی ایف ڈی فراہم کرنے کا پابند ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور ایران اس منصوبے کی بحالی میں مصروف ہیں، پاکستان کی تکنیکی ٹیم نے رواں سال کے جنوری میں ایران کا دورہ کیا تاکہ آگے کی راہ پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ ایرانی وفد نے اگست2023میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جس میں ممکنہ نفاذ کے آپشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس منصوبے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی وزارتی نگرانی کمیٹی تشکیل دی جو ٹھوس قابل عمل حل تلاش کرے گی۔ کمیٹی منصوبے کی اقتصادی قابلیت، مالی اعانت، سیاسی اور سفارتی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا راستہ تجویز کرے گی۔ کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر پٹرولیم ڈویژن اور وزارت خارجہ پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے امریکی حکام کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، جی ایس پی اے کے تحت پاکستان کی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے منصوبوں پر عمل درآمد کے متبادل آپشنز بھی تلاش کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قانونی اور سفارتی طریقوں پر سرگرم عمل ہے جب کہ بین الاقوامی قانونی مشیر بھی امریکی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کرنے اور قابل عمل نفاذ کے آپشنز تیار کرنے میں مدد کے لیے مصروف ہیں۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی بحالی کے لیے حکومت کی جانب سے کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ موجودہ بحرانی کیفیت میں ان کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے موثر کوششیں عمل میں لائی جائیں، جن سے ملک عزیز کو فائدہ حاصل ہوسکے اور گیس بحران کے حل میں مدد مل سکے۔ یہ ٹاسک مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ ملک کے 25کروڑ عوام کو اس منصوبے کی تکمیل سے بھرپور فائدہ پہنچے گا اور ملک میں گیس کا جاری بحران حل ہوسکے گا۔
یوٹیلیٹی اسٹورز پر چاول بھی مہنگے
پچھلے کچھ سال سے ملک کے غریب عوام بدترین گرانی کا سامنا کررہے ہیں۔ ہر شے کے دام تین، چار گنا بڑھ چکے ہیں، مہنگائی کے نشتر روزانہ کی بنیاد پر غریبوں پر بُری طرح برستے رہتے ہیں، ان میں شدّت ہی آئی ہے، کمی ہرگز دِکھائی نہ دی، اشیاء ضروریہ غریبوں کی پہنچ سے دُور کردی گئی ہیں، غریب لوگوں کو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، اس کا اندازہ صرف وہی کرسکتے ہیں، اُن کی آمدن تو وہی ہے، لیکن اخراجات پچھلے پانچ، چھ سال کے دوران چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی تین چار سو فیصد زائد ہوچکی ہیں۔ آٹا، چینی، گھی، تیل، پتی، دودھ، دہی و دیگر اشیاء ضروریہ کے داموں میں اضافے کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ اس تناظر میں ماضی میں حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جہاں لوگوں کو سبسڈائز نرخوں پر اشیاء ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائی جاتی تھی۔ پچھلے چند سال میں تسلسل کے ساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز پر غریبوں کو دی جانے والی سبسڈی میں کمی واقع ہورہی ہے اور اب یہ صورت حال ہے کہ لگ بھگ تمام ہی اشیاء کی قیمتیں مارکیٹ کے عین مطابق ہوگئی ہیں۔ اب بھی یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیاء ضروریہ مہنگی کرنے کا سلسلہ تھما نہیں ہے، اب چاولوں کے نرخوں میں بھی ہوش رُبا اضافہ کردیا گیا ہے۔ ’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق عوام کو سستی اشیاء فراہم کرنے والے مرکز بھی مہنگائی کی زد میں آگئے، یوٹیلیٹی اسٹورز پر گھی، چینی کے بعد چاول بھی مہنگے ہوگئے۔ یوٹیلیٹی اسٹور پر مختلف اقسام کے چاولوں کی قیمت میں فی کلو 25 سے 62 روپے کلو تک اضافہ ہوگیا۔ سیلہ چاول فی کلو 25 روپے اضافے سے 370 روپے کلو تک پہنچ گیا جب کہ باسمتی چاول 35 روپے مہنگا ہوکر 325 روپے کلو تک پہنچ گئے، اس کے علاوہ ٹوٹا چاول 62 روپے اضافے سے 230 روپے کلو تک پہنچ گئے۔ مہنگائی سے پریشان شہریوں کا کہناہے کہ پہلے ہی گرانی سے بے حال ہیں، حکومت کو چاہیے یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیاء کو سستا کرے۔ چاولوں کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ یقیناً تشویش ناک ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز سے غریب عوام کی بڑی تعداد مستفید ہوتی تھی، اب یہاں کا رُخ کرنے پر بھی اُن کی دادرسی نہیں ہورہی ہے۔ کم از کم یوٹیلیٹی اسٹورز پر غریبوں کے لیے تو اشیاء ضروریہ مہنگی نہ کی جائیں، اُن کے لیے پہلے ہی روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دُشوار ہے۔ حکومت کو یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ سبسڈی فراہم کرنے اُن کی اشک شوئی کا بندوبست کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button