ColumnNasir Naqvi

بند مٹھی میں ہے اقتدار

ناصر نقوی
الیکشن کی بھرپور تیاریاں ہو رہی ہیں۔ سیاسی پرندوں نے صرف پھڑپھڑانا نہیں، ایک چھتری سے اْڑ کر دوسری چھتری کی اْڑان بھی بھر لی ہے۔ ایسے میں بھی چند دانشوروں، تجزیہ کاروں اور مبصرین کو شک ہے کہ شائد 8فروری کو بھی الیکشن نہ ہو سکے؟ توبہ توبہ۔ میں تو ایسی رائے نہیں دے سکتا۔ عمر کے اس حصّے میں بھلا میں توہین عدالت کیسے کر سکتا ہوں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ان کی رائے ہے، اب آپ سوال کریں گے کہ ان کی کس کی؟ تو میں یہی کہوں گا جناب جو صاحب رائے ہیں ہم تو قلم کے مزدور ہیں صرف مزدوری کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اطلاع دے رہے ہیں کہ قاضی صاحب آپ کی پابندی اور نمبر1جیسے ادارے کی موجودگی میں بھی لوگ منفی رائے دینے سے باز نہیں آ رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں حلقہ بندیوں کی حتمی فہرستیں تیار کرنے کے بعد فوج کی تعیناتی کے لیے خط بھی لکھ دئیے ہیں لیکن جو صاحب رائے ہیں وہ کہتے ہیں الیکشن کمیشن جتنا آزاد ہے اتنا کام تو اس نے صوبائی حکومتوں کے خاتمے پر بھی مکمل کر لئے تھے اس وقت بھی سپریم کورٹ کا آرڈر اور سپریم کمانڈر صدر مملکت کے احکامات بھی جاری ہو گئے تھے لیکن الیکشن نہیں ہونے تھے، نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ نگران حکومتوں کا مینڈیٹ صاف و شفاف الیکشن کرانا ہوتا ہے۔ 90روز کے دوران کی قانونی حیثیت ہی نہیں ، اخلاقی طور پر بھی کوئی جواز نہیں رہتا لیکن پنجاب حکومت نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی سربراہی میں چل رہی ہے بلکہ دوڑ رہی ہے۔ اور محسن نقوی نے بیوروکریسی کی بھی دوڑیں لگا رکھی ہیں اگر یہ سب کچھ حالات کی مجبوری میں ہو رہے ہیں تو پھر وفاقی حکومت اور نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی راہ میں بھی حالات اور مجبوریوں کی رکاوٹوں سے کیسے پہلوتہی کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے قوم کی مثبت امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ انہوں نے آئین اور عدالتی بالا دستی کے لیے عدالت عظمیٰ کے چیف کی حیثیت سے بہت سے اختیارات سے دستبردار ہو کر مشاورت کی بنیاد ڈالی ہے ۔ اب افتخار چودھری، کھوسہ، ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال جیسا ’’ ون مین شو‘‘ نہیں چل سکے گا۔ کل کیا ہو گا اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، وزیراعظم کاکڑ کا بھی دعویٰ ہے کہ 8فروری کو محفوظ اور شفاف انتخابات کی ذمہ داری پوری کریں گے اور اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر دیں گے لیکن قاضی صاحب کے پہلو میں بیٹھے جسٹس اطہر من اللہ کا بھاری بھرکم فیصلہ کدھر جائے گا جس میں انہوں نے 90روز سے تجاوز کرنے کو آئین شکنی قرار دیتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا تحریری فیصلہ ہے کہ آئینی حدود کا خیال نہ رکھنا اور اپنی مرضی سے الیکشن کی تاریخ دینا آئین پاکستان کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، محفوظ اور شفاف الیکشن کی یقین دہانی کرانے کے باوجود نگران وزیراعظم خبردار بھی کر رہے ہیں کہ ملک میں سنگین سیکورٹی خدشات لاحق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر آ رہی ہے اور مغربی سرحد پر آنے والے دنوں میں معاملہ مزید خطرناک ہو گا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نگران حکومت نہ کسی کے لیے انتخابی ماحول ناساز گار بنانے کی خواہش رکھتی ہے اور نہ ہی کسی کی شرکت روکنے کا ارادہ ہے۔ تاہم سیاسی جماعتیں مظلوم بنا کر اپنے آپ کو پیش کریں تو ان کی مرضی، جہاں جہاں انتظامی اقدامات کی ضرورت ہو گی اسے یقینی بنایا جائے گا۔
نواز شریف اس وقت اپنے آپ کو انتخابی دوڑ میں سب سے آگے سمجھ رہے ہیں لیکن زبردست پروٹوکول اور ریلیف کے باوجود ذمہ داروں نے سعودی عرب میں دیا گیا پیغام یاد کرادیا۔ شائد اسی لیے ان کے موڈ اور چال ڈھال اب ابتدائی دنوں والی ہرگز نہیں، انہوں نے بھاگ دوڑ سے پرہیز کرتے ہوئے ’’مری‘‘ میں پیش قدمی اور آڑے ترچھے راستوں پر ڈرائیونگ کو ترجیح دی، تاہم سیالکوٹ میں تھوڑا سا بیان بدلا اور کہنے لگے ہمیں ہٹا کر کسے اور کیوں لایا گیا؟ کیا لانے والے ملک کی تباہی کے ذمہ دار نہیں؟ میں صبح وزیراعظم اور شام کو ’’ہائی جیکر‘‘ بنا دیا گیا تھا۔ کوشش یہی تھی کہ مجھے بھی سزائے موت ہو؟ آئے روز وزیراعظم بدلنے سے ملک کیسے چلے گا؟ ہمیں سازش کر کے اقتدار سے نکالا گیا اگر اب بھی نہ سمجھے تو پھر ’’ داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔۔۔۔۔ ’’ ورکرز کنونشن‘‘ میں ان کا دعویٰ تھا کہ میرا جلاوطن ، جیل اور مقدمات کا عرصہ اقتدار سے زیادہ ہے میں نے مشکل اور اچھا دور دیکھا ہے۔ 2017ء سے آج تک مسلسل مقدمات اور سزائوں کا سامنا کر رہا ہوں ۔ وزارت عظمیٰ دیکھی تو ملک بدری، جیلیں اور مقدمات بھی بھگتے لیکن ہمت نہیں ہاری اور اب اگر قوم نے پھر موقع دیا تو ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر دوں گا، لیکن حقیقت کچھ اور ہے زرداری صاحب نعرہ مستانہ لگا چکے ہیں کہ میاں صاحب خواہ کچھ بھی کر لیں ہمارے بغیر حکومت نہیں بنے گی۔ پھر حضرت مولانا فضل الرحمان ملنے پہنچے اور تجویز دے دی کہ اگلی حکومت بھی مل کر بنائیں گے یعنی صاف صاف بتا دیا کہ آئندہ حکومت مخلوط بنے گی۔ ان سیاسی چیمپیئنز کی موجودگی میں انوکھا لاڈلا ’’ کھیلن کو مانگے چاند‘‘۔۔۔۔۔ دو تہائی اکثریت۔۔۔۔۔ جو اس لیے دکھائی نہیں دے رہی کہ’’ بھٹو‘‘ کی تیسری پیڑھی کا نمائندہ بلاول بھٹو زرداری اعلان کر چکا ہے کہ پنجاب کے سیاستدان نہ کھیلیں گے نہ ہی کھیلنے دیں گے؟ مطلب استحکام پاکستان پارٹی ، آزاد امیدواروں اور جنوبی پنجاب سے نظریں چْرا کر ’’ میاں نواز شریف‘‘ اقتدار میں نہیں آ سکیں گے کیونکہ ’’ اقتدار‘‘ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی بند مٹھی میں ہوتا ہے جسے کھول کر اقتدار تک پہنچنے کے لیے سیاسی جدوجہد اور عوامی طاقت چاہیے ہوتی ہے جو لاڈلوں کا کام ہرگز نہیں ہوتا، اس کے لیے رواداری، برداشت اور سیاسی سوجھ بوجھ کارآمد فارمولا ہے جو کہ صرف جمہوری جدوجہد، اور قربانیاں دینے والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لاڈلے تو جیسے آتے ہیں ویسے ہی واپس چلے جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری عمر میں چھوٹے ضرور ہیں لیکن آج کے دور کے چھوٹوں کو چھوٹا ہرگز نہ سمجھیں یہ ’’ سبحان اللہ‘‘ والے ہیں۔ اس لیے بڑے میاں دلی طور پر خوش نہیں، کیونکہ بلاول بھٹو زرداری نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ بزرگ اب گھر بیٹھ جائیں یا مدرسے سنبھالیں، دوسری جانب والد گرامی قدر آصف زرداری نے بھی ’’ بلاول بھٹو زرداری‘‘ کو بچہ، ناتجربہ کار اور سیاسی زیر تربیت قرار دے دیا، یہی نہیں، یہ بیان بھی داغ دیا کہ میں بلاول کو زبان و بیان سے نہیں روک سکتا، اگر ایسا کیا تو وہ ناراض ہو جائے گا، پھر میں کیا کروں گا؟ لیکن جونہی بلاول نے دوبئی کی پرواز پکڑی زرداری صاحب ایک ذمہ دار اور اچھے باپ کی طرح نجی پرواز لے کر دبئی چلے گئے۔ کافی دلچسپ ہو گئی ’’ داستان گوئی‘‘ نے کام دکھایا ، سیاسی مہم جوئی کے لیے شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ تصویر شیئر کر دی بس پھر کیا تھا چنگاری کو ایسی ہوا ملی کہ ’’ بھانبڑ‘‘ لگ گئے۔ سیاسی جنگل میں آگ پھیلی، لاکھ تزوین ہوئی کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ یہ ’’ فرینڈلی میچ‘‘ ہے۔ نئی پروفائل پکچر میں محترمہ شہید کا بلاول کے کندھے پر ہاتھ اور مسکراہٹ کا ترجمہ یہ کیا گیا کہ بلاول نے باپ سے دوری کے بعد پیغام دے دیا کہ ’’ میرے پاس ماں ہے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرینڈلی فلم کا ٹریلر پہلے بھی چلا تھا لیکن جلد ہی ’’سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی‘‘ میں جا کر ’’ڈی فیوز‘‘ ہو گیا تھا۔ آج بھی اختلافات کی خبریں گڑنے والوں کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ سمجھ لیں کہ ’’لندن پلان‘‘ فلاپ ہو گیا۔ اب اقتدار کی بند مٹھی کھولنے کے لیے ’’دبئی پلان‘‘ کی حکمت عملی دیکھنے کو ملے گی۔ اس بیان کو یاد رکھیں کہ ’’باپ‘‘ باپ ہی ہوتا ہے ۔ ’’دبئی‘‘ میں زرداری صاحب ایک مرتبہ پھر سمجھائیں گے کہ اقتدار اس قدر آسانی سے نہیں ملتا جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ پارٹی چلانے اور اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کے لیے اَن گنت محلاتی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو فی الحال بلاول کے لیے آسان نہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دبئی میں ’’صنم بھٹو‘‘ کے گھر میں ہونے والی بیٹھک میں غلط فہمی دور ہو جائے گی اور آئندہ سیاست میں آصف زرداری سیاسی شطرنج میں فرنٹ فٹ پر کھیلتے نظر آئیں گے تاکہ وہ اپنا دعویٰ درست ثابت کرنے کے لیے وہ تمام چالیں چلیں جس سے ’’بند مٹھی اقتدار‘‘ کی نہ صرف کھولی جا سکے بلکہ ’’تخت اقتدار‘‘ کے راستے کی رکاوٹیں صاف ہو جائیں اور ’’نواز شریف‘‘ کی خوشیاں ان کے ’’من مندر‘‘ میں ہی دفن ہو جائیں، بہرکیف گزشتہ ماہ کی بلاول بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور خصوصی طور پر کے پی کے کے کامیاب جلسوں سے ان کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پارٹی اور سیاسی میدان میں ان کی سیاسی صلاحیتوں کو تسلیم کیا گیا، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے 16ماہ کی حکومت میں بطور وزیر خارجہ اپنا آپ منوایا تھا لیکن زرداری صاحب ایک طرف بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنتے دیکھنا بھی چاہتے ہیں، دوسری جانب انہیں بچہ اور ناتجربہ کار کہتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’’اقتدار‘‘ پھولوں کی سیج نہیں، کہ تمہیں بلا خوف و خطر اس پر بٹھا دوں۔ صبر و استقامت کا مظاہرہ کرو، وزیراعظم شپ بھی لے لینا’’ بڑے‘‘ ہو کر ؟؟؟
تاہم خبر یہ ہے کہ حکومت ایک مرتبہ پھر اتحادی ہی بنے گی۔ دونوں بڑی پارٹیاں ’’ میثاق جمہوریت‘‘ کے بندھن میں بندھی ہوئی ہیں۔ سپہ سالار تمام سیاستدانوں کو الیکشن سے پہلے اعلیٰ ترین قومی مفاد میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی مالا گلے میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ نتائج جو بھی نکلیں تمام رہنما ملکی استحکام اور معاشی بحران کے خاتمے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر رضا مند رہیں ایسی صورت حال میں اس ’’ڈربی‘‘ ریس کا فیورٹ سیاسی گھوڑا ریس شروع ہوتے ہی گیٹ میں پھنس گیا ہے۔ ایمپائرز نے انہیں سبق یاد کرا دیا کہ قبل از الیکشن تمام ’’ رپورٹس‘‘ ایسی نہیں کہ جس کے تحت یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آپ کو دو تہائی اکثریت مل سکے گی لہٰذا گھوڑا ’’بدک‘‘گیا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اسے ایسی حکومت نہیں چاہیے یعنی مسلم لیگ ن کی اکثریت کے باوجود بھی ’’نواز شریف‘‘ چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بنیں گے جبکہ ذمہ داران بڈھے گھوڑوں کو ’’لال لگام‘‘ دینے کو تیار نہیں، وہ کچھ نیا اور سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا چاہتے ہیں، ایسی اطلاع پر بلاول بھٹو زرداری نے بزرگوں اور بڑوں کو گھر اور مدرسے میں بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا۔ چند روز میں ’’دبئی پلان‘‘ کے نتائج سامنے آ جائیں گے اور بلاول بھٹو زرداری ایک مرتبہ پھر گرجتے برستے دکھائی دیں گے۔ ان کا بار بار لاڈلہ اور انوکھا لاڈلہ کہنا بھی میاں صاحب کو اچھا نہیں لگا ایسے میں مستقبل کی خبر ابھی کسی کے پاس نہیں کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا یعنی ’’بند مٹھی میں ہے اقتدار‘‘ اور اس مٹھی کو کھول کر سب کے سب اپنی ’’لاٹری‘‘نکالنے کی فکر میں ہیں۔ فیصلہ وقت اور الیکشن کرے گا کیونکہ سلیکشن کا تجربہ فلاپ ہو چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button