ColumnFayyaz Malik

18سال سے کم عمر افراد کا ڈرائیونگ کرنا جرم

فیاض ملک
لاہور کے علاقے ڈیفنس میں 11نومبر کو ایک کار حادثہ پیش آیا جس میں ایک کم عمر ڈرائیور کی گاڑی کی ٹکر سے دوسری گاڑی میں سوار رفاقت علی کی بیگم رخسانہ رفاقت، بیٹا محمد حسنین، بہو عائشہ، پوتا محمد حذیفہ، داماد محمد اسماعیل اور نواسی اتابیہ کی موت واقع ہوگئی تھی، پولیس نے کم عمر ڈرائیور افنان کو موقع پر ہی گرفتار کرکے اسکے خلاف تھانہ ڈیفنس سی میں مقدمہ درج کرلیا، بدقسمت گھرانے کے سربراہ رفاقت علی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ کم عمر ڈرائیور افنان نے دانستہ طور پر گاڑی کو ٹکر ماری جس کا مقصد گاڑی میں سوار تمام افراد کی جان لینا تھا، اب یہ حادثہ ہے یا ٹارگٹ کلنگ ، اس حوالے سے پولیس نے مختلف پہلوئوں پر تحقیقات شروع کردی ہیں، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ، ماضی ایسے خونیں واقعات سے بھرا پڑا ہیں، ذرا سوچیں! کم عمر بچوں کا سڑکوں اور گلی کوچوں میں گاڑی، موٹر سائیکل چلانا بلکہ یوں کہہ لیں کہ ہوا میں اڑانے کی کوشش کرنا، ون وِیلنگ کرنا، لوگوں کو خوفناک کرتب دِکھانا حتی کہ حادثات میں اپنے ساتھ دیگر افراد کو لے ڈوبنا ( جن میں عورتیں، بوڑھے اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں) ’’ لمحہ فکریہ‘‘ ہے ان والدین کیلئے جو اپنے بچوں کو روکنے کے بجائے ان کے گاڑی چلانے کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ یاد رہے!18سال سے کم عمر افراد کا بائیک ( موٹر سائیکل) اور کار وغیرہ چلانا قانونا جرم ہے، ہم سب گلی محلوں اور شاہراہوں پر دیکھتے ہیں کہ بچوں کا گاڑی و موٹرسائیکل چلانے کا سلسلہ عام ہوتا جا رہا ہے، اکثر بچے اپنے والدین کو پیچھے بیٹھا کر موٹرسائیکل یا گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں جس یہ بات تو واضح ہے کہ بچے اپنے والدین کی رضامندی سے یہ کام کرتے ہیں، جن بچوں کے پائوں بمشکل گیئر اور کک تک پہنچ رہے ہوتے ہیں، ان کو بغیر تربیت اور لائسنس کے گاڑی و موٹرسائیکل کی اجازت کس ملک میں ہے؟ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 24فیصد وہ افراد ہیں جو بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں جبکہ 41فیصد وہ لوگ ہیں جو 21سال سے کم عمر ہیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بچوں کے گاڑی و موٹرسائیکل نہ چلانے کے حوالے سے قانون موجود ہی نہیں ہے، ٹریفک حادثات کی ایک وجہ قانون کی کمزوری اور ان قانون بنانے والے اداروں کی کم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ ٹریفک قوانین کے نفاذ کا اہم مسئلہ ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں کی جا رہی، ٹریفک قوانین موجود ہیں لیکن مسئلہ انکے عملدرآمد کا ہوتا ہے، ٹریفک قوانین کیلئے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں، جو ٹریفک کا نظام منظم کرنے کیلئے بنائے گئے لیکن اب یہ صرف آرڈیننس کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، ان پر زیادہ تر عمل درآمد ہوتا ہی نہیں، مثال کے طور پر قومی ہائی ویز سیفٹی آرڈیننس 2000کے مطابق باقاعدہ لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حد سے زیادہ تیز گاڑی چلائے جس سے دوسروں کی جان و مال کو خطرہ ہو تو اس کو ایک مہینے کیلئے گرفتار کر لیا جائے اور اس پر عائد کردہ جرمانہ ایک ہزار ہوگا۔ یہ ایک اچھا قانون ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کہیں بھی اس پر عمل نہیں ہوتا، میری ناقص رائے میں پاکستان کی تقریباً 90 فیصد سے زائد آبادی ٹریفک کے بنیادی قوانین سے ناآشنا ہے، جس کی وجوہات بالکل واضح ہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام میں ٹریفک کے بنیادی اصولوں اور قوانین کی تعلیم پرائمری سے لیکر اعلی تعلیمی ڈگریوں تک نہیں دی جارہی، نصاب میں آپ کو کبھی ٹریفک کے متعلقہ کسی سکول، کالج، یونیورسٹی میں کوئی کتاب، کلاس پریڈ، کلاس ٹیسٹ، ماہانہ، ششماہی یا سالانہ امتحانات دیکھنے کو نہیں ملیں گے، یہی وجہ ہے کہ ہر روز زندگی کے معاملات نمٹانے کیلئے سڑکوں پر آئیں تو وہاں اکثر ڈرائیورز اور پیدل چلنے والوں کی لاپروائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ غلط پارکنگ، بنا ہیلمٹ کے موٹر سائیکل اور بنا سیٹ بیلٹ پہنے کار چلانا، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال عام بات ہے اور انکی خلاف ورزی پر ٹریفک پولیس اہلکاروں کو لوگوں کے چالان کاٹتے اور الجھتے دیکھتے ہیں،ہمارے ملک ہر شہری جہاں خود کو ایک منجھا ہوا سیاستدان اور ایک اچھا کرکٹر سمجھتا ہے وہیں اسے یہ گمان بھی ہے کہ اسکو ٹریفک قوانین پر بھی دسترس حاصل ہے، یہی نہیں زیادہ تر خود کو، ڈیڑھ ہوشیار، سمجھنے والے موٹر سائیکل سوار ٹریفک سگنل پر کھڑے وارڈنز کے پاس آ کر ہیلمٹ پہنتے ہیں اور بعض گاڑی چلانے والے بھی سیٹ بیلٹ پہنے کا دکھاوا کرتے ہیں، یقین جانئے ایسے لوگ پولیس والوں کو نہیں بلکہ خود اپنی زندگی اور اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے اور گاڑیوں سمیت موٹرسائیکل اور پیدل چلنے والے اپنے بنائے گئے اصول و ضوابط کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں، ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام بہت عام ہے ،ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سزا اسے ملتی ہے جو طاقت نہیں رکھتا جبکہ اثر و رسوخ والا سفارش کا سہارا لیکر بآسانی چھوٹ جاتا ہے۔بہرحال سانحہ ڈیفنس کے بعد لاہور ٹریفک پولیس بھی کم عمر ڈرائیوروں کیخلاف متحرک ہو گئی ہے اور شہر بھر میں ناکے لگا تے ہوئے کم عمر ڈرائیورز کیخلاف کریک ڈائون شروع کر دیا گیا جوکہ تادم تحریر انتہائی زور و شور سے جاری ہے، اب یہاں یہ سوال یہ بھی ہے کہ ایسے واقعات رونما ہونے سے قبل ہی ان کی روک تھام کیلئے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ اس حوالے سے سٹی ٹریفک پولیس آفیسر ( سی ٹی او) مستنصر فیروز کا کہنا ہے کہ اب کم عمر ڈرائیوروں کیخلاف چالان کے بجائے مقدمہ درج کئے جارہے ہیں، سٹی ٹریفک پولیس نے 11روز میں کم عمر ڈرائیونگ پر4054، بغیر لائسنس ڈرائیونگ پر 2646 مقدمات درج کئے گئے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیاد پر شہر خصوصا پوش علاقوں میں 190مقامات پر خصوصی ناکہ جات لگائے جارہے ہیں، سی ٹی او کا مزید کہنا تھا کہ کم عمر بچوں کیساتھ انہیں گاڑی، موٹرسائیکل دینے والوں کیخلاف بھی مقدمات درج کروائے گئے، ان کا کہنا تھا کہ موٹر وہیکل آرڈیننس ٹریفک پولیس کو کم عمر ڈرائیوروں کیخلاف کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔کوئی بھی ڈرائیور جب بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ میں غفلت برتتا ہے تو ہم اسکے خلاف کارروائی کرنے کے مجاز ہیں، لیکن ایسے جرائم میں اگر کم سن ڈرائیورز پکڑے جاتے ہیں تو انکے والدین کو بھی شامل کیا جاتا ہے، کم عمر بچوں کو گاڑی اور موٹرسائیکل دینے والوں کیخلاف بھی مقدمہ درج ہوگا، یہی نہیں اب بغیر لائسنس گاڑی اور موٹرسائیکل والوں پر بھی مقدمات درج کرائے جا رہے ہیں، جب تک ایسی سخت کارروائی نہ کی گئی تب تک ایسے لوگوں کے رویوں کی وجہ سے حادثات میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ لوگوں کو اس شعور کی ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ دوسروں کے بچوں کی سلامتی کا بھی سوچیں، ٹریفک قوانین کی پیروی کریں اور دوسروں کی سلامتی بھی یقینی بنائیں اور سڑک پر آنے سے پہلے روڈ سیفٹی اور قوانین کا مکمل علم لے کر آئیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ والدین ذمے داری نبھائیں 18سال سے کم عمر بچوں کو گاڑی اور موٹر سائیکل نہ چلانے دیں، کریمنل ریکارڈ بننے سے بچوں کا مستقبل خراب نہ کریں اس سے ان کو سرکاری نوکری اور ویزے کے حصول میں مشکلات آسکتی ہیں۔ یہ بھی ایک سچ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں کامیاب رہتی ہیں جو بنائے گئے اصول و ضوابط پر قائم رہ کر زندگی گزارتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button