Editorial

حماس، اسرائیل میں 4روزہ جنگ بندی

پچھلے 46روز سے غزہ پر اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ حملے جاری ہیں، جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زمینی، فضائی اور بحری حملے متواتر کیے جاتے رہے، جن کے نتیجے میں 14ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں جب کہ 33 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد میں ایسے بھی ہیں، جو عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔ شہدا میں 6ہزار کے قریب معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ اس جنگ کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب حماس نے پچھلے ماہ 5ہزار راکٹ اسرائیل پر داغے تھے۔ اسرائیل اس حملے پر تلملا اُٹھا اور اُس نے پوری شدت کے ساتھ جوابی حملے کیے، جن کا سلسلہ انتہائی ہولناک حد تک جاری رکھا۔ آخر کب تک فلسطینی ظلم سہتے رہتے، اُن کو نصف صدی سے زائد عرصے سے اسرائیل کی بدترین سفاکیت، درندگی، ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ اُن کے تمام تر حقوق سلب ہیں۔ اُن پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ مسلمانوں کے قبلہ اول کے تقدس کی پامالی اسرائیلی فوج کا وتیرہ ہے۔ آخر ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اُس کے خلاف لازمی آواز اُٹھانی پڑتی ہے اور یہی حریت پسند فلسطینی تنظیم حماس نے کیا۔ اسرائیلی حملوں سے غزہ کا پورا انفرا سٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ لگ بھگ تمام عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں، ظالم اسرائیل نے اسکولوں کو چھوڑا نہ اسپتالوں کو، اقوام متحدہ کے مراکز کو بخشا نہ عبادت گاہوں کو، سبھی عمارتوں کو اپنے حملوں سے ڈھا دیا۔ ان عمارتوں کے ملبوں تلے لاتعداد لوگ دبے ہوئے ہیں، ہر طرف لاشے ہی لاشے ہیں، ان پر بین کے سلسلے ہیں، کہیں والدین دُنیا کی سب سے عظیم نعمت اولاد چھن جانے پر ماتم کناں ہیں تو کہیں اولادیں ماں، باپ کی میتوں پر غم سے نڈھال ہیں۔ فلسطین میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اس المیے کا ادراک دُنیا کے مہذب کہلائے جانے والے ممالک کو ہرگز نہیں ہے۔ وہ اسی لیے اسرائیل کی ان کارروائیوں کو درست اور فلسطینیوں کو ظالم قرار دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے مظلوم اور ظالم کے معنی ہی بدل ڈالے ہیں۔ وہ اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپاتے رہے۔ وہ اُسے مزید حملوں پر اُکساتے رہے۔ حالانکہ دُنیا کے اکثر ممالک کی جانب سے فوری جنگ بندی کے مطالبات کیے گئے۔ اقوام متحدہ بھی جنگ بندی پر مُصر رہی، پر مجال ہے کہ اسرائیل کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ اس نے 6ہزار معصوم بچوں سے حقِ زیست چھین لیا اور خود کو مہذب ٹھہراتے نہیں تھکتا۔ ایسا ظالم اور جابر ملک شاید ہی پہلے کبھی تاریخ انسانی میں گزرا ہو۔ بہرحال جنگ بندی کے حوالے سے مسلسل مطالبات سامنے آرہے تھے۔ اس ضمن میں کچھ ممالک اور ادارے کردار بھی ادا کررہے تھے۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ تاہم تازہ اطلاعات کے مطابق اس پر اسرائیل نے ایک روز کے لیے عمل درآمد موخر بھی کر دیا ہے۔بیرونِ ملک کے میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکومت کی جانب سے بیان میں معاہدے کی منظوری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے معاہدے کے تحت حماس 50یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جس کے بدلے میں اسرائیل 150فلسطینیوں کو رہا کرے گا، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، یرغمالیوں کی رہائی کا عمل جمعرات سے شروع ہونا تھا، تاہم اسرائیل نے اسے ایک روز کے لیے موخر کردیا، اب یہ عمل آج ( جمعہ) سے شروع ہوگا۔ غزہ میں چار روزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل مصر سے روزانہ 300امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت اور ایندھن کی فراہمی کی اجازت دے گا، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بیان میں کہا کہ حماس کے 7اکتوبر کو حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کے معاہدے کو قبول کرنا یک مشکل مگر درست فیصلہ ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یرغمالیوں کو چھوٹے گروپوں میں چار دن کے دوران رہا کیا جائے گا، جس کے دوران ’ مکمل جنگ بندی‘ ہوگی۔ حماس نے بھی 46دن تک جاری رہنے والے خونریز تنازع کے بعد بدھ کو قطر اور مصر کی ثالثی کے تحت اسرائیل کے ساتھ چار روزہ جنگ بندی معاہدے کی توثیق کی ہے۔ حماس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ پیچیدہ مذاکرات کے بعد، ہم اسرائیل کے ساتھ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر پہنچ گئے ہیں۔ جس کے تحت غزہ کی پٹی میں تمام فوجی کارروائیوں کو روکا جائے گا اور اسرائیلی فوج غزہ کے تمام علاقوں میں اپنی فوجی گاڑیوں کی ہر قسم کی نقل و حرکت کو روک دے گی۔ دوسری طرف معاہدے سے قبل اسرائیلی فورسز کی خان یونس میں اپارٹمنٹ پر بم باری میں 10فلسطینی شہید اور 22زخمی ہوگئے۔ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کو ڈرون اور میزائل حملوں سے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں پانچ فلسطینی شہید ہوگئے۔ حملہ طولکرم پناہ گزین کیمپ پر کیا گیا، اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ایک اور فلسطینی شہر قلقیلیہ کے قریب شہید ہوگیا۔ دوسری طرف غزہ میں زمینی آپریشن کے دوران ایک اور اسرائیلی فوجی مارا گیا۔ زمینی آپریشن میں ہلاک اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 69 ہوگئی ہے۔ اس معاہدے پر اسرائیل کی جانب سے من و عن عمل درآمد ہونا چاہیے۔ وہ اس کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ دوسری جانب فلسطین کو اسرائیل کے مظالم اور تسلط سے نجات دلانے کے لیے دُنیا کو اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ آخر کب تک فلسطینی مسلمان اسرائیلی ظلم و ستم کا شکار رہیں گے؟ کب اُن کو اُن کے بنیادی حقوق میسر آئیں گے۔ اُن کو بھی آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ سمیت تمام مہذب دُنیا کو سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ فلسطین کو آزاد ریاست کی حیثیت تفویض کی جائے، جہاں فلسطینی مسلمان آزادی کے ساتھ اپنی زیست بسر کر سکیں۔ اس مسئلے کا اس سے بہتر کوئی حل نہیں۔
ڈینگی کے وار، احتیاط سے تحفظ ممکن
وطن عزیز میں صحت کی صورت حال کسی طور تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ یہاں امراض تیزی سے پھیلتے اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ افسوس یہاں صحت و تعلیم کو کبھی بھی فوقیت نہیں دی گئی، اس لیے ان کے سالانہ بجٹ میں بہت کم حصے مختص کیے جاتے ہیں، اس وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ حالات مزید سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہاں ڈینگی ملیریا وائرسز سمیت دیگر تیزی سے پنپتے اور بعض اوقات کئی زندگیوں کے ضیاع کی وجہ بھی بن جاتے ہیں۔ سال 2011وطن عزیز کے لیے انتہائی ہولناک ثابت ہوا تھا۔ اُس برس ملک میں ڈینگی کے ہزاروں کیس رپورٹ ہوئے۔ سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے۔ خصوصاً پنجاب میں صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ بعد ازاں حکومتوں کے راست اقدامات کی بدولت ڈینگی کے وار کو روکا گیا۔ اس کے تدارک کے لیے احسن اقدامات ممکن بنائے گئے، جن کے نتائج آئندہ برسوں میں بہتری کی صورت ظاہر ہوئے۔ امسال بھی پنجاب سمیت ملک بھر میں ڈینگی وائرس اپنی حشر سامانیاں بپا کر رہا ہے۔ روزانہ ہی ملک کے مختلف خطوں سے لوگوں کی بڑی تعداد اس سے متاثر دِکھائی دے رہی ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب بھر میں 165نئے مریضوں میں ڈینگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ سیکریٹری صحت علی جان خان کے مطابق لاہور میں 103، راولپنڈی میں 3، گوجرانوالہ میں 22، ملتان میں 3، فیصل آباد میں 16، شیخوپورہ میں 6، نارووال میں 4، بہاولپور اور لودھراں میں دو دو جبکہ اوکاڑہ، ساہیوال، چکوال اور ننکانہ صاحب میں ڈینگی کا ایک ایک نیا مریض سامنے آیا۔ سیکریٹری صحت کے مطابق پنجاب بھر کے اسپتالوں میں اس وقت ڈینگی کے کُل 123مریض زیرِ علاج ہیں۔ صرف پنجاب ہی نہیں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان صوبوں میں بھی ڈینگی وائرس کے وار دیکھنے میں آرہے ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ ضروری ہے کہ ملک بھر میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے متواتر مچھر مار سپرے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر تمام علاقوں میں مچھر کُش چھڑکا کیا جائے۔ اس حوالے سے ذرا بھی غفلت برداشت نہ کی جائے، جو لاپروائی دِکھائے اُس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ دوسری جانب عوام بھی اس حوالے سے احتیاط کا دامن تھامے رکھیں۔ پانی کی ٹنکیوں، برتنوں میں صاف پانی کو ڈھانپ کر رکھیں۔ مکمل آستین کے کپڑے زیب تن کیے جائیں۔ خصوصاً بچوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے ساتھ بچوں کے جسم پر مچھر کُش لوشنز باقاعدگی کے ساتھ لگائے جائیں۔ احتیاط کے ذریعے ہی ڈینگی کا راستہ روکنا ممکن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button