ColumnRoshan Lal

کرکٹ ورلڈ کپ اور بی جے پی کی سیاست

روشن لعل
کسی بھی کھیل کے عالمی ٹورنامنٹ میں کھیلے جانے والے میچوں کی کیفیت اس کے عام مقابلوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ ٹورنامنٹ کے میچوں میں جہاں جیتنے والی ٹیم خود کو ٹرافی کے قریب ہوتا ہوا محسوس کرتی ہے وہاں شکست خوردہ ٹیم میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے ٹرافی اس سے مزید دور ہو گئی ہے۔ ابتدائی رائونڈ کے مقابلوں کے بعد ناک آئوٹ مرحلے کے میچ شروع ہونے پر اگر ایک طرف ان میں کامیابی کی خوشی بتدریج بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف شکست کے افسوس کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ فائنل میچ میں جہاں جیتنے والے ملک کی ٹیم اور شہریوں کو انتہا درجے کی خوشی ہوتی ہے وہاں شکست خوردہ ملک کی ٹیم اور شہریوں کے افسوس کی کہیں انتہا نظر نہیں آتی۔ ورلڈ کرکٹ کپ 2023جیتنے کے بعد آسٹریلیا کی ٹیم اور اس کے شہریوں کی خوشیاں تو زیادہ نمایاں نہیں ہو سکیں مگر بھارت کی ٹیم اور خاص طور پر اس کے شہریوں نے افسوس اور غم کی حدوں سے آگے نکل کر جو سوگ منایا اس کا نظارہ پوری دنیا کے خاص طور پر کیا۔ ورلڈ کرکٹ کپ جیتنے پر آسٹریلوی ٹیم اور شہریوں کی خوشی صرف اسی حد تک تھی جس حد تک کھیلوں کا کوئی عالمی مقابلہ جیتنے کے بعد ہونی چاہیے مگر اپنی ٹیم کی شکست پر بھارتی عوام سوگ کی حدوں سے بھی آگے نکلتے ہوئے دکھائی دیئے۔ بھارتی عوام کے شدید سوگ کی وجہ یہ ہے کہ فائنل میچ میں شکست کے بعد صرف ان کی مسلسل دس میچ جیتنے کی خوشیاں ہی ماند نہیں پڑیں بلکہ سیاسی فائدے بٹورنے کا وہ منصوبہ بھی ختم ہو گیا جو ان کی حکومت نے کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنی جیت یقینی تصور کرتے ہوئے بنایا تھا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر مکمل کنٹرول رکھنے والے بھارت نے اپنی ٹیم کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو اپنے ہوم گرائونڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوم کرائوڈ کی موجودگی میں اپنی مرضی کے مطابق بنائی ہوئی پچوں پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں کو جس مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا انہوں نے صرف ایک فائنل میچ کے علاوہ ٹورنامنٹ سے قبل کھیلے گئے ہر پریکٹس میچ اور پھر ٹورنامنٹ کے تمام مقابلوں میں عین اس مقصد کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں۔ ٹورنامنٹ میں بھارتی بائولروں کو خاص قسم کی معاون گیندیں فراہم کرنے کا پراپیگنڈا مکمل طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے۔ ٹورنامنٹ میں بھارتی بائولروں نے بھی اس طرح کی گیندوں سے بائولنگ کرائی جو دوسری ٹیموں کے کھلاڑیوں کو فراہم کی گئیں۔ بھارتی ٹیم کے بائولروں کا دیگر ٹیموں کے بائولروں سے اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ دوسروں کے برعکس انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ گیند کا بہترین استعمال کرنے کے لیے پچ کے ہر حصے کے متعلق مکمل تفصیل حاصل کر سکیں۔ بھارتی ٹیم نے اپنی ملک میں منعقدہ ٹورنامنٹ سے جو ہر ممکن فائدہ اٹھایا اسے ہر گز عجیب نہیں سمجھا جاسکتا ۔ بھارت کی جگہ اگر کسی دوسرے ملک میں ورلڈ کپ کے میچز ہو رہے ہوتے تو اس ملک کی ٹیم بھی اسی طرح سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرتی۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کی بجائے عجیب حرکتیں مودی حکومت نے کی ہیں۔ مودی حکومت کی عجیب حرکتیں یہ ہیں کہ اس نے صرف کرکٹ کا عالمی ٹورنامنٹ ہی نہیں بلکہ اپنے ملک میں منعقدہ ہر بین الاقوامی ایونٹ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔
بھارتی اپوزیشن کی ایک اہم رہنما اور بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے کھلے لفظوں میں بھارتی ٹیم کے پریکٹس سیشن کے لیے بنائی گئی کٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عین ورلڈ کرکٹ کپ سے قبل اس وجہ سے پریکٹس کٹ کا رنگ کیسری یا زعفرانی رکھا گیا کیونکہ بھارتی جنتا پارٹی اسی رنگ کو اپنی سیاسی شناخت ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ جو رنگ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس رنگ کی یونیفارم پہن کر اگر بھارتی ٹیم پورے ملک میں اور دنیا میں گھومے گی تو اندازہ لگایا جاسکتا کہ اس مفت نمائش کا نریندر مودی اور اس کی جماعت کو کس قدر سیاسی فائدہ ہوگا۔ صرف بھارتی اپوزیشن رہنما ممتا بینرجی نے ہی مودی حکومت کی حرکتوں پر تحفظات کا اظہار نہیں کیا بلکہ الجزیرہ جیسے نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر بھی ورلڈ کرکٹ کپ 2023سے متعلق نشر ہونے والی ایک سٹوری میں یہ کہا گیا کہ نریندر مودی کی حکومت اس ٹورنامنٹ سے ہر ممکن سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارتی صوبہ گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں واقع جس نریندر مودی سٹیڈیم میں ورلڈ کرکٹ کپ کا فائنل میچ ہوا اس کا نام کبھی سردار ولبھ بھائی پٹیل سٹیڈیم ہوا کرتا تھا۔ تماشائیوں کی زیادہ گنجائش کے لیے جب اس سٹیڈیم کو گرا کر اس کی از سرنو تعمیر کا آغاز ہوا تو تکمیل تک اسے سردار پٹیل سٹیڈیم ہی کہا جاتا رہا مگر تعمیراتی کام مکمل ہونے پر ستمبر 2022میں افتتاح کے موقع پر شاید یہ سوچ کر اس کا نام نریندر مودی رکھا گیا کہ ورلڈ کے میچوں کے دوران جب کمنٹیٹر بار بار مودی کا نام لیں گے تو مئی 2024میں منعقدہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی اس شہرت سے یقینی فائدہ اٹھائے گی۔ واضح رہے کہ احمد آباد کے ولبھ بھائی پٹیل سٹیڈیم کا نام نریندر مودی رکھنے سے کچھ برس قبل دہلی کے تاریخی فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے فوت ہو چکے لیڈر ارون جیٹلی کا نام دے دیا گیا تھا۔
ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے بھارت میں انعقاد کے اعلان کے بعد کرکٹ کٹ کا رنگ تبدیل کرنے جیسی حرکتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کا دوسرا اور فائنل مرحلہ بھارتی ٹیم کی ورلڈ کپ میں جیت کے بعد شروع کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ اگر بھارتی ٹیم نریندر مودی سٹیڈیم میں منعقدہ کرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل جیت جاتی تو عین ممکن تھا کہ اس جیت کے جشن میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم برآمد کر لی جاتی۔ اب بھارتی ٹیم کی شکست کے بعد اس طرح کی خواہشیں ، حسرت و یاس کی تصویریں بن چکی ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت نے صرف ورلڈ کرکٹ کپ ہی نہیں بلکہ بھارت میں 2023کے دوران منعقد ہ کچھ دیگر عالمی ایونٹس کو بھی اس طرح استعمال کرنے کی کوشش کی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں بھر پور سیاسی فائدہ حاصل ہو سکے ۔ جس طرح مودی حکومت اپنے ملکمیں قبل ازیں منعقدہ ہاکی ورلڈ کپ، شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی کانفرنس اور جی 20کانفرنس کو تمام تر کوششوں اور خواہشوں کے باوجود بی جے پی اور نریندر مودی کے سیاسی فائدہ کے لیے استعمال نہیں کر سکی اسی طرح یہ لگ رہا ہے کہ اس کی ورلڈ کرکٹ کپ سے فائدہ حاصل کرنے کی تمام کوششیں بھی بے سود ثابت ہو چکی ہیں۔
نریندر مودی کی حکومت اپنے ملک میں منعقدہ کرکٹ ورلڈ کپ سے تو سیاسی فائدہ حاصل نہ کر سکی مگر عجیب بات ہے کہ ایشیا کرکٹ کپ کے زیادہ تر میچ پاکستان سے سری لنکا منتقل کروا کے اس نے اپنے عوام کو خوش کر کے کافی سیاسی فائدہ بٹورا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button