ColumnNasir Naqvi

دنیا کی بے حسی پر آنسو بہائو، دوستو!

ناصر نقوی
جدید دنیا جانتی ہے کہ قتل و غارت، لڑائی جھگڑا اور جنگیں عالمی مسائل کا حل نہیں، پھر بھی پہلے یوکرائن روس سے ٹکرا گیا اور اب تنگ آمد، بجنگ آمد کے اصول پر ’’ حماس‘‘ نے امریکن ناجائز بچے کو للکار کر دنیا کو ’’ تیسری عالمی جنگ‘‘ کے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ نہ ’’یوکرائن‘‘ روس کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ہی ’’حماس‘‘ اسرائیل کا ہم پلہ ہے۔ پھر بھی جنگ دونوں مقامات پر جاری ہے کیوں؟ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ دونوں جنگوں میں امریکہ بہادر کی سپر پاوری پس پردہ ہے۔ آخر جو سامان حرب و ضرب کے انبار تیار کیے گئے ہیں وہ خرچ بھی تو کرنے ہیں کسی نہ کسی بہانے سے، سو عملی مظاہرہ جاری ہے۔ انسانیت رو رہی ہے، انسانی حقوق کے علمبردار آنکھیں اور کان بند کر کے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ اقوام عالمی کی نمائندہ تنظیم ’’ اقوام متحدہ‘‘ کی ایک قرار داد بھی کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ امریکی اور برطانوی صدور اپنے حواریوں کی مشاورت اور حمایت سے ’’ اسرائیل‘‘ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانی حقوق اور جنگ و امن کے نام پر وہ عالمی اصول پامال کر دئیے گئے ہیں جن کی امن کے ٹھیکیدار ساری دنیا کو تبلیغ کرتے ہیں۔ ’’ فلسطین‘‘ کو مسلمہ امہ سے امیدیں وابستہ تھیں لیکن او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس بھی منت سماجت پر ختم ہو گیا۔ نہ کسی نے کسی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا اور نہ ہی مصلحت پسندی کی چادر میں لپٹا اعلامیہ کسی نے چیلنج کیا، اس لیے کہ سب کے سب مفادات کی انفرادی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نتائج سب کے سامنے ہیں کہ فلسطینی بے جرم و خطا اپنی ہی سرزمین پر ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ غزہ وادی دیکھتے ہی دیکھتے ’’ انگار وادی‘‘ کا روپ دھار چکی ہے۔ عمارات کھنڈر، ہسپتال تہس نہس، شہری آبادیاں قبرستان ، ’’ زندگی‘‘ چاروں جانب سے موت کے چنگل میں ہے۔ مہاجرین اور متاثرین کو کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی، یہ وہی نسل آدم ہے جس نے برسوں پہلے ہٹلر کے ہاتھوں مارے جانے والے یہودیوں کے زندہ بچ جانے والوں کو انسانیت کے نام پر جینے کا حق دیا تھا۔ آج ان ہی محسنوں کی زندگیاں موت میں گھری زندگی کی بھیک کے لیے ترس رہی ہیں۔ ہمسایہ مسلمان ممالک نے سرحدیں بند کر دیں، خوراک، پانی اور نظام زندگی چلانے کے لیے ایندھن تک میسر نہیں اور بے حس دنیا اپنے دنیاوی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے آنکھ اور کان بند کیے ہوئے ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ، حکم حاکم دنیا ہے کہ حق اور سچ کا ساتھ دو، ورنہ مٹ جائو گے۔ حماس اور فلسطینی ظلم کے سامنے بے سروسامانی میں بھی سینہ تان کے کھڑے ہیں لیکن امت مسلمہ اپنے مفادات کی غلامی میں ظلم برداشت کر رہی ہے حالانکہ وہی جانتی ہے کہ ظلم کی نفی نہ کرنا اور ظلم برداشت کرنا بھی ’’ ظلم ہی ہے‘‘ ۔ ’’ آگ اور پانی ‘‘ ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود جب پھیلتے ہیں تو نہ صرف سب کچھ جلا کر بھسم کر دیتے ہیں بلکہ غریب، امیر، فقیر و بادشاہ سب کے نشیمن بہا کر لے جاتے ہیں۔ یہ بھی واضح پیغام موجود ہے کہ یہود و نصاریٰ سے دور رہو، شیر خدا دامادِ رسولؐ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو، پھر بھی ہم نے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہوئے بھی اس کی نہیں مانی، امریکی سازش میں عراق سے کویت پر حملہ کیا گیا، پھر ’’ سعودی عرب‘‘ کو صدام حسین سے ڈرا کر سرزمین حجاز میں محافظ بن کر یہود و نصاریٰ آن پہنچے۔ انسانیت کے نام پر یہودیوں کو پناہ دے کر بھول گئے لیکن انہوں نے آج احسان کا ایسا بدلہ اتارا ہے کہ عالم اسلام ہی نہیں دنیا کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اب لوگوں کو ہٹلر کی بات یاد آ رہی ہے کہ اس نے کہا تھا کہ اگر میں چاہتا تو ایک بھی یہودی زندہ نہ بچتا، لیکن کچھ کو اس لیے چھوڑ رہا ہوں کہ میرے بعد لوگوں کو احساس ہو جائے کہ میں نے انہیں کیوں مارا؟ آج پوری دنیا سراپا احتجاج ہے فلسطینیوں کے قتل عام پر مسلم ممالک سے زیادہ احتجاج غیر مسلم ممالک میں ہوا، جس میں ہزاروں اور لاکھوں افراد کی بلا امتیاز دین و مذہب شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ فلسطینیوں پر بدترین ظلم روا ہے اور اس سازش میں عالمی اداروں کی خاموشی تاریخ کا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس صورت حال پر اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ کہیں تیسری عالمی جنگ نہ چھڑ جائے۔
دنیا کی بے حسی اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ فلسطین میںقوم کا مستقبل بچوں کی زندگیاں چھین لی گئیں جو کہ سو فیصد غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت اور ظلم و بربریت میں شہداء میں پچاس فیصد سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ ایسے میں ’’ عالمی بچوں کا دن‘‘ انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا۔ عالمی ایام بنانے کا مقصد موضوع کے اعتبار سے دنیا کو آگاہی دی جاتی ہے تا کہ اس سلسلے میں مستقبل کے لیے مثبت حکمت عملی بنائی جا سکے۔ بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے بچوں کی تعلیم و تربیت، خوراک اور صحت پر خصوصی پیغام دیا گیا لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ ’’فلسطین‘‘ کے بچوں کے ساتھ اسرائیل نے جو انداز اپنایا ہے وہ قابل مذمت اور شرمندگی ہے تاہم اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بہت کچھ ایسا کہہ دیا جو بین الاقوامی سطح پر قابل توجہ ہے۔ ان کے خطاب کے دو حصّے ہیں۔ پہلے میں پاکستانی بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے اور قوم کے کل کے لیے اس نسل کی خصوصی ذمہ دارانہ ، تربیت، تعلیم اور صحت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا حکومت بچوں کے حقوق کے لیے پُرعزم ہے لیکن والدین اور اساتذہ کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا تعلیم ، صحت اور فلاحی ماحول کی ذمہ داری حکومتی ہے پھر بھی بہترین اور روشن مستقبل کے لیے یہ کام اگر دونوں جانب سے کیا جائے تو مثبت نتائج نکلتے ہیں بلکہ دوررس بھی ہوتے ہیں۔ دوسرے حصّے میں انہوں نے رنجیدہ لہجے میں کہا آج جب پوری دنیا ’’ بچوں کا عالمی دن‘‘ منا رہی ہیں تو میرے ذہن میں غزہ کے بچے ہیں جن معصوموں کا قتل عام ہو رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بچوں کا ’’ ہولو کاسٹ‘‘ دیکھ رہے ہیں۔ اس جنگ سے مشرق وسطیٰ کا امن خطرے میں پڑ چکا ہے اور ذمہ داران زبانی کلامی بیانات سے کام چلا رہے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کہ فلسطین کی موجودہ صورت حال مستقبل کے گھمبیر تنازعات کی اہم وجہ بنے گی پھر بھی ذمہ داران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم ا س نسل کشی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے کیونکہ ہم غزہ کے بچوں کے سامنے شرمندہ ہیں، جنہیں یہ قتل عام بند کرانا چاہیے وہ عالمی قوانین اور اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر کے اسرائیل کے سرپرست بنے ہوئے ہیں۔ وہ ان سوالات کا جواب دے سکتے ہیں کہ دنیا کے کس قانون کے تحت نہتے شہریوں، بچوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں پر گولہ باری کی جا رہی ہے پیشہ وارانہ افواج جنگیں لڑتی ہیں، نہتے لوگوں کا قتل عام نہیں کرتیں، یہ کوئی کارنامہ نہیں ، ان کا مقابلہ کرنا ہی بہادری ہے جو فلسطینی مشکل ترین حالات میں دنیا کو دکھا رہے ہیں۔
غزہ میں زندگی نہیں ’’ موت‘‘ رقصاں ہے۔ 20لاکھ سے زائد نفوس غذائی قلت کا شکار ہیں۔ امدادی سنٹرز کا بھی گھیرائو جاری ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ترین ممالک میں بھی اس حیوانی حرکت اور درندگی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن اسرائیلی فوج نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو فتح کر کے غلام بنانے کے لیے گھروں، بازاروں، مہاجر کیمپوں اور ہسپتالوں پر لشکر کشی میں مصروف ہے۔ نہ کوئی رکاوٹ ہے اور نہ کوئی روکنے والا، صرف مطالبہ ہے کہ بمباری رکوائی جائے حالانکہ اس جنگ کے نتائج جو بھی ہوں اسے برسوں اسرائیل بھی بھگتے گا۔ ’’ حماس‘‘ کے شانہ بشانہ صرف فلسطینی نہیں، لبنانی اور یمنی باشندے بھی کھڑے ہیں جو طاقت اور تباہی کا آخری منظر دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ منہ زور اسرائیل اس جنگ کو یمن اور لبنان تک پھیلانے کی جدوجہد کریگا تاہم حزب اللہ اس چیلنج کے لیے بھی صف بندی کر چکی ہے۔ حماس کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ وہ جنگ کو طول دیں گے ، خواہ جتنا بھی نقصان ہو وہ آخری سانس اور آخری فلسطینی تک اسرائیلی ظلم اور بربریت کا مقابلہ کریں گے تاکہ ’’ فلسطین‘‘ کے مسئلے کا مستقل حل نکلے اور فلسطینی جبر و غلامی کی بجائے آزاد فضا میں پھول پھل سکیں۔ ان کا اعلان ہے کہ وہ دنیا کی تاریخ میں قربانی اور جدوجہد کا نیا باب رقم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم اللہ کے فضل و کرم سے یہودیوں سے ’’ قبلہ اوّل‘‘ کی بازیابی بھی کرائیں گے۔ مسئلہ فلسطین کا اگر مجموعی جائزہ لیں تو 80سالہ پرانا مسئلہ محض مسلمان سربراہوں اور دنیا کے امن کے ٹھیکیداروں کی لاپرواہی سے خراب ہوا، بالکل اسی طرح جیسے مظلوم کشمیریوں پر بھارتی جارحیت جاری، انسانی حقوق کی پامالی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر حق رائے دہی نہ دینے کی بے اصولی اور بھارتی حکمرانوں کی دوغلی پالیسی نے مستقل حل نہیں نکلنے دیا، ’’ مسلم امہ‘‘ تیل کے ذخائر سے مالا مال، سعودی عرب ایک منفرد و مضبوط مملکت، عرب ممالک کی ایک بڑی فوج جنرل راحیل شریف کی قیادت میں موجود اور پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ’’ ایٹمی طاقت‘‘ پھر بھی کسی عملی کارروائی اور سخت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ اسرائیل غزہ پر مستقل قبضہ کا خواب دیکھ رہا ہے اس لیے کہ او آئی سی اور عرب لیگ عالمی سطح پر کسی قسم کا دبائو بڑھانے میں ناکام رہی کیونکہ سب کے سب اپنے مفادات میں کسی دوسرے کے مسئلے میں بولنے کو تیار نہیں، حالانکہ عراق، لیبیا، یمن اور شام کے معاملات کسی سے پوشیدہ نہیں پھر بھی یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ جو ہونا تھا ہو چکا اب وہ محفوظ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں ناکامی کے بعد اسرائیل کے ایماء پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ’’ حماس‘‘ کو اکسایا گیا تاکہ انہیں جنگ کا بہانہ ہاتھ آ جائے، اب امریکی حکمت عملی ناکام ہوتی معلوم ہو رہی ہے۔ طاقت عوامی جمہوریہ چین کی جانب بڑھ رہی ہے وہ اپنی ثالثی کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کو گلے ملا چکا ہے۔ اب اس نے غزہ جنگ میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔ بیجنگ میں ہونے والی بیٹھک سے اچھی امیدیں کی جا رہی ہیں لیکن جب تک مستقل حل تلاش نہیں کیا جائے گا اور فلسطینیوں کا غصب شدہ حق نہیں ملے گا امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا جب تک یہ قتل و غارت گری جاری ہے ہم تو صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں ’’ دنیا کی بے حسی پر آنسو بہائو دوستو‘‘!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button