Column

خوشبو، رنگوں اور روشنیوں کی شاعرہ پروین شاکر

رفیع صحرائی
پروین شاکر کا نام لیا جائے تو چاروں طرف عطر بیز خوشبو کا احساس ہوتا ہے، روشنیوں اور رنگوں کی قوس و قزح آنکھوں کے سامنے دلفریب نظارہ بناتی آ موجود ہوتی ہے۔ وہ محبت کا استعارہ تھی، ہمدردی اور حساسیت کا مجسمہ تھی۔ چاند، خواب، موسم، پھول، خوشبو اور رات کی شاعرہ پروین شاکر کو مردوں کے اس معاشرے میں اپنا آپ منوانے کے لیے سخت محنت اور جتن کرنے پڑے مگر دُھن کی پکی اس نرم و نازک پری نے آہنی ارادوں سے تمام مخالف ہوائوں کا رخ موڑ کر اپنے آپ کو منوا لیا۔ اور ایسا منوایا کہ اس کی اہمیت سے اب کسی کو انکار کی تاب نہیں۔ وہ شاید پہلی خاتون شاعرہ ہیں جنہوں نے نسائی جذبات و مسائل اور حقوق کو پوری طاقت اور جاندار طریقے سے بیان کیا ہے۔ وہ عورتوں کے حقوق کے لیے بڑی توانا آواز بن کر ابھریں۔
خوشبو، رنگوں اور روشنیوں کی شاعرہ پروین شاکر 24نومبر 1952ء کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہیں بچپن ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ ان کے خاندان میں کئی ادبا ء اور شعرا ء پیدا ہوئے، والد محترم سیّد ثاقب حسین خود بھی ایک شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے۔ ان کے نانا سیّد حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے، ان کے خاندان ہی کے بزرگ بہار حسین آبادی بہت قد آور ادبی شخصیت ہو گزرے ہیں، پروین نے جب لکھنا شروع کیا تو ابا حضور کا تخلص ہی اپنے لیے منتخب کیا اور پروین شاکر کہلائیں، ان کی والدہ محترمہ کا نام افضل النساء تھا۔ پروین شاکر کا اسلاف ہندوستان کے صوبہ بہار کے ایک گائوں چندی پٹی سے تعلق رکھتا تھا۔
پروین ہونہار طالبہ تھیں، دورانِ تعلیم اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں اور ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی و ادبی پروگراموں میں بھی شریک ہوتی رہیں۔ ریڈیو کو اس دور میں نہایت قد آور ادبی شخصیات کی خدمات حاصل تھیں اور نئے لکھنے والوں کے لیے ریڈیو یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا، پروین شاکر نے انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد ازاں جامعہ کراچی سے ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ پروین نے سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال تک عبداللہ گرلز کالج کراچی میں انگلش لیکچرار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1982ء میں پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ محکمہ کسٹمز میں کلکٹر بن گئیں، وہ سیکنڈ سیکرٹری سینٹرل بورڈ آف ریونیو بھی رہیں، بعد میں انہوں نے اسلام آباد میں بطور سی آر بی بھی فرائض انجام دئیے۔
1976 ء میں پروین شاکر کی شادی اپنے خالہ زاد سیّد نصیر علی سے ہوئی جو پاک آرمی میں ڈاکٹر تھے، 1978ء میں انہیں بیٹے کی نعمت عطا ہوئی، جس کا نام مراد علی رکھا گیا، مراد علی کو پیار سے گیتو بھی کہا جاتا تھا۔ پروین شاکر ایک حساس دل کی مالک تھیں اور یہی حساسیت ان کی شاعری کا سبب بنی تھی، شاعری میں انہیں جناب احمد ندیم قاسمی کی سرپرستی حاصل رہی اور پروین کا بیشتر کلام قاسمی صاحب کے ادبی مجلہ فنون میں شائع ہوتا رہا۔ پروین شاکر پیار سے احمد ندیم قاسمی کو عمو جان کہا کرتی تھیں، اپنا مجموعہ شاعری خوشبو کا انتساب قاسمی صاحب کے نام کیا۔ خوشبو کی پہلی نظم بھی قاسمی صاحب سے عقیدت کا اظہار ہے۔
سرِ شاخِ گُل
وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دور بہت دور ہے مگر اس کی
لطیف چھائوں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
مرے وجود مری شخصیت پہ چھائی ہے!
وہ ماں کی باہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مجھ کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفق دیرینہ دعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ مجھے سکھاتی ہیں
1980 ء میں خوشبو شائع ہوئی تو اس کی سحر انگیز خوشبو نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت پروین کی عمر صرف 24سال تھی۔ ادبی میدان میں اپنے ہونے کا احساس وہ بہت پہلے دلا چکی تھیں مگر اب انہوں نے خود کو منوا بھی لیا تھا۔ خوشبو کو آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
پروین کی ازدواجی زندگی الجھنوں کا شکار رہی۔ حالانکہ یہ ان کی پسند سے کی گئی شادی تھی مگر ان کی اپنے شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی، گیارہ سالہ ازدواجی زندگی شاید سمجھوتے کے سہارے ہی چلتی رہی مگر پھر پیمانہ لبریز ہو گیا۔ 1987ء میں پروین شاکر کی شادی کا انجام طلاق پر منتج ہوا، شوہر بے گانہ ہو گیا نو سالہ بیٹا مراد علی پروین شاکر کے حصے میں آ گیا۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
پروین شاکر نے اپنی شاعری میں مرد کے حوالے سے اپنے احساسات کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کی شاعری ہجر و وصال کی کشمکش پر مبنی ہے جس میں نہ ہجر مکمل ہے اور نہ وصال۔
کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
پروین شاکر خاتون شاعرات میں اپنے منفرد لب و لہجے اور عورتوں کے جذباتی و نفسیاتی مسائل پیش کرنے کے حوالے سے ایک ممتاز مقام کی حامل ہیں، انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت دی، اپنے لہجے کی بے باکی اور جراتِ اظہار کے ساتھ وہ جبر و تشدد کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتی ہیں، انہیں اپنے جذبات کے اظہار پر شرم و حیا کے پردے ڈالنا نہیں آتا کیونکہ انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ کروڑوں مظلوم عورتوں کی نمائندہ ایک توانا آواز ہیں۔ ان کے موضوعات محدود ہیں، اس کے باوجود ان کی شاعری میں نغمگی، ترنم، کومل جذبوں کی شدت و فراوانی، تجربات کی صداقت اور خوشگوار تازہ بیانی ملتی ہے۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
وہ نئے لہجے کی تازہ بیان شاعرہ ہیں جنہوں نے مرد کے حوالے سے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبات کی بہت خوب صورت انداز میں ترجمانی کی۔ ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری اور منت ترلے والی روایتی عشقیہ شاعری ہے اور نہ ہی بے باکی کے ساتھ کُھل کھیلنے والی رومانی شاعری۔ جذبے اور احساس کی شدت کو نہایت سادگی مگر فنکارانہ چابکدستی سے بیان کرتی ہیں۔ جذبہ کی صداقت، رکھ رکھائو کی نفاست اور لفظیات کی لطافت کے ساتھ نسائی شاعری میں پروین شاکر بہت بلند مقام پر براجمان نظر آتی ہیں۔
تیرا پہلو بھی ترے دل طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
پروین شاکر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے ادبی سرپرست، ان کے عمو جان احمد ندیم قاسمی کا کہنا تھا کہ پروین کی شاعری غالب کے شعر
’’ پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا۔۔۔ افسونِ انتظارِ تمنا کہیں جسے‘‘ کا پھیلائو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمنا کرنے یعنی انتظار کرتے رہنے کے اس طلسم نے ہومر سے لے کر غالب تک اونچی، سچی اور کھری شاعری کو قلبِ انسانی میں دھڑکنا سکھایا اور پروین شاکر نے اس طلسم کاری سے اردو شاعری کو سچے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔ بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔
18 سال کے عرصہ میں پروین شاکر کے چار شعری مجموعے خوشبو، صدبرگ، خود کلامی اور انکار منظرِ عام پر آئے، ان کا کل کلام ’’ کلیات‘‘ کے نام سے 1994ء میں منصہ شہود پر آیا۔ پروین کو 1985ء میں ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ اور 1986 ء میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی انہیں نوازا گیا۔
پروین شاکر 26دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں ایک کار حادثے میں انتقال کر گئیں، اسلام آباد انہیں بہت پسند تھا، وہاں کا سکون اور سکوت دونوں انہیں عزیز تھے۔ انہیں اسلام آباد کے ہی پرسکوت شہرِ خموشاں میں دفن کیا گیا جہاں وہ پر سکون ابدی نیند سو رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button