ColumnRoshan Lal

نواز، عمران، شہباز اور پھر نواز

روشن لعل
میاں نوازشریف کی حیران کن وطن واپسی کے بعد نہ صرف وہ خود بلکہ ان کے حواری بھی یہ حیرت انگیز دعوے کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کی طرف سے کیے گئے دعووں میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ پھر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو کر عین اسی طرح پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے کام کریں گے جس طرح انہوں نے بطور وزیر اعظم پہلے ملکی معیشت کو چار چاند لگائے۔ وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو میاں نوازشریف کی باتوں پر یقین کر چکے ہیں مگر جو لوگ ملک کی ناگفتہ بہ معاشی حالت سے آگاہ ہیں وہ ایسی باتوں کو گمراہ کن پراپیگنڈے کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے۔ میاں نوازشریف کی طرف سے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کی باتیں تقریباً ویسی ہی ہیں جو عمران خان 2018ء کے الیکشن سے قبل کیا کرتے تھے۔ کون بھول سکتا ہے کہ عمران خان ایک ہی سانس میں یہ بھی کہتے تھے کہ سابقہ حکومتوں نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا اور پھر اس بیڑا غرق معیشت کی بنیادوں پر ترقی کی عظیم الشان عمارت تعمیر کرنے کے دعوے بھی کر جاتے تھے۔ اسی طرح کے ہوشربا دعوے کرتے ہوئے عمران خان نے 2018 ء کے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کا منشور جاری کرنے سے پہلے ہی اپنی حکومت کا قیام یقینی ہونے کا تاثر دیتے ہوئے ترقی کے سو روزہ پلان کا اعلان کر دیا تھا۔ اس پلان میں عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن کے اندر طرز حکومت کی تبدیلی، قومی سلامتی کے تحفظ، زرعی ترقی ، جنوبی پنجاب صوبے کا قیام ، فاٹا کا انضمام ، خود مختار نیب، غیر سیاسی پولیس اور مبینہ طور پر لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا دعویٰ کیا تھا۔ عمران خان کے مذکورہ دعووں پر بغلیں بجانے والوں کی کمی نہیں تھی مگر اس وقت ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے ان کی باتوں کو دیوانے کی بڑ قرار دیا تھا۔
میاں نوازشریف خود اور ان کے حواری آج کل اسی یقین کے سہارے کھڑے نظر آرہے ہیں جس یقین کے سہارے عمران خان نے 2018ء کے انتخابات سے پہلے ہی اپنے وزیر اعظم بننے کا اعلان کر دیا تھا۔ اگر عمران خان کو دستیاب رہ چکے سہارے پھر سے میاں نوازشریف کو میسر آچکے ہیں تو ان کے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بننے پر زیادہ بحث کی زیادہ گنجائش باقی نہیں رہ جاتی لیکن ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے ان کے دعووں پر یہ سوال ضرور اٹھایا جاسکتا ہے کہ وہ ایسا کیسے کریں گے۔ ان دنوں میاں نوازشریف اور ن لیگ کے ترجمانوں کی طرف سے یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں ملک نے بے مثال ترقی کی تھی۔ مسلم لیگ ن کی پراپیگنڈا مشینری کے دعووں میں یہ کہا جارہا ہے کہ ان کی پالیسیوں کی بدولت پاکستان معاشی ترقی کی بلندیوں کی طرف گامزن ہو چکا تھا مگر عمران حکومت نے اس ترقی کو بریکیں لگا دیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے دور حکومت میں نہ صرف جی ڈی پی میں ریکارڈ اضافہ ہوا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی خاطر خواہ حد تک بڑھتے رہے۔ اسی طرح ٹیکسوں کی وصولی میں 20فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ ساتھ بجٹ خسارے میں نمایاں کمی کے بھی دعوے کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعض لوگوں کی طرف سے تو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اگر ان کی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد نہ روکا جاتا تو 2030 تک پاکستان کا شمار دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں ہو جاتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے دعووں میں کتنا وزن ہے۔
ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کی دعوے کرنے والے میاں نوازشریف کے متعلق یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ اب کی بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اسی حکمت عملی کے تحت یہ کام کریں گے جس حکمت عملی کے تحت انہوں نے پہلے حکومت کی۔ ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب کے خیر خواہوں کے لیے ان کی سابقہ حکمت عملی اور پالیسی انتہائی تسلی بخش ہو مگر معاشیات اور مالیاتی امور کے ماہرین ان کی حکمت عملی اور پالیسیوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ پاکستان کا معاشی ڈھانچہ بوسیدہ ہونے کے متعلق کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ میاں نوازشریف اپنے کسی بھی سابقہ دور حکومت میں اس بوسیدہ معاشی ڈھانچے کو چیلنج کرتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے مستقل وزیر خزانہ اسحاق ڈار بوسیدہ معاشی ڈھانچے کو توڑنے کی بجائے ہمیشہ اس کے سب سے بڑے محافظ بنے ہوئے نظر آئے۔ اس بات پر دو رائے نہیں کہ اگر میاں نوازشریف کی حکومت قائم ہوئی تو حسب سابق ان کے سب سے بڑے معاشی پالیسی ساز اور وزیر خزانہ ساز اسحاق ڈار ہی ہونگے۔ جو اسحاق ڈار بوسیدہ معاشی پالیسیوں کو چھیڑنا تک گوارا نہیں کرتے ان کی متعلق کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ ان کی معاشی پالیسیاں کسی قسم کی خوشحالی کی پیامبر ثابت ہوسکیں گے۔
میاں نوازشریف کی اکثر حکومتوں کے دوران اسحاق ڈار نے Regressive Taxعائد کرنے کی گھسی پٹی پالیسی پر عمل کیا۔ اس پالیسی کے تحت کسی پر کاروبار کے حجم یا منافع میں وسعت کی بنیاد پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا بلکہ مقرر کردہ خاص شرح کے مطابق وصول کیا جاتا ہے۔ میاں نوازشریف کی ماضی کی حکومتوں میں بڑے بڑے کاروباری اداروں اور زیادہ منافع کمانے والوں کے مالیاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ریونیو کی وصولی کا زیادہ تر بوجھ عام شہریوں اور چھوٹے کاروباری حضرات پر ڈالا جاتا رہا۔ اسی طرح قرضوں کی صورت میں حاصل کی گئی رقوم ایسے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی گئیں جن میں صرف مخصوص لوگوں کی صنعتی پیداوار استعمال میں آتی ہے ۔ اس پالیسی سے خاص اور منظور نظر لوگوں کے کاروباروں کو پھلنے پھولنے اور منافع کمانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آتے رہے۔ اس پالیسی پر عمل پیرائی سے فائدہ تو چند کاروباری خاندانوں کا ہوا مگر قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ تمام قوم پر ڈال دیا گیا۔ میاں نوازشریف کی سابقہ حکومتوں کی عمومی کارکردگی یہ رہی کہ ان میں طے کیے گئے زرعی و صنعتی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ کے اہداف کبھی بھی پورے نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود بھی ان پالیسیوں پر عمل جاری رکھا گیا جن کے ذریعے کوئی بھی طے شدہ ہدف حاصل نہ کیا جاسکا۔ یہ بات کسی بھی طرح ناقابل تصور نہیں کہ جب کسی بھی ملک میں زراعت اور صنعت کے دو بڑے شعبوں اور برآمدات میں حوصلہ افزا بہتری ممکن نہیں ہوتی تو پھر لازمی طور پر زرمبادلہ کے حصول کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر اور آئی ایم ایف کے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ بات تو عام فہم ہے کہ جب ملک آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسا ہو تو پھر نہ تو عام آدمی کو سکھ کا سانس نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کی زبوں حال معیشت کو مضبوط بنانے کے خواب دیکھا ممکن ہوسکتا ہے۔
ملک کی معیشت زبوں حال ہونے کے باوجود میاں نوازشریف اور ان کے حواری اسی طرح عوام کو معیشت مضبوط بنانے کے خواب دکھا رہے ہیں جس طرح عمران خان نے 2018ء میں دکھائے تھے مگر ذی فہم لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ نواز کے بعد عمران اور عمران کے بعد شہباز نے جو کچھ کیا ، میاں نوازشریف اپنے ہوشربا دعووں کے باوجود اس سے کیا مختلف کر پائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button