Columnمحمد مبشر انوار

بنتی ؍ بگڑتی قوم

محمد مبشر انوار( ریاض)
زندگی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگر آپ کا دشمن بھی کوئی اچھی بات/کام کرے تو نہ صرف اسے تسلیم کیا جائے،اس کی ستائش کی جائے بلکہ اس کی تقلید کرتے ہوئے ہوئے، اپنی اصلاح بھی کرنی چاہئے۔ بدقسمتی سے ہم برتری و انا کے خول میں سمٹے،اولا تو فریق مخالف کی اچھی بات/کام کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اگر بہ امر مجبوری کر بھی لیں تو اس کی تقلید کرنے اور اپنی اصلاح کے لئے قطعا تیار نہیں ہوتے بلکہ بالعموم اس کے برعکس جانے میں ہی اپنی بہادری تصور کرتے ہیں۔بدقسمتی کی انتہا دیکھیں کہ فی الوقت ہمیں تو کوئی ایسا قائد بھی قابل قبول نہیں کہ جو ہماری اصلاح کر سکے،ہمیں ہماری کمزوریوں سے آگاہ کرے،ہمارے لئے درست سمت کا تعین کرے اور اس سمت پر گامزن کرے،ہماری ،مراد طاقتورو اشرافیہ کا گٹھ جوڑ،کوشش ہوتی ہے کہ ہم ایسے قائد سے جلد از جلد جان چھڑا لیں۔نبی اکرمؐ نے عرب کے شتر بے مہار اور قبائلی عصبیت میں ڈوبے لوگوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ سب ایک لڑی میں پروئے گئے اور ایسی قوم بن کر ابھرے کہ جس نے دنیا کو ایک نئی سمت ،نئے اخلاق ( اللہ رب العزت کے طے کردہ)نہ صرف از سر نو متعارف کروائے بلکہ ان پر عمل پیرا ہو کر ،دنیا کے لئے قیامت تک ایک مثال قائم کر گئے۔بنی نوع انسان کے لئے اخلاقیات کے یہ معیار اور زندگی گزارنے کے رہنما اصول تا قیامت یونہی جگمگاتے رہیں گے اور جو اقوام ان اصولوں پر عمل پیرا رہیں گی، ان کے لئے عروج اور اوج ثریا یقینی ہے کہ یہی وہ طریقہ کار ہے کہ جس سے اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ آیا ان اصولوں کی پیروی کرنے والے کلمہ گو ہیں یا نہیں،عزت و عروج انہی افراد اور قوموں کا مقدر ٹھہرتا ہے کہ بہرکیف مخلوق وہ بھی اللہ رب العزت کی ہیں،جو سب کا رازق،مالک و مختار اور رب ہے۔1947سے اگر موازنہ کریں اور تحریک آزادی کی کامیابی کے عوامل کو بغور دیکھیں تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ تحریک آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایسی قیادت نصیب تھی کہ جس کی نیت اور دیانتداری پر کسی بھی مسلم کو رتی برابر شک نہیں تھا تو دوسری طرف یہ سچائی بھی دنیا کے سامنے تھی کہ مسلمانوں کے قائد کی شخصیت منافقت سے پاک تھی۔ جبکہ دوسری طرف فریق مخالف کی قیادت قوم پرست تو تھی لیکن ان صفات سے محروم تھی اور درپردہ ان کے مذموم مقاصد موجود تھے ،ہزار سالہ غلامی کا بدلہ بعد از آزادی اقلیتوں سے لینے کی خو ،ان میں بدرجہ اتم دکھائی دیتی تھی۔ قائد اعظمؒ نے دونوں ریاستوں کے درمیان امریکہ و کینیڈا جیسے پڑوسیوں کے تعلقات کی خواہش کی تھی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ آوادی کے دوران ہونے والے کشت وخون کے بعد،دونوں ریاستوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کے باوجود تعلقات بتدریج بہتر ہوتے نظر آرہے تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان مثبت مقابلہ بازی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا تھا، کھیل میدا نوں میں ہونے والے مقابلوں میں شہریوں کو دوسرے ملک جا کر میچ دیکھنے کی اجازت مل رہی تھی،اعتماد کی فضا پروان چڑھ رہی تھی،شہری ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کرماضی میں کی جانے والی زیادتیوں پر افسردہ تھے اور بہتر مستقبل کے لئے پرامید بھی تھے۔اس اعتماد سے چڑھتی صبح کو کس نے،کب ،کہاں اور کیوں قتل کیا؟اس کا جواب ہمیں مطالعہ پاکستان میںپڑھایا اور سکھایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ مطالعہ پاکستان صرف پاکستان میں پڑھائی جاتی ہے،اقوام عالم میں اس کے معتبر ہونے کی سند کہیں نہیں ملتی،تسلیم کہ محب الوطنی کا عنصر پیدا کرنے کے لئے اس کی ضرورت ہے لیکن عملی زندگی میں اگر عوامل بدل جائیں تو بچپن کی بنائی ہوئی بہت سی شبیہات ایک دھماکے سے ٹوٹ جاتی ہیں،جو پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔
ان حقائق سے ہٹ کر دوسری طرف نظر دوڑائیں تو یہ بھی انتہائی واضح ہے کہ ہندوستان نے بعد از آزادی تقریبا ہر شعبہ ہائے زندگی میں مستقل مزاجی سے ترقی کی ہے ،جس کا ثبوت اقوام عالم میں ان کی موجودہ حیثیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ کون سا ایسا شعبہ ہے کہ جہاں اقوام عالم میں ہندوستانی ہنرمند یا ان کی صنعتی پیداوار نظر نہیں آتی ؟گو کہ ان کا موازنہ کسی بھی صورت چین،جاپان یا کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک سے نہیں کیا جا سکتا لیکن جس رفتار سے ہندوستان آگے بڑھ رہا ہے،اس کا شمار ان ممالک میں ہونا بعید از قیاس نہیں البتہ دوسرے ممالک کی نسبت ہندوستان کا معاشرتی فرق،اسی اس حیثیت سے محروم کر سکتا ہے۔بہرکیف اس وقت ہندوستان کی حیثیت اقوام عالم میں پاکستان کی نسبت کئی گنا بہتر ہے لیکن انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ ہندوستان ہنوز مسلمہ اصولوں سے ہٹ کر ،جانبداری ،دھونس اور دھاندلی کے ساتھ ہی مقابلے کرتا نظر آ رہا ہے۔ بعینہ منافقت،بے ایمانی اور بے اصولی کے وہی طور طریقے جو عالمی طاقتوں کے منظور نظر اسرائیلی ریاست فلسطین اور دیگر ہمسایہ ممالک سے روا رکھے ہوئے ہے،ہندوستان کا شمار بھی اس وقت ایک ایسی ہی ریاست کے طور پر ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ سے لی جا سکتی ہے کہ ذاتی خواہشات کی تکمیل میں جس طر؛ اتنا بڑا مقابلہ ہندوستان میں منعقد ہو رہا ہے ،اس میں کرکٹ ،جسے جینٹلمین کھیل کہا جاتاہے،کی تعریف ہی بدلی ہوئی نظر آ رہی ہے،میدان میں ایسے ایسے فیصلے دئیے جا رہے ہیں کہ جس کی توقع کم از کم کرکٹ کے میدانوں میں کبھی نہیں رہی۔ہندوستانی کرکٹ ٹیم کو کامیاب کرانے، کھلاڑیوں کے انفرادی ریکارڈز کے لئے جو جتن کئے جا رہے ہیں،وہ ہندوستان کے لئے اعدادوشمار کی حد تک تو ٹھیک رہیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مؤرخ یہ ضرور لکھے گا کہ ان اعدادوشمار کے پیچھے کیا کارستانیں رہی ہیں۔
یہ تو خیر تصویر کا ایک رخ ہے لیکن دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ آج ہندوستانی شہری کے نزدیک،ان کی ریاست سب سے پہلے ہے، اور یہ وہ کام ہے کہ جس کو نہ صرف تسلیم کیا جانا چاہئے بلکہ اس کی ستائش اور تقلید بھی ہم پر لازم ہے۔ ہندوستانی سیاستدان سست روی سے اپنی قوم کی تعمیر کرتے رہے،انہیں قوم پرست بناتے رہے،ان کے لئے مواقع پیدا کرتے رہے،ان کی تعلیم وتربیت پر زور دیتے رہے،اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے رہے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اقوام عالم میں ہندوستان نہ صرف تجارت بلکہ قابل ذکر سیاسی حیثیت کا حامل ہے۔علاوہ ازیں! اپنی افرادی قوت کوبرآمد کرکے نہ صرف زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ اپنے بہترین دماغوں کی بہترین تربیت کرکے،ان کی عالمی اداروں میں حاصل کی جانے والی حیثیت سے بھی ملک کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔آج عالمی اداروں کے اکثر وبیشتر سی ای اوز پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ہندوستانی نعاد نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی شبانہ روز محنت او رقابلیت سے یہ مقام حاصل کیا ہے،اہم بات یہ قطعی نہیں کہ وہ اس مقام تک پہنچ چکے ہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اس مقام تک پہنچنے کے بعد اپنے ہم وطنوں کی اصلاح او رتربیت کے لئے کوشاں ہے تا کہ کل کلاں ان کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ،یہ عہدے پھر سے ان کے ہی ہم وطنوں تک پہنچیں۔اس سے زیادہ قوم پرستی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی راستے ہموار رکھے جائیں اور انہیں اس سمت میںنہ صرف رہنمائی فراہم کی جائے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے اور ہر ممکن مدد بھی دی جائے۔ سب سے اہم اخلاقی تربیت کہ کیسے کسی عالمی ادارے میں جا کر اپنی کارکردگی کے مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور کس طرح اپنے ہم وطنوں کے لئے مواقع حاصل کئے جاتے ہیں،یہ سب تربیت گفت و شنید و مذاکرات سے ممکن ہوتی ہے،ایک مسلسل جمہوری عمل،جس میں یہ سب تربیت مسلسل ہوتی رہتی ہے۔
مطالعہ پاکستان پڑھنے والے،یقینی طور پر اس سحر میں ڈوبے رہتے ہیں لیکن جب حقائق آشکار ہوتے ہیں تو پوری شخصیت ہی ہل کر رہ جاتی ہے کہ عملی دنیا میں حقائق اس کے برعکس نکلتے ہیں،قومی سطح پر مقتدر حلقے،قوم کو متحد کرنے کی بجائے،اسے منقسم کرتی دکھائی دیتے ہیں، قومی سوچ کی بجائے انفرادی سوچ کی ترجیح قد م قدم پر نظر آتی ہے تو صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اسلامی عقائد کے مطابق ہر شہری ،حتی کہ اقلیت کو بھی روزگار کے مساوی حقوق میسر ہوتے ہیں، کے برعکس حکمران خاندانوں کے پیٹ کا دوزخ ہی بھرنے کا نام نہیں لیتا اور شہریوں سے روزگار کے مواقع ہی چھین لئے جاتے ہیں۔ عوامی حقوق کی بات کرنے والے کسی بھی سیاستدان کو ،ہر دور میں پابند سلاسل رکھا جاتا ہے، اس کی مقبولیت کسی کھاتے میں نہیں تاوقتیکہ وہ وقت کے حکمرانوں کے سامنے سر نہ جھکا دے،اس وقت تک اس کی مقبولیت بے معنی ہے اور اس کا انجام ،لیاقت باغ میں فقط ایک گولی،کال کوٹھڑی، تختہ دار یا پھر لیاقت باغ میں ایک بم دھماکہ یا قید مسلسل ہی ہے۔مطالعہ پاکستان نے ہمیں ایک دشمن تو دیا لیکن اس دشمن نے میدان جنگ میں ناکامی کے بعد ایک قوم کا روپ کیسے اور کیونکر دھارا ،جبکہ ہم جو ایک خدا،ایک رسولؐ کو ماننے والے ہیں،ٹکڑوں میں کیوں منقسم ہوئے،اس کا احوال مطالع پاکستان بتانے سے قاصر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button