ColumnRoshan Lal

مستحکم انسانی حقوق اور مضبوط سرمایہ داری نظام

روشن لعل
ایسا ممکن نہیں کہ سرمایہ داری نظام کے مضبوط اور طاقتور ہونے پر کسی کو کوئی شک ہو مگر یہ ہو سکتا ہے کہ انسانی حقوق کو مستحکم کہے جانے پر کئی لوگوں کو حیرت ہی نہیں بلکہ تحفظات بھی ہوں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی شے نہ تو صرف مستحکم اور نہ ہی صرف مضبوط ہو سکتی ہے ، جو مضبوط ہو اس کا مستحکم ہونا اور جو مستحکم ہو اس کا مضبوط ہونا لازمی ہے۔ سابقہ جملے میں بیان کردہ مضبوطی اور استحکام کا تعلق سننے میں تو درست لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سائنسی تعریف کے مطابق مضبوطی ، مطلوبہ طاقت رکھنے کی صلاحیت کا نام ہے جبکہ استحکام، غیر مطلوبہ طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ اس تعریف کی وضاحت یہ ہے کہ بہترین میٹریل سے بنائی گئی عمارت کا ہر جز بظاہر تو مضبوط ہوگا لیکن اگر اس کی بنیادیں کمزور ہوں تو اس مضبوط عمارت کو مجموعی طور پر مستحکم نہیں سمجھا جائے گا۔
بات، مستحکم انسانی حقوق اور مضبوط سرمایہ داری نظام کے ذکر سے شروع ہوئی اور عمارتوں کی مضبوطی اور استحکام تک جا پہنچی، مگر اس سے یہ واضح ہو گیا کہ کسی شے کے مستحکم اور مضبوط ہونے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کسی عمارت کو تو دیکھا اور چھوا جاسکتا ہے مگر انسانی حقوق اور سرمایہ داری نظام کی ہیئت ایسی نہیں ہے کہ انہیں عمارتوں کی طرح پرکھا جاسکے ۔ سرمایہ داری نظام کی شہرت دنیا میں عمومی اور پاکستان جیسے ملکوں میں خاص طور پر ایسی نہیں ہے کہ اس کے حق میں کوئی طویل بیان جاری کیا جاسکے۔ سرمایہ داری نظام کی ایسی شہرت کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اسی نظام نے جاگیرداروں کی بے پناہ طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے انسانیت کی تذلیل کی بنیاد پر استوار کیے گئے غلام داری نظام کا خاتمہ کیا۔ سرمایہ داری نظام کے ساتھ جڑی اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ سرمایہ داری نظام نے صدیوں سے چلے آرہے غلام داری نظام کو ختم توکر دیا مگر بعد ازاں جو کچھ خود نافذ کیا اس سے انسانوں کا استحصال ختم نہ ہو سکا۔
سرمایہ داروں نے جب اپنے سے زیادہ طاقتور جاگیرداروں کی بالادستی کو ختم کیا، اس وقت سماج کے کمزور طبقات اور دانشوروں نے اس وجہ سے اپنا وزن سرمایہ داروں کے پلڑے میں ڈالا کیونکہ جاگیر داری کے خلاف جدوجہد کے دوران اس نعرے نے اہم کردار ادا کیا تھا کہ کسی بھی انسان سے اس کی نقل و حرکت کی آزادیاں سلب کر کے اور اسے ایک خاص مقام کا قیدی بنا کر کام لینا اس کے بنیادی انسانی حقوق کی بد ترین نفی ہے۔ انسانی حقوق کا تصور تو 539قبل مسیح میں ہی ظہور پذیر ہوگیا تھا مگر اس کے موجود ہ خد و خال کو 1215عیسوی کے میگنا کارٹا ڈیکلریشن کے بعد شروع ہونے والے ارتقا نے وضع کیا۔ انسانی حقوق کے تصور کے وسعت اختیار کرنے میں صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری نظام نے عمل پیما کا کردار ادا کیا۔ صنعتی انقلاب کے مختلف مرحلوں کے دوران یورپ میں بادشاہتیں کمزور اور عوام کی منتخب حکومتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہیں۔ یورپی ملکوں میں یہ تبدیلی وہاں کے عوام کی شعوری سطح بلند اور شہری حقوق کا احساس اجاگر ہونے کی وجہ سے رونما ہوئی۔ تبدیلی کے اس عمل کے دوران وہاں شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کا آغاز ہوا ۔ اس جدوجہد میں صنعتی مزدوروں کا کردار سب سے نمایاں رہا۔ جاگیرداروں کی پسپائی کے بعد غلام داری اور بانڈڈ لیبر کو تو مجرمانہ عمل قرار دے دیا گیا مگر اس کے بعد سرمایہ داروں نے اپنی طاقت کو صنعتی مزدوروں کے استحصال کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ صنعتی مزدوروں کے استحصال کے خلاف جدوجہد سے سوشلسٹ تحریک پیدا ہوئی اور پھر اس تحریک کے بطن سے کمیونزم کا جنم ہوا۔ محنت کشوں میں کمیونزم کی مقبولت سے خوفزدہ ہو کر یورپ کی جمہوری حکومتوں نے نوآبادیوں کی منڈیوں میں اپنی اجارہ داری کی بدولت حاصل ہونے والے منافع میں سے صنعتی مزدوروں کو بونس دینے کا آغاز کیاا۔ اکتوبر انقلاب کے بعد جب روس میں
کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو یورپ میں ایسے انقلاب کا امکان ختم کرنے کے لیے صنعتی مزدوروں کے قبل ازیں نظر انداز کیے گئے حالات کار اور اوقات کار میں بہتری کے مطالبات پر خصوصی توجہ دینا شروع کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ، کمیونسٹ اور جمہوری ملکوں میں بٹی ہوئی دنیا کی ایسی تصویریں پیش کی گئیں جن میں جمہوری ملکوں میں تو شہریوںکے حقوق کا اس حد تک احترام دکھا یا جاتا تھا کہ وہاں نہ شہری جبری ملک بدر ہوتے، نہ ان کا قتل عام ہوتا ، نہ جبری گمشدگی ہوتی ، نہ ماورائے عدالت قتل کیے جاتے اور نہ ہی اختلاف رائے کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں جبراً اپنا ہم نوا بنایا جاتا مگر کمیونسٹ ملکوں کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کے مذکورہ تمام لوازمات کو زبردستی جوڑ دیا جاتا تھا۔ اس طرح کے پراپیگنڈے کے جواب میں کمیونسٹ ملکوں نے یہ دعوے کیے کہ ان کے عوام کو جمہوری یورپی ملکوں کے عوام سے کہیں زیادہ روٹی ، کپڑے اور مکان کا تحفظ حاصل ہے۔ کمیونسٹ ملکوں کے یہ دعوے کسی نہ کسی حد تک درست تھے مگر ان ملکوں میں جب کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومتوں کے خاتمہ ہونے کے بعد جمہوری نظام قائم ہوا تو وہاں کے عوام نے گزشتہ تیس برسوں میں کسی بھی الیکشن کے دوران ان کمیونسٹ پارٹیوں کو اکثریت نہیں دلائی جن کی اجارہ دار حکومتوں کے دوران انہیں آزادی اظہار اور شخصی آزادیوں جیسے انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کمیونسٹ ا ور سرمایہ دار ملکوں کی حکومتوں کا رویہ یہ رہا کہ کمیونسٹ حکومتیں تو شخصی آزادیوں اور آزادی اظہار جیسے حقوق کی فراہمی سے صاف انکار کرتی رہیں مگر سرمایہ دار ملکوں کی حکومتوں نے اگرچہ انسانی حقوق کا پرچم بلند رکھنے کے ساتھ ان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی بھی کی مگر جہاں اور جب بھی انسانی حقوق سرمایہ داری نظام کے مفادات آڑے آئے تو انہوں نے فوراً ان کے احترام سے راہ فرار اختیار کر لی ۔
دور حاضر کے سرمایہ داروں کو نہ تو سوشلزم یا کمیونزم کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی انہیں یہ ڈر ہے کہ دنیا میں جاری کوئی مربوط تحریک ان کے من چاہے منافع کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ آج کے سرمایہ داروں کو اگر کوئی شے من چاہا منافع حاصل کرنے کے لیے انسانیت سوز کارروائیوں سے روک رہی ہے تو وہ اقوام متحدہ کا 30آرٹیکلوں پر مشتمل انسانی حقوق کا وہ چارٹر ہے جس کی نہ صرف سرمایہ داری نظام نے خود بنیاد رکھی بلکہ ماضی کے خاص حالات کے سبب اسے ترقی بھی دی۔ انسانی حقوق کا یہ چارٹر گوکہ سرمایہ داری نظام کی طرح طاقتور اور مضبوط نہیں ہے مگر اس کی بنیادیں اتنی گہری ہیں کہ اس کی پامالی کے لیے کوششیں کرنے والے سرمایہ داروں کو بھی اس کے مستحکم ہونے کا بخوبی اندازہ ہے۔ جو سچ سرمایہ داروں پر آشکار ہے اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کسی تصوراتی ازم یا نظام کی بجائے انسانی حقوق کے مستحکم چارٹر کے ساتھ امیدیں وابستہ کی جائیں کیونکہ اس سے بڑا کوئی ازم نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button