ColumnFayyaz Malik

پاکستان کا پہلا ISOسرٹیفائیڈ پولیس یونٹ

فیاض ملک
پاکستان کے پہلے ISOسرٹیفائیڈ سپیشل سکیورٹی یونٹ کی بنیاد ٹیرر ازم فنانسنگ کے موضوع پر جامع ریسرچ کرنے اور یونیورسٹی آف نارتھمبریا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنیوالے ڈاکٹر مقصود احمد نے 2010میں رکھی جبکہ سندھ میں کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کی صلا حیت رکھنے والی پاکستان کی پہلی اسپیشل ویپن اینڈ ٹیکٹیکس ٹیم (SWAT)کے قیام کا سہرا بھی اس قابل آفیسر کو جاتا ہے، سپیشل سکیورٹی یونٹ کے بانی ڈی آئی جی ڈاکٹر مقصود احمد نے پاکستان نیوی میں اپنی خدمات سر انجام دینی کے بعد سال 2001میں پولیس میں شمولیت اختیار کی، اپنی سروس کے دوران وہ پنجاب اور سندھ میںپولیس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، بہترین پیشہ وارانہ خدمات کے پیش نظر انہیں تمغہ امتیاز اور قائداعظم پولیس میڈل سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر مقصود احمد اس وقت پولیس ایمرجنسی اینڈ سروسز ڈویژن کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں پولیس مددگار 15کے کئی یونٹس کا انضمام کیا گیا ہے، ان کی کمانڈ میں مددگار 15کو جدید تقاضوں کے مطابق استوار اور اپ گریڈ کیا گیا ہے جس سے اس کا ریسپانس ٹائم محدود ہو کر تقریبا 7منٹ ہو گیا ہے اور پولیس کا یہ ونگ بھی اب (ISO)سرٹیفائیڈ ہو چکا ہے، سندھ پولیس کے اس قابل فخر یونٹ کے بارے میں مزید جاننے اور اس کے بانی پولیس آفیسر سے ملاقات کی خواہش مجھ کو لاہور سے کراچی لے گئی، جہاں میں سکیورٹی کے تمام عمل سے گزرنے کے بعد سپیشل سکیورٹی یونٹ کے ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہوا تو زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اور خوشدلی کے ساتھ اس یونٹ کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن راجہ میمن نے مجھے خوش آمدید کہا، سپیشل سکیورٹی یونٹ کی اس الگ دنیا میں میرے سامنے چاروں طرف موجود در و دیوار جنہیں خوبصورت رنگوں، فورس کے حوالے سے معلومات اور شہدا کی تصاویر کے ذریعی مزید جاذب نظر بنایا گیا تھا، یہی نہیں ہیڈ کوارٹرز میں چاروں طرف جدید قسم کی ڈبل کیبن گاڑیوں میں چاق و چوبند کسرتی جسم والے کمانڈوز موجود تھے، جو ایک حکم پر کسی بھی مشن پر جانے کیلئے تیار تھے، پارکنگ میں موجود لگژری بسیں، جن میں جدید سائنسی آلات سے مزین کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم نصب تھا، یاد رہے کہ ماضی میں صدر اور وزیر اعظم کی سکیورٹی کیلئے پاک فوج کو اپنے کمانڈوز بھجوانے پڑتے تھے تاہم اب یہ تمام ذمہ داریاں ایس ایس یو نے سنبھال لی ہیں، یہاں تک کہ غیر ملکی کرکٹ ٹیم کی سکیورٹی بھی ایس ایس یو کے کمانڈوز نے سنبھال لی ہے، سپیشل سکیورٹی یونٹ کے وزٹ کے دوران مجھ کو راجہ میمن نے بتایا کہ اس ادارے میں سیکڑوں کی تعداد میں خواتین کمانڈوز بھی خدمات انجام دے رہی ہیں، یہاں تمام اہلکاروں کو تین وقت کا بہترین معیار کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے، جسے ڈی آئی جی سے لیکر کانسٹیبل تک کھاتے ہیں ، یہاں دنیا کا جدید ترین اسلحہ موجود ہے، جو شاید پاک فوج کے کمانڈوز کے پاس ہوتا ہے، یہاں کے کمانڈوز کو پاکستان آرمی اور پاکستان نیوی کے کمانڈوز کے ذریعے اعلیٰ ترین معیار کی تربیت فراہم کی جاتی ہے جبکہ امریکہ
سمیت کئی ممالک میں بھی ان کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، پھر سب سے اہم اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس ادارے کے جوانوں کا بجٹ اتنا ہی ہے جتنا سندھ پولیس کے جوانوں کا ہوتا ہے، سپیشل سکیورٹی یونٹ کے جوانوں نے کراچی کے عوام کی حفاظت کیلئے قومی ایجنسیوں کے ساتھ ملکر درجنوں ایسے خفیہ آپریشن کئے ہیں جن سے ملک کی سلامتی کو محفوظ بنایا گیا، حقیقت تو یہ ہے کہ چند سال قبل کراچی دنیا کا چھٹا خطرناک شہر بن گیا تھا تاہم ان کمانڈوز نے کراچی کو اِس درجہ بندی میں اب ایک سو چھ نمبر پر پہنچا دیا ہے، اس وقت بھی کچے میں موجود ڈاکوئوں کیخلاف ہونیوالے آپریشن میں ایس ایس یو کا کردار انتہائی اہم ہے، ڈاکوئوں کے قلع قمع کیلئے اندرون سندھ میں روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالے سے آپریشن میں سپیشل سکیورٹی یونٹ کے کمانڈو بھرپور انداز میں حصہ لے رہے ہیں، سندھ پولیس میں رول ماڈل کی حیثیت رکھنے والے سپیشل سکیورٹی یونٹ نے دہشت گردی اور سنگین جرائم کے خاتمے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ مذہبی اجتماعات بشمول محرم الحرام سے لیکر کراچی سٹیڈیم میں ہونیوالے تمام کرکٹ میچز کے دوران سکیورٹی فراہم کرنے کی مرکزی ذمہ داری سکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈویژن کی ہے، دہشت گردی اور سنگین جرائم کے خاتمے کے دوران پولیس کے مختلف سیل کے ساتھ تعاون کر کے بہادری اور جانفشانی کی مثال قائم کرتے ہوئے فرائض کی ادائیگی کے دوران ایس ایس یو کے31کمانڈوز اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، یہ یونٹ سندھ میں سیلاب کے دوران ڈی آئی جی ڈاکٹر مقصود احمد کی نگرانی میں عوامی خدمات کا بھی عملی طور پر مظاہرہ کرتے ہوئے امن و امان کا قیام یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سیلاب زدگان کے مشکل وقت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہی، ان کی ہر ممکن مدد کی اور فلڈ ریلیف آپریشن میں فعال کردار ادا کیا، کرونا وائرس کے دوران بھی سکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈویژن پیش پیش رہی، جس نے مریضوں کی ہسپتالوں میں منتقلی سے لیکر مستحقین میں راشن کی تقسیم تک اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ اس میں کوئی شک نہیں کہ2010 میں چند سو افراد پر مشتمل اس کمانڈو یونٹ نے 13سال کے عرصے میں اپنی تعداد اور استعداد میں شاندار اضافہ کیا ہے، یہ امر بھی قابل ستائش ہے کہ اس یونٹ میں میرٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بھرتی کیلئے آنیوالوںکو نیشنل ٹیسٹنگ سسٹم کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ ان کا سائیکولوجیکل ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے، یونٹ کے تمام ونگ دیکھنے، سپیشل سکیورٹی یونٹ کی استعددکار اور اس کے تربیتی نظام کے بارے میں جاننے کے بعد یونٹ کے بانی ڈی آئی جی سکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈاکٹر مقصود کے دفتر میں داخل ہوا، جہاں پر ان سے گفتگو میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ تلخ سوالات بھی کرنے پڑے لیکن پھر بھی انہوں نے انتہائی تحمل سے جوابات کے ذریعے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سندھ پولیس وفاقی پولیس اور دیگر صوبوں کی پولیس کی نسبت زیادہ مخدوش حالات کے باوجود بہتر پرفارم کر رہی ہے، ڈاکٹر مقصود احمد کی سربراہی میں سندھ پولیس کی جانب سے سکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈویژن نے ایکسپو سینٹر منعقدہ دفاعی نمائش اور سیمینار (IDEAS) 2022کے 11ویں ایڈیشن میں شرکت کی، بین الاقوامی نمائشی تقریب
میں سندھ پولیس کی یہ پہلی شرکت ہے۔ نمائش میں ایس ایس یو، اسپیشل ویپن اینڈ ٹیکٹکس ٹیم (SWAT)اور سندھ پولیس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ونگ کی نمائش کی گئی، یہی نہیں سپیشل سیکیورٹی یونٹ نے مختلف قومی اور بین الاقوامی ایونٹس میں شاندار مہارتوں اور کامیابیوں کا مظاہرہ کیا، دبئی پولیس کے زیر اہتمام یو اے ای SWATچیلنج میں SSU SWATکی ٹیم نے حصہ لیا اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور کسی بین الاقوامی ایونٹ میں پولیس کی جانب سے پاکستان کی پہلی بار نمائندگی کی، نیشنل گیمز، سی این ایس اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ، اور ایم اے جناح اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ جیسے مقابلوں میں تمغے حاصل کئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سپیشل سکیورٹی یونٹ میں خدمات انجام دینے والے افسران کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی صلاحیتوں اور پیشہ وارانہ مہارت کو پولیس کے دیگر شعبوں کی ترقی و معیار کو بہتر بنانے کیلئے بھی استعمال میں لایا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایس ایس یو کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کے دیگر شعبے بھی اسی طرز پر ترتیب دئیے جائیں تاکہ دہشت گردوں ، خطرناک جرائم پیشہ عناصر کے منظم گروہوں کے قلع قمع کو یقینی بنایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button