ColumnRoshan Lal

سعودی ویژن 2030اور غزہ پر بمباری

روشن لعل
تمام دنیا کی نظریں، اسرائیل کی غزہ پر جاری اس بدترین بمباری پر مرکوز ہیں جو اس نے حماس کے اسرائیلی علاقوں پر کیے گئے راکٹ حملوں کے جواب میں شروع کی۔ عالمی میڈیا، اسرائیلی بمباری سے غزہ میں برپا ہونے والی دردناک تباہی کے مناظر دکھانے میں اس قدر مصروف ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں منعقد ہونے والے کئی ایونٹ اہم ہونے کے باوجود خبروں کا حصہ نہیں بن پا رہے۔ ایسا ہی ایک اہم ایونٹ، گزشتہ دنوں سعودی عرب میں منعقد ہوا۔ یہ ایونٹ ، فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹیٹیوٹ ( ایف آئی آئی) کے تحت 24سے 26اکتوبر تک سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا۔ یہ ایونٹ 2017سے سعودی عرب میں اس مقصد کے تحت منعقد کیا جارہا ہے کہ عالمی سرمایہ کار اپنی منافع کے تحفظ اور محفوظ کاروباری مستقبل کے لئے سعودیہ کی دستیاب فضا میں نئے راستے تلاش کرنے کی طرف راغب ہو ں۔ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹیٹیوٹ کو ایسے پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا جارہا ہی جس کی معاونت سے عالمی سرمایہ کار باہمی روابط کو فروغ دیتے ہوئے کاروباری دنیا کو درپیش چیلنجوں کو سمجھنے اور ان کا سامنا کرنے کے لیے نئی حکمت عملیاں تیار کر سکتے ہیں۔ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹیٹیوٹ کے حالیہ ایونٹ کے شیڈول کا اعلان حماس کے اسرائیل پر حملے سے بہت پہلے کیا جا چکا تھا۔ حماس کے حملے اور اسرائیل کی غزہ پر جوابی کاروائی کے بعد یہ خیال کیا جانے لگا تھا کہ شاید رواں برس اس ایونٹ کا انعقاد ممکن نہ ہو سکی مگر یہ ایونٹ نہ صرف منعقد ہوا بلکہ اس میں90سے زائد ملکوں کے 6000کے قریب ریکارڈ مندوبین نے شرکت بھی کی۔ قبل ازیں سرمایہ کاروں، معیشت دانوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں اکٹھ صرف سوئٹزرلینڈ کے سرد ترین مقام ڈیووس میں ہوتا تھا۔ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹیٹیوٹ کے تحت سعودی عرب میں دنیا کے سرکردہ کاروباری لوگوں کے اکٹھا ہونے پر میڈیا نے اس ایونٹ کو ’’ صحرا میں ڈیوس‘‘ کا نام دیا۔ شروع میں یہ ایونٹ دنیا کے بڑے بڑے کاروباری لوگوں کا اعتماد حاصل نہیں کر سکا تھا اور بعض لوگ اسے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ذاتی شو قرار دیتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ایونٹ کے متعلق عالمی سطح کے کاروباری لوگوں کی رائے تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ دنیا کے بڑے بڑے کاروباری لوگوں کی رائے تبدیل کرنے کے لیے بیرونی دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹیٹیوٹ کے تحت منعقدہ ایونٹ سعودی عرب کا پراجیکٹ نہیں بلکہ ایک ایسا عالمی ایونٹ ہے جو سعودی عرب میں منعقد ہوتا ہے۔ اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ کے دوران 6000 کے قریب دنیا کے بڑے بڑے کاروباری لوگوں کی ایف آئی آئی کے ایونٹ میں شرکت کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ایونٹ کو سعودی عرب کی حد تک محدود سمجھنے کی بجائے عالمی سطح کا ایونٹ تسلیم کر لیا گیا ہے۔
فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹیٹیوٹ کے تحت مذکورہ ایونٹ کا انعقاد سعودی عرب میں ولی عہد محمد سلمان کے اس اعلان کے بعد شروع ہوا جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ سال 2030ء تک سعودی عرب کی معیشت کا انحصار صرف تیل کی برآمد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ صنعتی پیداوار ، تجارت اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی طرف بھی منتقل کیا جائے گا۔ سعودی ولی عہد کے مذکورہ نظریے کے تحت صرف وہاں کے معاشی نہیں بلکہ سماجی ڈھانچے کی تبدیلی کا عمل بھی شروع کر دیا گیا۔ سعودی عرب کو ماضی کی نسبت ایک مختلف ملک کے طور پر پیش کرنے کے لیے وہاں نیوم کے نام سے دنیا کا جدید، مختلف اور منفرد ترین شہر بسانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس طرح کے اقدامات کے تسلسل میں پہلے تو دہائیوں سے چلی آرہی سعودیہ ، ایران مخاصمت ختم کرنے کے لیے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے گئے اور پھر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز ہوا۔ ایران اور اسرائیل عالمی سیاست کی دو متضاد انتہائیں ہیں۔ سعودی عرب نے خاص حکمت عملی کے تحت ان دونوں ملکوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں تعلقات استوار کیے۔ سعودی عرب اور ایران باہمی چپقلش کے باوجود کبھی براہ راست نہیں الجھے مگر پاکستان جیسے ملکوں میں اپنے حواریوں کے ذریعے پراکسی جنگ ضرورت لڑتے رہے۔ سعودی عرب نے عالمی سطح پر کاروبار ی مرکز بننے کا خواب دیکھنے کے بعد ایک طرف ایران سے سفارتی تعلقات قائم کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ اب اپنی توانائیاں دشمنیوں میں اضافے کرنے کی بجائے مختلف ملکوں کے ساتھ کاروباری روابط کو فروغ دینے پر صرف کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنی کا عندیہ دے کر اس یہودی کمیونٹی کو اپنے ملک کے ساتھ کاروباری روابط قائم کرنے کی دعوت دی گئی جس سے تعلق رکھنے والے لوگ دنیا کے ہر بڑے کاروبار میں شراکت دار اور منتظم ہیں۔
سعودی عرب ایک دہائی سے اپنا تبدیل شدہ چہرہ بیوپار کی دنیا میں قابل قبول بنانے کی کوششیں کررہا ہے ، ان کوششوں کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور اس حملے کے جواب میں اسرائیلی کاروائیوں سے شدید دھچکا لگا ہے۔ اس دھچکے کے باوجود فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹی ٹیوٹ کے تحت منعقدہ ایونٹ کی کامیابی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو کاروباری دنیا کا مرکز بنانے کے لے جو سفر شروعکیا تھا وہ رکنے والا نہیں ہے۔ حماس ، اسرائیل جنگ میں سعودی عرب کی طرف سے ان دونوں کی مذمت سامنے آچکی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے عوام سعودی عرب کی طرف سے حماس اور اسرائیل کی ایک جیسی مذمت کو فلسطینیوں کی حمایت کے لیے ناکافی سمجھ رہے ہیں۔ اسرائیل، غزہ پر جاری حملوں پر روزانہ 246ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے باوجود جنگ بندی سے انکار کرنے والا اسرائیل آخر کب تک روزانہ 246ملین ڈالر خرچ کر سکے گا۔ آخر کار اسے غزہ پر حملے بند کرنا ہی پڑیں گے مگر عام خیال یہ ہے کہ اپنی طرف سے حماس کا خاتمہ کرنے تک وہ شدید مالی نقصان کے باوجود یہ حملے بند نہیں کرے گا۔ معاملات جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں اس سے یہی نظر آرہا ہے کہ غزہ میں ہونے والے جانی نقصان کا ازالہ تو نہیں ہو سکے گا مگر وہاں ہونے والی تباہی کا مداوا ضرور کیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کام میں سعودی عرب سب سے بڑا حصہ ڈالے۔ جہاں تک حماس کا معاملہ ہے تو اسرائیل کے ہاتھوں اسے پہنچنے والے نقصان کے بعد بھی اگر کسی ملک نے اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی تو غزہ میں شروع کی گئی جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ جنگ اگر وسیع ہوئی تو پھر سعودی ولی عہد کے لیے ویژن 2030کے نام سے دیکھے گئے خواب پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ جنگ کا دائرہ اگر وسیع نہ بھی ہوا تو دو ریاستی فارمولے کے تحت فلسطینی ریاست کو قائم اور تسلیم نہ کیے جانے تک محمد بن سلمان کا خواب ادھورا رہنے کا امکان باقی رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button