ColumnNasir Naqvi

محبتاں سچیاں کہ جھوٹیاں؟

ناصر نقوی
پاکستان اور پاکستانیوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ اس بات کی فکر سیاستدانوں کی بجائے کسی اور کو لاحق ہے۔ سپہ سالار نے ایک مضبوط پیغام دے دیا کہ پہلے ’’ معاشی بحران‘‘ کا خاتمہ، پاکستان اور پاکستانی بچائیں گے تو سیاست بھی ہو گی، اقتدار بھی ملے اور اجتماعی مفادات کو آگے بڑھایاجا سکے گا لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہو گا کہ ریاست کو استحکام ملے اور قومی اداروں کو مستحکم کیا جا سکے۔ اس صورت حال میں اس بات کا احساس ایک مرتبہ پھر یہی ہو رہا ہے کہ فیصلہ وہی پرانا والا ہے۔ صرف انداز اور حالات بدلے ہیں یعنی ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ پھر سوال یہ پیدا ہو گا کہ یہ نعرہ براہ راست کیوں نہیں لگایا جا رہا۔ تو جواب یہی ہے کہ یہ نعرہ ایک زبردستی کے صدر نے لگایا تھا، لہٰذا اس سے پرہیز کیا گیا تاکہ کوئی غلط تاثر نہ نکل سکے، جبکہ سیاستدانوں کا نعرہ حقیقی عوامی محبت کا ہے لیکن درپردہ منصوبہ بندی پہلے اقتدار پھر خدمت کی ہے۔ تمام سیاسی رہنما اور جماعتیں دعویدار ہیں کہ ان کی پاکستان اور عوام سے ’’ محبتاں سچیاں‘‘ ہیں لیکن 9مئی کے معاملات اور ہوشربا مہنگائی کے ردعمل میں جواب ہے ’’ چل جوٹھا‘‘۔۔۔۔۔ اس جواب اور ردعمل کا جواب بڑے مضبوط انداز میں موجود ہے کہ سیاست دان اور حکمران کسی بھی دور کے ہوں صرف الزامات کی سیاست سے آگے نہیں بڑھتے، وجوہات کچھ بھی ہوں انداز اور روئیے نہیں بدلتے۔ اس وقت ریاست نگرانوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ذمہ داروں نے طاقت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ ایسے اقدامات کئے کہ لوگ ڈوبتی سانسوں میں بھی زندگی میں بہتری محسوس کر رہے ہیں لیکن عام آدمی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ڈالرز کو ایک حد تک قابو میں لایا گیا، مکمل طور پر روپیہ تگڑا نہیں ہوسکا پھر بھی امید قویٰ ہے کہ معاملہ بہتر ہو جائے گا۔ پیٹرول کی قیمت میں کمی بھی ہوئی، کاروباری سرگرمیاں بھی تیز ہوتی دکھائی دیں لیکن حقیقت میں ’’ مہنگائی‘‘ کا جن زندان میں ڈالا نہیں جا سکا جبکہ خاص لوگ زندان تک پہنچ گئے اور زندان سے نکل بھاگنے والے قابل عزت و تکریم قرار پا گئے اور دونوں خاص اس بات کے دعوے دار ہیں کہ ہماری عوامی محبتیں سچی ہیں ان پر شک نہ کیا جائے، جو جیل میں ہیں وہ فخریہ انداز میں کہہ رہے ہیں ہم عام آدمی سے محبت اور انہیں آزادی کی راہ دکھانے کے جرم میں ناجائز طور پر زندان میں ڈال دئیے گئے اور جو دوڑ لگانے کے بعد میدان سیاست میں آ دھمکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمارا جرم بھی پاکستان اور پاکستانیوں سے ’’ محبتاں سچیاں‘‘ ہیں۔ ہمیں ناجائز طور پر جعلی مقدمات میں قید کیا گیا۔ بے جا ظلم و ستم کر کے قید تنہائی میں سلو پوائزننگ سے بیمار کر دیا گیا، یوں مجبوراً علاج معالجہ کے لیے برسوں جلاوطنی کاٹنا پڑی۔ میری ناجائز مقدمات اور سزا کے باوجود واپسی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری محبت سچی ہے۔ ہم کسی بھی صورت عوام اور پاکستان سے دور نہیں رہ سکتے۔ تمام تر خطرات مول لے کر پہلے بھی واپس آئے تھے اور اب بھی تمام چیلنجز قبول کرتے ہوئے واپس آ گئے ہیں۔ مقدمات، الزامات اور سزا ایک خاص منصوبہ بندی کے پس منظر میں تھے اس لیے ہمیں ریلیف ملا، ہم نے مقدمہ اللہ کی عدالت میں چھوڑا۔ اس نے دنیاوی عدالتوں کا دل موم کر دیا، لوگ پریشان ہیں کہ ایسا کیونکر اور کیسے ہو ا۔ مخالفین بھول گئے کہ ابھی چند ماہ پہلے تک جو فیصلے عدالتوں سے ہو رہے تھے وہ کس میرٹ پر تھے؟
میں آج سے بہت پہلے یہ بات تحریر کر چکا ہوں کہ جونہی الیکشن کا چاند دکھائی دے گا ، سیاست کے نئے میدان سجیں گے ، سو حالات اسی نہج پر آ چکے ہیں۔ چند ماہ پہلے کے حکومتی اتحادی نئی نئی بولیاں بول رہے ہیں۔ وجوہات سابق وزیراعظم نواز شریف کی آمد اور ان کی سرکاری و غیر سرکاری آئو بھگت ہے۔ مخالفین اور سابق اتحادیوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ن مریم نواز کے مطالبے پر ’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ لے کر میلے ٹھیلے میں مصروف ہو گئی ہے جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری احتجاج کرتے ہی رہ گئے انہوں نے ’’ سیز فائر‘‘ سابق صدر آصف زرداری کی یقین دہانی پر کیا، ورنہ ایسا لگتا تھا کہ ’’ باپ بیٹا‘‘ آمنے سامنے آ گئے ہیں لیکن یہ رشتہ محبت اور پیار کا ہے۔ ’’ محبتاں سچیاں‘‘ تھیں تو معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ ’’ سیاسی محبتاں‘‘ کبھی بھی سچیاں نہیں ہوتی، اس کا مظاہرہ سیاسی اور معاشی بحران میں موجود ہے۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی سے خوف زدہ ہیں۔ سیاست اور حکمران مہنگائی تو کم نہیں کر سکے الیکشن مانگ رہے ہیں ان کا آئینی دعویٰ اور جمہوری ضرورت بھی حقیقت ہے لیکن زندگی اور جینے کے لیے مہنگائی کا خاتمہ اور روزگار کی فراہمی بھی حقیقت ہے؟ موجودہ حالات میں سیاست کا رخ مسلم لیگ ن کی طرف دکھائی دے رہا ہے اسے وہ تمام تر سہولیات بھی میسر ہیں جو ماضی میں ’’ خان اعظم‘‘ کو حاصل تھیں ایسے میں جمہوری پارلیمانی نظام اور سسٹم کی کمزوری ہر خاص و عام کو نظر آ رہی ہے کیونکہ اگر کسی بھی پارٹی یا سیاستدان کو خصوصی سہولت اور دوسرے کو دیوار کے ساتھ لگانے کی راہ ہموار کی گئی تو پاکستان اور پاکستانیوں کا مستقبل بھی ماضی سے مختلف ہرگز نہیں ہو گا۔ اگر حالات کا جائزہ لیں تو اتحادی حکومت کے خاتمے کے بعد اور موجودگی میں جو اقدامات کیے گئے اس کے نتائج ظاہری طور پر سامنے آ چکے ہیں۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی جو ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری تھی وہ جس انداز میں آسمان سیاست پر پروان چڑھی بالکل اسی طرح تتر بتر ہو گئی چند لوگ باقی ہیں ان میں سے جو روپوش ہیں ان سے کسی وقت بھی انٹرویوز اور پریس کانفرنس کی توقع ہے۔ اسد عمر جیسے پارٹی سے لاتعلق نہیں ہونا چاہتے پارٹی قیادت پر بھی ’’ لال نشان‘‘ لگا چکی ہے۔ اسد قیصر، علی محمد خاں اور دیگر صدر عارف علوی کی معاونت سے تحریک انصاف بچانے کی فکر میں ہیں تو ان پرشک ہے کہ وہ لوگ خاص قوتوں سے مل کر کھیل رہے ہیں اور ان کا حقیقی گول تحریک انصاف اور انتخابی نشان ’’ بلا ‘‘ بچانا ہے عمران خان نہیں، یعنی ابھی بھی ’’ مائنس ون‘‘ فارمولا زیر غور ہے لہٰذا حضرت مولانا فضل الرحمان اور مفاہمتی آصف زرداری نے بیان داغ دیا کہ عمران اور تحریک انصاف کے بغیر الیکشن اور اس کے نتائج قابل تسلیم نہیں بلکہ سخت تنقید کا باعث بنیں گے۔ اب اتحادیوں کی تلاشی لیں، بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم سابق وزرائے اعظم شریف برادران سے رابطے میں ہے۔ پیپلز پارٹی کی مخالفت میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پہلے ہی سے موجود ہے۔ مریم نواز ایم کیو ایم کی معرفت کراچی سے الیکشن کے میدان میں اترنے کی خواہشمند ہیں۔ اختر مینگل لاپتہ افراد کے حوالے سے اسلام آباد میں دھرنا دھرنا کھیل رہے ہیں۔ پہلے وہ ناراض ہو کر تحریک انصاف کی حکومت کو خیرباد کہہ کر اتحادی حکومت کا حصہ بنے تھے لیکن اتحادی حکومت بھی انہیں لاپتہ افراد کے حوالے سے کچھ نہیں دے سکی۔ بات واضح ہو گئی کہ سیاست میں جب کوئی فیصلہ اور حکمت عملی حتمی نہیں ہوتی تو محبتیں کس طرح سچی ہو سکتی ہیں۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اچانک تین بڑے اکٹھے ہو گئے جن میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف شامل ہیں۔ شیڈول میں ان تینوں شخصیات کا ’’ ٹاکرا‘‘ بھی ممکن نہیں لیکن سہولیات کے اس خصوصی دور میں تینوں شخصیات کا لاہور میں ہونا لندن پلان کے بعد لاہور پلان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ذرائع اسے حسن اتفاق نہیں بلکہ مستقبل کی سیاسی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں کیونکہ لندن میں بھی وزیراعظم کاکڑ جس ہوٹل میں قیام پذیر تھے، وہاں بھی ملک احمد خاں مسلم لیگ ن کے رہنما کی اتفاقیہ نموداری ریکارڈ پر ہے، وہاں بھی ملاقات سے انکار کیا گیا تھا، یہاں بھی یقینا یہی ’’ بیانیہ‘‘ منظر عام پر آئے گا لیکن چودھری شجاعت حسین کی یہ بات لاہوریوں کو یاد ہے کہ بُرے ترین حالات میں بھی ’’ پس پردہ‘‘ رابطے رہتے ہیں۔ الزام یہی ہے کہ نواز شریف تو دوستانہ میچ بھی ایمپائرز سے مل کر کھیلنے کے عادی ہیں لہٰذا دال میں کچھ کالا ہے؟ ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری بھی لاہور میں ڈیرے ڈالنے والے ہیں۔ نواز شریف اور زرداری ملاقات کے امکانات بھی ہیں اور مولانا فضل الرحمان بھی لاہور یاترا پر آئیں گے لیکن اندازہ یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر نواز شریف نے ان دونوں اتحادیوں سے کسی قسم کا ہاتھ کیا تو کے پی کے میں مولانا اور پاکستان میں آصف زرداری کی تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے کیونکہ سیاست میں سب چلتا ہے۔ سیاسی ’’ محبتاں سچیاں‘‘ نہیں ہمیشہ جھوٹیاں ہوتی ہیں یہ حالات کار اور واقعات کے ساتھ سیاسی موسم کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتیں؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button