ColumnTajamul Hussain Hashmi

اس بار کے لاڈلے

تجمل حسین ہاشمی
چند برس قبل نواز شریف اور ان کی جماعت ’ زیر عتاب‘ تھی۔ پانامہ کیس، ستمبر 2017میں میاں نواز شریف کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں تین ریفرنس دائر کیے گئے اور نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ساتھ پیشی کے لیے آتے تھے۔ عدالت کا وقت شروع ہونے سے 15، 20منٹ قبل ہی کمرہ عدالت میں پہنچ جاتے کیونکہ ان کے وکلا کے بقول خدشہ تھا کہ اگر وہ دیر سے عدالت پہنچے تو اسی بنیاد پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نہ جاری کر دئیے جائیں۔ سماعت مکمل ہونے تک نواز شریف عدالت میں رہتے۔ سماعت کے بعد نواز شریف میڈیا سے گفتگو کرتے اور اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ پر کُھل کر تنقید کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے۔ ان ریفرنسز کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو ( نیب) کے پراسیکیوٹرز نواز شریف کی مبینہ کرپشن سے متعلق دلائل دیتے کہ سابق وزیر اعظم سے بڑا ’ بدعنوان سیاستدان‘ پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ انہی دلائل کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو تین میں سے دو ریفرنسز میں سزائیں سنائی گئیں۔ اب تقریباً چھ برس بعد وطن واپسی پر نواز شریف پھر احتساب عدالت میں بطور ملزم پیش ہوئے، جنہیں سنہ 2018میں ایون فیلڈ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، وہ اس مرتبہ وہ وقت سے قبل عدالت آ کر انتظار نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ پارٹی رہنمائوں کے ساتھ کمرہ عدالت پہنچے تو انہیں فی الفور حاضری لگوا کر جانے کی اجازت دے دی گئی اور باقی کارروائی ان کی عدم موجودگی میں پوری ہوئی۔ میاں نواز شریف جب اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تو وہاں موجود سرکاری افسر نے نا صرف سیلوٹ کیا بلکہ ہائیکورٹ انتظامیہ کی طرف سے انہیں کمرہ عدالت میں لے کر جانے کے لیے ایک لفٹ مختص کر دی گئی۔ نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی عدالت میں اس دروازے سے لایا گیا جو کبھی بھی سائلین اور ملزمان کے لیے نہیں کھولا جاتا۔ عدالت نے بھی ان کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی اور وہ نیب جو ماضی میں ان کی بار بار گرفتاری کی درخواستیں کرتا تھا، اس کے پراسیکیوٹر کو اب نواز شریف کی گرفتاری مطلوب نہیں تھی۔ سیاسی حالات کی تبدیلی نے بہت کچھ بدل دیا۔ کل تک جنہیں 13سیاسی جماعتیں ’ لاڈلا ‘ قرار دیتی تھیں وہ آج ’ زیر عتاب‘ ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نا صرف قید میں ہیں بلکہ پے در پے مقدمات کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی چیئرمین شپ کو بھی خطرہ لاحق ہے ، مارکیٹ میں تین نام گردش میں ہیں۔ کرکٹر خان کے خلاف تین بڑے مقدمات ہیں، جن میں سائفر گمشدگی اور 9مئی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ باقی درجنوں مقدمات ہیں لیکن 9مئی کے واقعہ کی بھر پور مذمت کی جانی چاہئے۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان، جن کو سلیکٹڈ اور لاڈلا کہا جاتا تھا۔ اب ان کے کمرہ عدالت جانے کے لیے کوئی لفٹ مختص نہیں کی جاتی اور وہ عدالت اسی دروازے سے داخل ہوتے جہاں سے عام سائلین داخل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف ہیں جو تقریبا چھ سال بعد وطن واپس لوٹے، چار ہفتے میں علاج اجازت پر چار سال بیمار رہے اور آج سیاست میں پھر بھر پور استقبال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی طرف سے ’’ لاڈلے‘‘ کی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے ، اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے انٹرنیشنل میڈیا کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 2017میں میاں نواز شریف کو سازش کے تحت نااہل کر کے سزائیں دلوائی گئیں اور اب اگر اس سازش کے مرکزی کردار، جن میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان شامل تھے، اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور عدالتیں ان زیادتیوں کا ازالہ کر کے نواز شریف کو ریلیف فراہم کر رہی ہیں تو اس کو لاڈلہ پن نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت نیب بھی سازشیوں کے ساتھ ملکر کام کر رہا تھا۔ اب اگر نیب کے حکام آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں تو اس سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ نیب نواز شریف کو کوئی رعایت دے رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل احسن اقبال سب سمجھ کر ناسمجھی والے بیانات دے رہے ہیں، پاکستان کی سیاست کا یہی وہ روپ ہے جس نے پورے نظام کو سیاسی بنا دیا ہے۔ کیا یہ بیانیہ قوم کو مطمئن کر سکے گا۔ فروری میں ہونے والے الیکشن میں اس سے سپورٹ ملے گی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ الیکشن قریب کے دوران مزید تیزی آئے گی۔ اس وقت مسلم لیگ ن کو ساکھ کی بحالی کی ضرورت ہے، ووٹر کو چارج کرنا مقصود ہونا چاہئے۔ جلسہ میں لوگوں کو اکٹھا کرنا آسان لیکن الیکشن بوتھ تک کے سفر کے نتیجہ کا رجحان کافی بدل چکا ہے۔ یہ رجحان مسلم لیگ ن کی جیت میں مشکلات کا باعث ہو گا۔ سلیکٹڈ یا لاڈلا کوئی بھی ہو، اب کی بار جیت یا حکومت بنانا آسان نہیں ہو گی۔ پنجاب میں کوئی اکثریتی پارٹی نہیں ہو گی۔ اس دفعہ الیکشن میں کاروباری شخصیات کی بھرمار ہو گی۔ ان شخصیات کے کردار اور چہروں کی پہچان واضح ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے 90روز میں الیکشن کی سماعت پر الیکشن کمشنر کو صدر پاکستان سے مل کر الیکشن کی تاریخ فائنل کرنے کا کہا گیا۔ صدر پاکستان کے الیکشن کی تاریخ دینے کے قانونی اختیار کو الیکشن کمشنر تسلیم نہیں کر رہے تھے، اس فیصلے سے الیکشن کرانے کی تاریخ کے حوالے سی موجود سقم ختم ہوا اور اب الیکشن کمشنر کو بھی سکون میسر ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button