Editorial

فلسطین کی جنگِ آزادی دہشتگردی ہرگز نہیں

فلسطین لہو لہو ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کی جانب سے حملوں کا بدترین سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 6ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان 7اکتوبر سے اب تک جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اسرائیلی درندگی، سفّاکیت سے عبادت گاہیں محفوظ ہیں نہ اسپتال، تعلیمی اداروں کو تحفظ حاصل ہے نہ اقوام متحدہ کے مراکز کو۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس ایک سے زائد بار اسرائیل سے یو این او مراکز کو نشانہ نہ بنانے کی بات کرچکے ہیں، لیکن درندہ اسرائیل اُن کی کسی بات کو خاطر میں نہیں لارہا۔ دُنیا مفادات کی ہے، یہاں دوسروں سے متعلق آرا اپنے مفادات کی کسوٹی پر پرکھ کر قائم کی جاتی ہیں۔ اسرائیلی مظالم کی داستانیں فلسطین کی تاریخ میں ہر سُو بکھری پڑی ہیں۔ وہ نصف صدی سے زائد عرصے سے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہی۔ کتنے ہی بچوں کو یتیم کر چکا، کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجاڑ چکا، کتنی ہی عورتوں کو بیوہ کر چکا، کوئی شمار نہیں۔ بے گناہ لوگوں سے حق زیست چھین لینا درندہ صفت اسرائیلی فوج کا وتیرہ ہے۔ وہ مسلمانوں کے قبلہ اوّل کی بے توقیری بھی عرصۂ دراز سے کرتی چلی آرہی ہے، مسجد الاقصیٰ کے تقدس کی پامالی کے ڈھیروں واقعات ہیں۔ خود کو تہذیب یافتہ کہلانے والا اسرائیل جتنی سفّاک، ہٹ دھرم، غنڈہ، دہشت گرد ریاست ہے، اُس کی نظیر تاریخ انسانی میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ وہ ظلم بھی کرتا رہتا ہے، بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی پر مُصر ہے، پھر بھی مظلوم قرار پا رہا ہے اور جو ظلم سہتے آرہے ہیں، اُنہیں ظالم ٹھہرایا جارہا ہے۔ تازہ جنگ میں فلسطین میں بڑا انسانی المیہ جنم لینے کا اندیشہ ہے۔ کوئی تو اس ظلم کی تاریک رات کی سحر میں اپنا کردار ادا کرے۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں انفرا سٹرکچر مکمل تباہ ہوچکا ہے۔ زخمیوں اور شہیدوں کی بھرمار ہے۔ تدفین کو لالے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے نماز جنازہ کے اجتماعات پر بھی میزائل داغے جارہے ہیں۔ اسرائیل کو سپرپاور امریکا اور برطانیہ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ وہ اسرائیل کی ناصرف پیٹھ تھپتھپا رہے بلکہ مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم گرداننے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں دِکھا رہے۔ آزادی کی جنگ لڑنے والے اُن کی نظر میں بُرے ہیں اور غاصب اچھا۔ اُن کی نگاہ میں اسرائیل پُرامن ملک ہے اور فلسطینی مسلمان دہشت گرد۔ اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ عالمی برادری اسرائیلی افواج کے فلسطین پر طاقت کے استعمال کو روکے، فلسطین کا دارالحکومت القدس الشریف ہے، اس کی آزادی کی جنگ کو دہشت گردی سے جوڑنا نادانی ہے۔ پاکستان ایک آزاد فلسطینی ریاست کیلئے اپنی اصولی حمایت کا اعادہ کرتا ہے، نہتے فلسطینی شہریوں پر تشدد، اندھا دھند قتل عام پر، شہری آبادی، اسکولوں، یونیورسٹیوں، امدادی کارکنوں، اسپتالوں پر مسلسل حملے اور غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی انسانیت کے خلاف صریح جرائم ہیں، اس نازک موڑ پر عالمی برادری انسانی المیے کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے متحرک ہوجائے اور مظالم کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے سے باز رہا جائے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف سے گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں پاکستان میں متعین فلسطین کے سفیر احمد جواد ربیع نے ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے غزہ میں جاری جنگ میں فلسطینیوں کی جانی نقصان پر اظہار تعزیت کیا۔ انہوں نے جنگ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں نہتے فلسطینی شہریوں پر شدید تشدد اور جان بوجھ کر اندھا دھند قتل عام پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ شہری آبادی، اسکولوں، یونیورسٹیوں، امدادی کارکنوں، اسپتالوں پر مسلسل حملے اور غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی انسانیت کے خلاف صریح جرائم ہیں۔ آرمی چیف نے فوری طور پر جارحیت کو روکنے، غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر راہداری کھولنے، شہریوں کے تحفظ اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی پاسداری کے مطالبے کو دہرایا۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر قائم ہونے والی آزاد، قابل عمل اور ملحقہ ریاست فلسطین کے لیے پاکستان اپنی اصولی حمایت کا اعادہ کرتا ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ غزہ میں تشدد کی تازہ لہر، بے پناہ مظالم، انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور ریاستی سرپرستی میں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا نتیجہ ہے۔ اس جنگ کو دہشت گردی سے جوڑنا نادانی ہوگی۔ اس ایشو کو تنگ نظری اور خود غرضانہ طورپر ایک الگ تھلگ حملے کے طور پر دیکھنا، کئی دہائیوں پر محیط وحشیانہ جبر کو دھندلانے کے مترادف ہے جو اس نتیجے کی بنیاد بنا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا اس نازک موڑ پر، یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری اسرائیلی فورسز کی طرف سے طاقت کے غیر متناسب اور غیر قانونی استعمال کی وجہ سے رونما ہونے والے انسانی المیے کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے متحرک ہوجائے اور تہذیب و انسانی طرز عمل کے تمام اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے مظالم کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے سے باز رہا جائے۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ فلسطین کی جنگِ آزادی کو ہرگز دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ آزادی کے متوالوں کی عظیم جدوجہد ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں، تعلیمی اداروں، عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا ہٹ دھرمی، سفّاکیت کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے کہاں ہیں۔ اُنہیں فلسطین میں سسکتی انسانیت کا نوحہ کیوں دِکھائی نہیں دے رہا۔ وہ کیوں اسرائیل کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ آخر کب یہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوں گے۔ کیا فلسطینیوں کے قتل عام کا اسرائیل کو لائسنس دینا انصاف پر مبنی اقدام ہی۔ ایک دہشت گرد ریاست اسرائیل کو اس حد تک چھوٹ دینا مناسب ہے۔ ضروری ہے کہ اس سے پہلے کہ فلسطین میں بڑا انسانی المیہ جنم لے، عالمی برادری اپنا منصفانہ کردار ادا کرے۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی اپنے اندر ہمت پیدا کرے۔ مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حق کے لیے آواز بلند کرے۔ فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسرائیل کی جارحیت کو روکیں۔ فلسطینیوں کی امداد کے مسدود راستوں کو کھولیں۔ سب سے بڑھ کر فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کے لیے اصول، حق و انصاف پر مبنی فیصلہ کرانے میں اپنا کردار نبھائیں۔
ربیع سیزن، کھاد کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت
پاکستان زرعی ملک ہے اور یہاں کی کُل مجموعی آمدن کا بڑا حصّہ شعبۂ زراعت کے رہین منت ہے۔ اس کے لیے ہمارے جفاکش کسان شب و روز ایک کرتے ہیں۔ اچھی فصل کی یاوری کے لیے بھرپور طور پر کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے لیے قرض لیتے ہیں، زرعی ادویہ، بیج اور دیگر سامان خریدتے ہیں، فصلوں کی باقاعدگی سے آبیاری کرتے ہیں۔ فصل جب پک کر تیار ہوجاتی ہے تو اچھے مستقبل کے خواب اُن کو ہر لحظہ خوشیوں کا دامن تھامے رکھنے پر آمادہ رکھتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پچھلے کچھ سال سے ملک عزیز میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کھاد کا مصنوعی بحران پیدا کرکے اس کی بھرپور بلیک مارکیٹنگ کی جارہی ہے، من مانے نرخوں پر ان کی فروخت کی جارہی ہے، اس باعث غریب کاشت کاروں کے فصل کے اخراجات بے پناہ بڑھ جاتے ہیں۔ پہلے ہی بیج اور زرعی ادویہ چنداں ارزاں نہیں، اُس پر مہنگی کھاد کی خرید اُن کے لیے کسی بھاری بھر کم بوجھ سے کم نہیں ہوتی۔ یہ قبیح دھندا عرصہ دراز سے جاری ہے۔ کھاد کے ذخیرہ اندوز اور اسمگلرز اس ناپسندیدہ مشق کے ذریعے اپنی تجوریاں دھانوں تک بھر لیتے ہیں اور اُن کی کامیابی کی عالی شان عمارت غریب کسانوں کی بدحالی پر قائم ہوتی ہے۔ فصلوں کے حوالے سے ربیع سیزن خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں کسان خاصے پُرجوش ہیں، لیکن بعض اندیشے اُن کو دامن گیر ہیں۔ پہلے کی طرح پھر انہیں فصلوں کی تیاری میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ مہنگے بیج اور زرعی ادویہ خریدنی پڑیں گی، ساتھ ہی انہیں کھاد کے حصول میں مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کسانوں کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، اسی حوالے سے اُنہوں نے کاشت کاروں کی آسانی کے لیے اہم ہدایت کی ہے۔ نگراں وزیراعظم نے ربیع کی فصل کے لیے کسانوں کو بروقت اور بلاتعطل کھاد کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ نگراں وزیراعظم کی زیر صدارت ربیع کی فصل کے لیے یوریا کی فراہمی پر جائزہ اجلاس کا انعقاد ہوا۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ربیع کی فصل کے لیے کسانوں کو بروقت اور بلاتعطل کھاد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کھاد کے بفر اسٹاک کا بھی مناسب و بروقت بندوبست کیا جائے جب کہ ضلعی انتظامیہ کھاد کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھے۔ اجلاس کو ملک میں کھاد کی حالیہ پیداوار اور متوقع طلب کے بارے میں بتایا گیا۔ اجلاس کو کھاد کی بلاتعطل فراہمی کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں کو ربیع کی فصل کے لیے کھاد کی بلاتعطل فراہمی کی خاطر جامع لائحہ عمل بناکر پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس کو کھاد کی پیداوار کے خام مال کی قیمتوں، کھاد کی موجودہ قیمت، کھاد فیکٹریوں کو گیس کی فراہمی اور طلب کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کی جانب سے کی گئی ہدایت کسان دوست اقدام ہے۔ ضروری ہے کہ اس پر من و عن عمل درآمد کیا جائے۔ اس حوالے سے جو بھی غفلت کا مظاہرہ کرے، اُس کے خلاف کارروائی یقینی بنائی جائے۔ اس میں شبہ نہیں کسانوں کو کھاد کی بروقت فراہمی یقینی بنالی گئی تو ربیع سیزن میں بھرپور فصل کا حصول آسان ہوجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button