Columnمحمد مبشر انوار

انقلابی

محمد مبشر انوار( ریاض)
بارہا اپنی تحریروں میں اس امر کا اظہار کر چکا ہوں کہ پاکستان کے بدبو دار، متعفن اور گھٹن زدہ نظام سیاست میں حقیقتا انقلاب اور انقلابی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے کہ اس کے بغیر نہ تو پاکستان اپنی گم گشتہ سمت کا تعین کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سمت پر گامزن ہو سکتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوری طرز پر معرض وجود میں آنے والی اس ریاست میں جمہور اور جمہوریت دونوں یرغمالی بن چکے ہیں، ان کا استحصال پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی شروع ہو چکا تھا جو ہنوز جاری ہے۔ اس پس منظر میں یہ کیسے اور کیونکر ممکن تھا کہ یہ ریاست ترقی کے راستے پر گامزن رہتی اور اس کے شہری مطمئن و خوشحال رہتے، یہاں نت نئی ایجادات ہوتی اور یہاں تخیل پروان چڑھتے، اس ارتقائی عمل کو کبھی ایک نے تو کبھی دوسرے نے جبرا روکا، اس کے سامنے بند باندھے۔ بالخصوص جنرل ضیاء اس معاشرتی تباہی و بربادی میں بنیادی کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک ہیں کہ جن کے دور حکومت میں سوچ کو محبوس رکھا گیا اور جبرا معاشرے میں خوف و گھٹن کو پروان چڑھایا گیا تا کہ آمریت کو دوام رہے۔ طوعا و کرھا جب حالات بدلنے لگے اور ریاست میں جمہوری عمل کی ضرورت و مطالبہ زور پکڑنے لگا تو غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے افق سیاست پر بونے کرداروں کو براجمان کروایا گیا تاکہ اپنے تمام تر غیر آئینی اقدامات کی توثیق ایسی لولی لنگڑی پارلیمنٹ سے کرائی جا سکے۔ مقصد صرف ایک تھا کہ کہیں آئین شکنی پر کوئی ملکی عدالت دھر نہ لے، گو شمالی نہ کر دے حالانکہ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ جنرل ضیا ء آمر مطلق ہونے کے باوجود اپنے غیر آئینی اقدامات پر خود کو غیر محفوظ تصور کرتا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا ارادہ کسی بھی صورت اقتدار چھوڑنے کا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود تاریخ کو سمجھتے ہوئے، اس نے نہ صرف اپنے غیر آئینی اقدامات کی توثیق پارلیمنٹ سے کرائی بلکہ مرنے کے بعد بھی اپنے لاشے کو عدالتی کارروائی سے محفوظ کرا لیا۔ ویسے اتنے آئینی اقدامات سے جنرل ضیاء کو کسی بھی صورت فرق نہ پڑتا کہ ہمارا عدالتی نظام اس قدر کمزور ہے کہ جس کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے کہ اس نظام کو طاقتور جب چاہے، جیسے چاہے اور جہاں چاہے، توڑ کر نکل سکتا ہے، جبکہ ایک آمر کی تو بات ہی الگ ہے، جو جنرل مشرف مرحوم نے سچ ثابت کر دکھائی کہ آرٹیکل چھ کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود با آسانی عدالت کو چکمہ دے کر بیرون ملک نکل گیا، یہی صورتحال کسی بھی سویلین طاقتور کی بھی ہے۔ سویلین بااثر بہرطور وہی طاقتور ہے، جس کو طاقتوروں کی حمایت حاصل ہے وگرنہ تو شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ بااثر اپنے وقت میں کوئی بھی سویلین نہیں تھا لیکن جو سلوک بھٹو کے ساتھ ہوا، کسی آمر کے ساتھی کے ساتھ بھی اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بے نظیر اور آصف علی زرداری کے ساتھ جو سلوک ریاستی مشینری نے کیا، جس کے ایماء پر کیا اور جس کی سہولت کے لئے کیا، اسے کون ذی شعور پاکستانی یا تاریخ کا طالبعلم کیسے اور کس طرح فراموش کر سکتا ہے؟
یہاں آمروں ؍ طاقتوروں کے پروردہ سیاست دانوں میں جو مقام نواز شریف کو حاصل ہے، وہ کوئی دوسرا سیاستدان چاہے بھی تو حاصل نہیں کر سکتا، البتہ اس دوڑ میں آج کل زرداری پیش پیش ہیں لیکن انہیں ہنوز وہ حیثیت حاصل نہیں جو نواز شریف کو میسر ہے۔ نواز شریف کا طاقتورورں کے ساتھ تعلق انتہائی نرالا ہے، نواز شریف جب چاہے طاقتوروں کو رگید بھی سکتا ہے، عوام الناس میں اپنے نکالے جانے کا واویلا بھی کر سکتا ہے، عدلیہ پر باقاعدہ حملوں سے لفظی جنگ تک میں اسے آزادی میسر ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایسا مہرہ ہے کہ جب طاقتوروں کو ضرورت پڑتی ہے، یہ پوری دیانتداری کے ساتھ ان کے ہر کھیل میں شامل ہو جاتا ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ اور اس کی تباہی کی داستان اس ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی اور آنے والا مورخ، جس پر دبائو نہیں ہو گا وہ اس حقیقت کا پردہ ضرور چاک کرے گا کہ کیسے ایک شخص کی ہوس اقتدار نے اس ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھی۔
نواز شریف تقریبا چار سال بغرض علاج بیرون ملک رہنے کے بعد، ایک بار پھر امید پاکستان جہاز پر بیٹھ کر پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں اور اس واپسی میں قانون کی دھجیاں کس طرح بکھیری گئی ہیں، اس نے یقینا ہمارے عدالتی نظام کو بری طرح بے نقاب کیا ہے گو کہ وہ پہلے ہی اپنی عالمی رینکنگ کے باعث عیاں ہے لیکن نواز شریف کو ملنے والے موجودہ ریلیف ہمارے عدالتی نظام کے ماتھے پر ایک اور جھومر سجا چکا ہے۔ پاکستانیوں کی بدنصیبی و بدقسمتی کا اس سے زیادہ اظہار کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو بذات خود وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہے لیکن اس ملک میں اقتدار کے بغیر نہ تو رہنا اسے گوارا ہے، نہ اسے یہاں کے قانون سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی یہاں کے شہریوں کی کوئی پروا ہے۔ جس دیدہ دلیری و بے شرمی سے وہ معاہدے کرکے، قانون کو توڑتے ہوئے، قانون سے ماورا رہتے ہوئے اس ملک سے فرار ہوتا ہے، اور پھر واپس آکر جس اعتماد کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے، عوام کو اپنے فریب میں لینے کی کوشش کرتا ہے، یہ اسی کا خاصہ ہے۔ البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حکومت کرنے کے لئے، اسے جس طرح اکثریت ملتی ہے ، اب وہ کوئی راز نہیں رہا اور ساری دنیا اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہی کہ کس طرح ہر حلقے میں جعلی ووٹوں کا اندراج کرایا گیا ہے اور کیسے ان ووٹوں کو بیلٹ بکسوں میں بھرا جاتا ہے اور کیسے انتخابی نتائج کی گاڑیاں بھی الیکشن کمیشن کے دفاتر پہنچتی ہیں۔ سٹیٹس کو ، کی قوتوں کو ایسی قیادت ہی جچتی ہے جو طاقتوروں کے زیر اثر رہے اور کسی بھی موقع پر ان کے لئے درد سر نہ بنے تاکہ پس پردہ ان کی حکمرانی قائم و دائم رہے، البتہ جب خواہشات و تواقعات حد سے بڑھنے لگے تو گھر کی راہ دکھانے میں کوئی امر مانع نہیں ہوتا خواہ نوازشریف نکالے جانے پر واویلا مچائے کہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ جو صرف ایک ڈرامے سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ بالآخر پھر وہی چوکھٹ اور وہی معافیاں تلافیاں، وہی وعدے وعید اور تجدید وفا کے بعد دوبارہ اقتدار اسی خاندان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ خصوصیت صرف شریف خاندان کا ہی خاصہ ہے کہ سر بازار اپنے محسنان کو لتاڑ بھی سکتے ہیں اور شب کے اندھیرے میں گھٹنوں و پائوں کو ہاتھ لگانے سے بھی نہیں چوکتے، اس کردار کے ساتھ وہ احباب جو آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ نوازشریف ہی امید پاکستان ہیں، ان کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی صورت لٹھ بردار جتھوں کی مانند پل پڑتے ہیں کہ اختلاف رائے انہیں منظور نہیں۔
انقلابی بننے کے لئے بنیادی شرط ہی انسان کا اپنا کردار ہے کہ وہ کس طرح اپنے پیروکاروں کو اپنے سانچے میں ڈھالتا ہے، انقلاب لانے والوں کی تاریخ کا مطالعہ تو یہی بتاتا ہے کہ وہ نہ صرف پختہ کردار کے مالک رہے ہیں بلکہ ان کے سامنے ایک واضح نصب العین اور مقصد رہا ہے کہ جس کے حصول میں انہوں نے شبانہ روز محنت کی، اپنی خواہشات کو تج دیا، قانون کے سامنے سر جھکایا بلکہ خود کو قانون کے تابع رکھا اور کسی بھی مرحلے پر خود کو قانون سے ماورا نہیں سمجھا۔ اپنے ملک اور شہریوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی، ان کی جان مال، عزت و آبرو، خوشحالی و ترقی کے مساوی مواقع کو یقینی بنایا، ریاستی وسائل سے لوٹ کھسوٹ نہیں کی، ریاستی مشینری کو ذاتی وفاداری کے لئے مجبور نہیں کیا، سیاسی اثر و رسوخ کا بے جا استعمال اور مخالفین کے لئے زندگی اجیرن نہیں کی بلکہ کھیل کو اصول و ضوابط و قواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے کھیلا اور اپنی شکست کو جبرا کامیابی میں تبدیل نہیں کیا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد، یہاں ایسا کو انقلابی رہنما نظر نہیں آتا جو واقعتا انقلابی کی تعریف پر پورا اترے کہ یہاں ماسوائے بابائے قوم کے، آزاد ریاست بننے کے بعد، انقلابی کا نقاب پہنے سب، بشمول آمر و سویلین، ہوس اقتدار کے غلام نظر آئے خواہ بھٹو ہو، بے نظیر ہو، نواز شریف ہو یا عمران خان۔ انقلابی وہی تصور ہو گا جو قانون سب کے لئے برابر تسلیم کرے، قانون کو مکڑی کا ایسا جالا نہ سمجھے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے رہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جائیں اور نہ اس پر یقین رکھے کہ قانون تو بنائے ہی توڑنے کے لئے جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button