ColumnImtiaz Aasi

انصاف کا حصول اور قوموں کی ترقی

امتیاز عاصی
قوموں کی ترقی کا راز انصاف کے حصول میں مضمر ہے۔ پیغمبر اسلامؐ نے ویسے نہیں فرمایا تھا جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ قرون اولیٰ کی اقوام کی تباہی کے پس پردہ واقعات پر نظر ڈالیں تو جن قوموں نے حق تعالیٰ کے بتلائے ہوئے راستے کو چھوڑا ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ مسلمان دنیا میں تمام اقوام میں سب سے زیادہ ہونے کے باوجود اغیار کے دست نگر ہیں۔ جب تک مسلمان اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات اور رسولؐ کے بتلائے ہوئے راستے پر چلتے رہے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے۔ جیسے جیسے انہوں نے حق تعالیٰ کے احکامات اور رسولؐ کے فرمودات سے پہلو تہی کی ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔ ڈنمارک میں سیدنا عمر فاروقؓ کے دور کی اصلاحات نافذ ہیں وہاں کے قوانین کا نام عمر لاء رکھا گیا ہے۔ ہم 76سال گزرنے کے باوجود انگریز کے دیئے ہوئے قانون پر عمل پیرا ہیں۔ سوال ہے جس ملک کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہو وہاں اسلامی قوانین کیوں رائج نہیں ہو سکتے۔ افغانستان جیسا ملک جس کی تباہی کے مظاہر دنیا نے دیکھ لئے ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہاں اسلامی قوانین رائج العمل ہیں۔ کئی عشروں سے جنگ وجدل میں رہنے والا افغانستان معاشی لحاظ سے ہم سے بہتر ہے۔ افغان طالبان کی قیادت راست باز ہے ان میں کوئی ایسا نہیں جس نے بیرون ملکوں میں بینک اکائونٹس اور جائیدادیں بنائی ہوں۔ ہم اپنے سیاسی رہنمائوں کو دیکھ لیں بیرون ملکوں میں جائیدادیں بنائے بغیر انہیں چین نہیں آتا۔ عدالتی نظام دیکھ لیں کئی کئی سال مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے۔ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے خلاف مقدمات ہوں وہ این آر او لے لیتے ہیں۔ دنیا کے کسی مذہب میں کرپشن کرنے والوں کو این آر او دینے کا کوئی تصور ہے؟ کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لئے نئے قوانین بن جاتے ہیں۔ طویل عرصے تک مارشل لاء کے بعد جمہوری حکومتوں نے جو رنگ گھولے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جو کھلواڑ کیا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مجھے یاد ہے ایک موقع پر عمران خان نے ایک نجی چینل پر کہا تھا اسے گرفتار کیا گیا تو سخت ردعمل آئے گا۔ پھر نو مئی کو سب نے دیکھ لیا شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ جن بہادروں نے ملک و قوم کے لئے جانیں دیں انہی کی یادگاروں کو جلانے کا بھلا کیا مقصد تھا۔ ایک سو سے زیادہ لوگ اداروں کی تحویل میں ہیں ان کے لواحقین پر جو گزرتی ہو گی وہی جانتے ہیں۔ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں نام کمانے کے بعد سیاست میں جو مقام حاصل کیا سانحہ نو مئی نے اس پر پانی پھیر دیا۔ ملک و قوم کی بدقسمتی دیکھئے جن سیاست دانوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات تھے قوم کو انہی سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے عمران خان بہت جلد باز واقع ہوئے ہیں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد اپوزیشن میں رہنے کا حوصلہ ان میں نہیں تھا۔ دو عشروں کی سیاسی جدوجہد پر ایک دن میں پانی پھیر دیا ہے۔ سانحہ نو مئی کے گرفتار شدگان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔ سانحہ میں ملوث لوگ پانچ ماہ سے قید و بند کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمران خان تو پھر بی کلاس کی سہولتوں کے ساتھ جیل میں ہیں۔ یاسمین راشد جیسی معتبر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین جیلوں میں بند ہیں۔ فوجداری عدالتوں میں مقدمات کی منتقلی سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے گرفتار لوگوں کو ضمانتیں مل سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے سویلین افراد کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے آرمی ایکٹ فورسز کے اندر کام کرنے والوں کے لئے ہوتا ہے نہ کہ سویلین کے لئے۔ عدالت عظمی کے بینچ نے فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 59(4)کو آئین سے متصادم قرار دے کر اسے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا چند ماہ
قبل ہم نے ایک کالم میں سویلین کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل بارے ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر صر ف اس صورت ہو سکتا ہے جب سانحہ نو مئی جیسا وقوعہ کسی چھائونی میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ جہاں تک فیصلے پر عملداری کی بات ہے سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے الیکشن کے انعقاد بار ے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔ دیکھتے ہیں نئے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ہونے والے سپریم کورٹ کے اس بینچ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگا یا پھر اس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر ہو گی۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد ہمیں امید ہے عسکری قیادت بھی سانحہ نو مئی کے ملزمان بارے نرم رویہ اختیار کرے گی۔ ہمیں اس حوالہ سے فتح مکہ کی شاندار مثال کو سامنے رکھنا چاہیے، جب سرکار دو عالمؐ نے اسلام کے ازلی دشمنوں کو معاف فرما کر رہتی دنیا تک کے لئے ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ ویسے بھی متوازی عدالتی نظام انصاف کی رو کے مطابق نہیں ہوتا۔ آئین کا آرٹیکل10اے ریاست کے رہنے والوں کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ فوجی عدالتوں میں جہاں نہ کسی ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہوتی ہے پراسیکوٹر بھی اداروں سے ہوتے ہیں، جو انصاف کے قرین اصولوں کے خلاف ہے۔ قوم پہلے بھی اداروں کے ساتھ کھڑی تھی آج بھی کھڑی ہے اور آئندہ بھی افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی۔ اداروں کو حکومتوں کی کارکردگی پر ضرور نظر رکھنی چاہیے نہ کہ انہیں شتر بے مہار چھوڑ دینا چاہیے۔ سیاست دان ہوں یا عوام ان کی نظریں بالاآخر سپریم کورٹ پر ہوتی ہیں۔ سانحہ نو مئی کے گرفتار شدگان کا آرمی ایکٹ کے تحت چالان کے خلاف عدالت عظمیٰ کا فیصلہ دوررس نتائج کا حامل ہوگا۔ گو انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، قوم پر امید ہے سپہ سالار سید عاصم منیر کے دور میں شفاف انتخابات کا انعقاد ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button