ColumnRoshan Lal

فلسطینی بچے، کس جرم کی سزا پا رہے ہیں؟

روشن لعل
ایک بین الاقوامی این جی او، سیڈز آف پیس دنیا کے متحارب ملکوں کے بچوں میں جنگ کی بجائے مکالمے کے ذریعے مسائل حل کرنے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے۔ اس مقصد کے تحت متحارب ملکوں کے بچوں کو سخت تحریری اور زبانی امتحانوں کے ذریعے منتخب کر کے امریکہ میں منعقدہ ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے بلایا جاتا ہے۔ میری بیٹی نے 2014ء میں اس وقت امریکہ میں منعقدہ ورکشاپ میں شرکت کے لیے کوالیفائی کیا تھا جب اس کی عمر 14برس تھی۔ اس ورکشاپ میں جہاں ایک سے زیادہ جنگیں لڑنے والے پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں کے بچے بلائے گئے وہاں مسلسل جنگ کے ماحول میں زندگی گزارنے والے فلسطینی اور اسرائیلی بچے بھی موجود تھے۔ ورکشاپ میں شرکت کے لیے بیٹی کی امریکہ روانگی سے قبل میں نے اسے خاص طور پر کہا کہ وہاں انڈین بچوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اور فلسطینی بچوں سے بھی ضرور رابطہ کرنا کیونکہ ہوسکتا ہے تمہیں ان بچوں کے ساتھ کبھی دوبارہ ایک ساتھ ملاقات کا موقع نہ ملے جنہیں عموماً ایک دوسرے کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سے واپسی پر بیٹی نے اسرائیلی اور فلسطینی بچوں کے رویوں کے متعلق جو کچھ بتایا اس سے مجھے یہ سمجھنے میں کافی مدد ملی کہ متحارب گروہوں سے تعلق رکھنے والے یہ بچے کس قسم کی سوچ رکھتے ہیں۔ بیٹی نے جو بھی بتایا وہ سب تو یاد نہیں لیکن فلسطینی بچوں کے متعلق بتائی ہوئی اس کی کچھ باتیں آج تک نہیں بھلائی جاسکیں۔ اس نے بتایا تھا کہ کیمپ سے روانگی کے وقت مختلف ملکوں کے بچوں سے آخری ملاقات کرتے ہوئے جبیہ کہا گیا کہ بشرط زندگی پھر ملیں گے تو فلسطینیوں کے علاوہ تقریباً سب بچوں نے ملتے جلتے الفاظ میں میری ہی کہی ہوئی بات دہرائی۔ بیٹی نے فلسطینی بچوں کے جواب کے متعلق جو کچھ بتایا اس سے یہ اخذ ہوا ک ان کے والدین ان کی تربیت کے دوران ہی انہیں یہ باور کرا دیتے ہیں کہ کرہ عرض پر فلسطینیوں کی زندگیوں سے زیادہ ناپائیدار کوئی اور شے نہیں ہے ۔ میری بیٹی کے مطابق فلسطینی بچوں کا کہنا تھا کہ ان کے کئی ایسے دوست بچے اب اس دنیا میں نہیں رہے جن کے ساتھ وہ کھیلتے اور سکولوں میں پڑھتے رہے۔ ان باتوں سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ اچانک کوئی عذاب یا موت نازل ہونے کا امکان غزہ اور مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینی بچوں کے ذہنوں سے کبھی بھی محو نہیں ہو پاتا ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2014ء میں جب میری بیٹی نے امریکہ میں منعقدہ امن ورکشاپ میں شرکت کی ا س برس حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونیوالی جھڑپوں کے دوران 2314فلسطینی ہلاک اور 17125زخمی ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کے اتنی بڑی تعداد کے مقابلے میں 87اسرائیلی ہلاک اور 2629زخمی ہوئے تھے۔
اسرائیلی بچوں کے متعلق بیٹی نے یہ بتایا تھا کہ یورپ سے آئے ہوئے بچوں سمیت تقریباً تمام ملکوں کے بچوں نے ان سے سب سے زیادہ سخت سوال کیے۔ اسرائیلی بچوں نے ان سخت سوالوں کے جو جواب دیئے ان سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس بات کے لیے پوری طرح تیار ہو کر آئے تھے کہ ان سے کس قسم کے سوال پوچھے جائیں گے اور انہوں نی ان کا کیا جواب دینا ہے۔ امن ورکشاپ میں ملنے والی تربیت کے بعد اسرائیل سمیت سب ملکوں کے بچوں پر واضح ہو گیا تھا کہ وہاں جنگ کے حق میں پیش کیے گئے کسی جواز اور دلیل کو قابل قبول نہیں سمجھا جائے گا۔ لہذا جنگ سے نفرت کے اظہار کے باوجود اسرائیلی بچے اس بات کے قائل نظر آئے کہ اگر ان پر کوئی حملہ کرے تو انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بھر پور قوت کے ساتھ اس حملے کا اس طرح جواب دیں کہ حملہ آور طویل عرصے تک ان پر دوبارہ حملہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ امریکہ میں منعقدہ ایک ماہ کی ورکشاپ میں دی گئی تربیت نے اسرائیلی بچوں کے جنگ کے متعلق خیالات کو یقیناً تبدیل کیا ہوگا مگر حملوں کا جواب دینے کے متعلق انہوں نے جو کچھ کہا اس سے ظاہر ہوا کہ اسرائیل میں پیدا ہونے کے بعد ان کی جو تربیت ریاستی پالیسی کے تحت کی گئی اس کا اثر ان کے ذہن پر تربیتی ورکشاپ کے بعد بھی قائم رہا۔
اسرائیل کے جن بچوں نے 2014ء میں میری بیٹی کے ساتھ امن ورکشاپ میں شرکت کی، ہو سکتا ہے ان میں سے ہی کوئی بچہ آج اسرائیلی فوج کا حصہ بننے کے بعد ورکشاپ میں سکھایا گیا امن کا سبق مکمل بھول کر ریاستی پالیسی کے مطابق غزہ پر بمباری کر رہا ہو۔ جو فلسطینی بچے اپنے بچپن سی جاری جنگ کی وجہ سے اپنی موت کا امکان اپنے ذہنوں سے محو نہیں کر پاتے ان کے متعلق اس وقت کچھ کہنے کو دل نہیں کررہا۔ جن فلسطینی بچوں نے میری بیٹی کے ساتھ امریکہ میں منعقدہ امن ورکشاپ میں شرکت کی ان کی زندگی کی خواہش کرنے کے باوجود یہ خیال ذہن سے جھٹکنا ممکن نہیں لگتا کہ ناجانے ان میں سے کتنوں کو جوان ہونا ہی نصیب نہیں ہوا ہوگا۔ جو فلسطینی، اسرائیل کی حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ پرکی گئی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں ان میں بہت بڑی تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ حماس کے راکٹ حملوں سے اسرائیل میں یقیناً جانی و مالی نقصان ہوا مگر کسی حملے کا جواب ہزاروں گنا زیادہ شدت سے دینے کی جس پالیسی کے تحت اسرائیل اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے اس پالیسی کے تحت غزہ پر کیے گئے حملوں سے فلسطینیوں کا جو نقصان ہورہا ہے اس کی ابھی تک کوئی حد نظر نہیں آرہی۔
اسرائیل نے جب حماس کے حملوں کا جواب دینا شروع کیا اس کے بعد صرف بیرونی دنیا ہی نہیں بلکہ عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کی طرف سے جوابی اسرائیلی کارروائیوں پر صرف رسمی رد عمل دیکھنے میں آیا۔ جیسے جیسے اسرائیلی حملوں میں شدت اور غزہ کے فلسطینیوں کے جانی و مالی نقصان میں اضافہ ہوا ویسے ویسے عرب ملکوں اور دیگر دنیا کی طرف سے ان حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا گیا۔ غزہ کے فلسطینیوں پر اسرائیل کے جاری حملوں کا دائرہ لبنان اور ایران تک وسیع ہونے کا خطرہ بھانپ کر دنیا بھر کے سرکردہ امن پسند لوگوں نے اسرائیلی حملوں کی فوری بندش کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں ۔ دنیا کا ہر انسان دوست ، اسرائیل کے غزہ پر حملوں کا فوری خاتمہ چاہتا ہے۔ اگر چہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کو روکنے کی کوششوں کے فوری کامیاب ہونے کا امکان موجود ہے مگر اس امکان کے باوجود بھی یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ غزہ کے فلسطینی بچے کوئی جرم نہ کرنی کے باوجود جو سزا اور مسلسل عذاب بھگت رہے ہیں اس میں کوئی کمی آئے گی۔ یہ تو ممکن ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اصرار پر اسرائیل ، غزہ پر جاری حملے بند کر دے مگر کیا کہیں سے یہ ضمانت مل سکتی ہے کہ حماس آئندہ اسرائیل پر ایسا کوئی حملہ نہیں کرے جو اس نے 7اکتوبر کو کیا۔ ایسی کوئی ضمانت ملنے کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ فلسطینی بچوں کے ذہنوں سے خود پر کسی بھی وقت نازل ہونے والی امکانی موت کا احساس محو ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button