Columnمحمد مبشر انوار

لب بام

محمد مبشر انوار( ریاض)
انسان کسی مقصد کے لئے سربکف ہو تو راستے کی مشکلات اسے کبھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی،ایک کے بعد ایک مشکل ا س کے سامنے دکھائی دیتی ہے ،جس سے نبردآزما وہ اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔عام زندگی گزارنے والے اپنے انفرادی مقاصد کے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں،زندگی کے تھپیڑوں کا سامنا کرتے ،مشکلات سے لڑتے بھڑتے،کسی نہ کسی طور جزوی کامیابی کے ساتھ زندگی گذار لیتے ہیں تاہم اطمینان کسی کے بھی نصیب میں نہیں ہوتا۔اس کی سادہ سی وجہ اتنی سی ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا تو دوسری طرف خوب سے خوب تر کی تلاش اور جذبہ اسے مسلسل سعی مسلسل میں رکھتا ہے۔تاہم کرہ ارض پر بڑے مقاصد کے ساتھ زندگی گزارنے والی شخصیات،عوام الناس کے دل و دماغ پر اثر کرنے والے لوگ،جن کے مقاصد اپنی ذات سے کہیں زیادہ،خلق خدا کے لئے ہوتے ہیں،ان کے امتحان،آزمائشیں اور مشکلات بھی اسی طرح بہت بڑی ہوتی ہیں۔ یہاں انبیاء کرام علیہ السلام ،اولیاء کرام یا بزرگان دین شخصیات کے متعلق کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی شخصیات کو رب کریم کی طرف سے مبعوث فرمایا جاتا ہے، گو کہ دیگر امور بھی رب کریم کی طرف سے ہی مبعوث ہوتے ہیں،لیکن دوسری شخصیات کے طرز زندگی اور ان متقی شخصیات کی ذاتی زندگی میں زمین آسمان کا فرق رہتا ہے،جسے کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ان خصوصی شخصیات کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ان کامقصد انتہائی واضح اور ان کا طرز عمل انتہائی مختلف دکھائی دیتا ہے کہ یہ خلق خدا کو سیدھے راستے کی تبلیغ و نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں، احکامات الٰہی بتاتے اور اس ان پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خلق خدا ان شخصیات سے رہنمائی حاصل کرتی ہے،ان سے عقیدت رکھتی ہے،ان سے دلی محبت کرتی ہے اور یہ محبت و عقیدت رہتی دنیا تک ان کے دلوں میں قائم و دائم رہتی ہے، صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان شخصیات کی روحانیت کا احترام قائم رہتا ہے تو دوسری طرف یہ شخصیات اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے حکم کی تعمیل میں اپنے اہداف بخوبی حاصل کر کے اس دنیا سے پردہ فرما جاتے ہیں۔اس حوالے سے ان شخصیات کی زندگی مطمئن رہتی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ذمہ جو کام لگایا گیا تھا،اس کی تکمیل سے قبل ان کی ذمہ داری کسی دوسری شخصیت کوتفویض نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ شخصیات خود کو کسی بھی حوالے سے ناگزیر سمجھتی ہیں،اس لئے وقت آنے پر برضا و رغبت اپنے اصل کی جانب لوٹ جاتی ہیں۔
دنیاوی حوالے سے بڑے قد کاٹھ کی شخصیات کا مخمصہ قدرے مختلف ہوتا ہے،گو کہ انہیں بھی رب العزت ہی کی جانب سے منتخب کیا جاتا ہے لیکن ان کا دائرہ کار مختلف اور ان کی تربیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ ان میں یہ زعم برقرار رہتا ہے کہ جیسے وہ وقت کی طنابوں کو قابو کرنے کے لئی ناگزیر ہیں اور ان کے بغیر نظام کائنات چل ہی نہیں سکتا۔ یہی وہ مخصوص پس منظر ہے کہ جہاں طاقت کے حصول کے ساتھ ،انسانی مزاج میں فرعونیت در آتی ہے ،مخلص اور مشکل وقت کے ساتھی برے لگنے لگتے ہیں،خوشامد پرستوں کا گھیرا اور وہ بھی ایسے گھاگ اور تجربہ کار کہ کسی بھی شخص کو آسانی سے اپنے شیشہ میںاتارنے کا فن بخوبی جانتے ہوں،وسوسے پیدا کرنے،بین السطور دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ سہولت کاروں/طاقتوروں کے پیغامات ملفوف انداز میں پہنچا کر اپنے اور آقائوں کے مقاصد حاصل کرنے کے فن میں یکتا،کسی بھی صاحب اقتدار کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں۔بدقسمتی دیکھئے کہ صاحب اقتدار کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اسے جس سمت دھکیلا جاناہو،وہ اقتدار چھن جانے کے خوف سے اس جانب مڑ جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ انکار کردے تو نتائج پاکستان کے حالیہ سیاسی موسم کی طرح سامنے آ جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں یہ کہانی مسلسل دہرائی جا رہی ہے اور کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے جس کی وجہ صرف اور صرف اتنی سی ہے کہ طاقتوروں نے اس سیاسی بساط پر اپنے مہرے یوں ترتیب دے رکھے ہیں کہ جب او ر جہاں چاہیں،انہیں کامیابی سے استعمال کرنے پر قادر ہیں۔ اب یہ پیادے،کیوں اتنی آسانی سے استعمال ہوجاتے ہیں،اس کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت باقی نہیں کہ پاکستانی سیاست میں موقع پرست ہیوی ویٹس کی تعداد اس قدر بڑھائی جا چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔جو سیاسی جماعت اپنے قدموں پر ،اپنے سیاسی نظریات پر کھڑی ہوتی ہے،اس میں ایسی نقب لگائی جاتی ہے کہ ہدایات پر عمل نہ کرنے کے باعث اس سیاسی شخصیت کو نہ صرف منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے بلکہ اس کی جماعت کے حصے بخرے بھی کر دئیے جاتے ہیں۔اس ضمن میں نواز شریف قدرے خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں ،اب اسے ان کی خوش قسمتی سے تعبیر کیا جائے،ان کی سیاسی مصلحت کوشی کہا جائے یا ان کی بزدلی سمجھا جائے،لیکن یہ حقیقت ہے کہ نوازشریف اور ان کی جماعت اس شکست و ریخت سے قدرے محفوظ رہی ہے تاہم ق لیگ بنتے وقت بہت سے ن لیگی چھوڑ گئے تھے،جو بعد ازاں واپس آ گئے۔شیخ مجیب الرحمان،ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو پاکستانی سیاست کے ایسے کردار تاریخ میں لکھے جائیں گے جنہوں نے بہرکیف طاقتوروں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیااور اس کی قیمت ادا کی۔بے نظیر بھٹو البتہ اقتدار کے لئے چند سمجھوتے ضرور کئے لیکن مجموعی طور پر ان کا سیاسی سفر طاقتوروں کی شتر بے مہار طاقت کے خلاف ہی تصور کیا جاتاہے۔
تحریک انصاف کا اکلوتا دور حکومت تو ختم ہو چکا ہے لیکن ایک طرف اس متعفن وگھٹن زدہ نظام کو مزید ننگا کر گیا ہے گو کہ اپنے دور اقتدار میں ایک عام شہری کو بظاہر یوں ہی محسوس ہوتا رہا کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور شہریوں کی زندگی مزید دوبھر کی ۔اس پس منظر میں ،اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف رجیم چینج انتہائی کامیاب تصور ہونا چاہئے تھا کہ عوام میں اس کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر رہ چکی تھی،اس کے قد آور رہنماؤں کے لئے عوام میں منہ دکھانا بھی ممکن نہیں رہا تھا لیکن ہوا اس کے برعکس کہ طاقتوروں نے اقتدار اس متبادل سیاسی قوت کو سونپا جس کو کل تک خود لوٹ مار کرنے والے گردانتے رہے تھے۔یہی وہ مقام تھا کہ جہاں پاکستانی عوام جوق درجوق اس فیصلے کے خلاف باہر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ،تحریک انصاف کی مقبولیت ہر گزرتے دن کے ساتھ آسمانوں کو چھونے لگی،جو ہنوز جاری ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے قائد کے خلاف قانونی کارروائیوں کے انبار لگانے کا مقصد صرف اور صرف اتنا تھا کہ اسے جھکایا جا سکے،توڑا جا سکے،اس کے ساتھیوں کو اس سے الگ کیا جا سکے،اس مقبولیت کو زمین بوس کیا جا سکے اور اپنی مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کئے جا سکیں۔عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد ن لیگ کی حکومت نے اپنی پرانی روش برقرار رکھی اور جیسے بے نظیر بھٹو و آصف علی زرداری بر مقدمات کی بھرمار کی تھی،بعینہ اسی طرح عمران خان پر بھی مقدمات کی بھرمار کررکھی ہے،کہ ن لیگ جانتی ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف ،ان کے سیاسی مخالف کے لئے کس قدر پیچیدہ و الجھا ہوا ہو سکتا ہے،کیسے سیاسی مخالف کو اس جالے میں پھنسایا جا سکتا ہے،جو وہ پھنسا چکے ہیں۔ان تمام حربوں کے باوجود عمران خان آج بھی اپنے موقف پر کھڑا ہے اور اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ صاف شفاف انتخابات کرائے جائیں دوسری طرف اسے توڑنے میں ناکامی پر عدالتی کارروائیوں میں تیزی آتی جا رہی ہے اور بقول حفیظ اللہ نیازی اگر عمران خان نے سر نہیں جھکایا تو اسے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی پر چڑھا دیا جائی گا،خواہ بعد میں بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے سر عام دہائی دیں کہ انہیں بھٹو کو پھانسی دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔اقتدار و اختیار کے اس سارے گندے کھیل میں نقصان سراسر ریاست پاکستان کا ہو رہا ہے کہ جب عوامی سوچ /رائے اس ملک کےسٹیٹس کو کے خلاف اکٹھی ہوتی،یہ گمان تقویت پکڑنے لگتا ہے کہ اب منزل قریب ہے اور بس ریاست پاکستان اپنی گم گشتہ راہ پر چلنے والی ہے،یہ خواب اس وقت اس قوم سے چھن جاتا ہے جب محسوس ہوتا ہے کہ بس دوچار ہاتھ لب بام ہے،اس وقت بھی منظر بدقسمتی سے اسی کی عکاسی کر رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button