Column

’’ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان عالمی احتجاج امن کا مطالبہ کرتا ہے‘‘

خواجہ عابد حسین
یہ ایک اہم عالمی احتجاج کے بارے میں ہے، جس کا عنوان ہے ’’ حماس نہیں حماس!‘‘ جہاں ہزاروں اسرائیلی اور فلسطینی مظاہرین دنیا بھر میں سڑکوں پر نکل آئے اور غزہ کی پٹی کی سرحد پر اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF)کے جمع ہونے پر تنازع کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ فراہم کردہ معلومات پر مبنی ایک تفصیلی کالم یہ ہے: عنوان: ’’ حماس نہیں حماس! بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان عالمی احتجاج امن کا مطالبہ کرتا ہے‘‘ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں، دنیا کے مختلف گوشوں سے ہزاروں افراد یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تاکہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا سکے۔ اس عالمی مظاہرے، جسے ’’ حماس نہیں حماس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، امن اور اتحاد کا ایک طاقتور پیغام بھیجا، جو ان لوگوں کی امنگوں کی عکاسی کرتا ہے جو خطے میں تشدد اور مصائب کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔ امن کی عالمی کال ہزاروں افراد یورپ، امریکہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا سمیت مختلف براعظموں میں سڑکوں پر نکل آئے۔ نمایاں مظاہروں میں سے ایک زبردست فلسطینی حامی ریلی تھی جو ایمسٹرڈیم کے قلب میں پھیل گئی۔ اس مظاہرے کا وقت خاصا اہم تھا، کیونکہ اسرائیلی افواج حماس کے عسکریت پسندوں کے ایک بے مثال حملے کے جواب میں غزہ کی پٹی پر ممکنہ حملے کی تیاری کر رہی تھیں۔ ایمسٹرڈیم میں یکجہتی ایمسٹرڈیم میں مظاہرین نے مرکزی چوک کو فلسطینی جھنڈوں اور پلے کارڈز کے سمندر میں تبدیل کر دیا جس پر ’’ آزاد فلسطین‘‘،’’ جنگ بند کرو‘‘ اور ’’ غزہ پر حملہ بند کرو‘‘ جیسے طاقتور پیغامات درج تھے۔ اتحاد کی یہ علامتیں مظاہرین کے ساتھ گونج رہی تھیں، جن کا مقصد جاری تنازعہ کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا تھا۔ مخلوط احساسات اور امن کی امیدیں کینیڈا سے تعلق رکھنے والے 63سالہ ریٹائرڈ سیاح جیمز کیسی نے صورتحال کے بارے میں اپنے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے حالیہ واقعات پر دکھ کا اظہار کیا لیکن فلسطینی عوام کے لیے اپنی حمایت کا بھی اظہار کیا۔ کیسی نے، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، امن کی فوری ضرورت پر زور دیا اور ایک ایسے حل کی طرف راستہ اختیار کیا جو تشدد اور مصائب کے چکر کو ختم کرے۔ بڑھتا ہوا تشدد ان عالمی مظاہروں کا تناظر اسرائیل اور حماس کے درمیان تشدد میں حالیہ اضافہ ہے۔ حماس کے عسکریت پسندوں کے ایک غیر معمولی حملے کے بعد آٹھ دنوں میں، اسرائیل نے غزہ میں ایک تباہ کن بمباری کی مہم کے ساتھ جواب دیا، جس کے نتیجے میں ایک المناک جانی نقصان ہوا۔ جیسا کہ اسرائیل ممکنہ زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے، اس نے فلسطینیوں کے لیے انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ شمالی غزہ کے علاقے سے نکل جائیں، جس کا مقصد اسلام پسند عسکریت پسند گروپ کو ختم کرنا ہے۔روٹ میں تبدیلی یہ بات قابل غور ہے کہ ایمسٹرڈیم مارچ کا ابتدائی راستہ شہر کے پرانے یہودی کوارٹر میں ختم ہونے کا منصوبہ تھا، لیکن ممکنہ تصادم کو روکنے کے لیے اسے ہفتے کے دوران تبدیل کر دیا گیا۔ معاملے کی حساس نوعیت کے باوجود، مارچ کا آغاز پرامن طریقے سے ہوا، جس میں پولیس کی کافی موجودگی سیکورٹی کو یقینی بناتی تھی۔ عالمی یکجہتی ’’ حماس نہیں حماس‘‘ کے احتجاج صرف ایمسٹرڈیم یا ہالینڈ تک محدود نہیں تھے بلکہ فلسطینیوں کی حمایت میں برطانیہ بھر میں دسیوں ہزار ریلیوں تک پھیل گئے تھے۔ یہ مظاہرے، زیادہ تر حصے کے لیے، پرامن طریقے سے ہوئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے نمایاں موجودگی فراہم کی۔ ’’ حماس نہیں حماس‘‘ تحریک اسرائیل، فلسطین تنازع کے پرامن حل کی عالمی خواہش کی مثال دیتی ہے، اس بات پر زور دیتی ہے کہ بات چیت اور افہام و تفہیم کو تشدد اور جھگڑے پر غالب آنا چاہیے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا امن کی یہ کالیں زمین پر بامعنی تبدیلی کا باعث بنیں گی، لیکن یکجہتی کے لیے مارچ کرنے والوں کی آوازیں زیادہ پرامن دنیا کے لیے انسانی تڑپ کی طاقتور یاد دہانی کا کام کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button