Columnمحمد مبشر انوار

وقت بدلے گا !!!

محمد مبشر انوار( ریاض)
تا دم تحریر غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور چشم فلک ایک طرف کئی دہائیوں کی طرح آج بھی اسرائیلی بربریت کا نظارہ کر رہی ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں کی بے بسی و مجبوری و لاچاری کو بھی محفوظ کئے جار ہی ہے لیکن کیا اس درندگی کے جواب میں فلسطینیوں کے لئے کوئی آسائش،کوئی نرمی،کوئی سکون یا کوئی راحت دکھائی دیتا ہے؟قرآن تو واضح الفاظ میںاللہ رب العزت کے وعدے کا اظہار کرتا ہے کہ ہر دکھ کے بعد سکھ بھی ہے اور ہر تکلیف کے بعد راحت بھی ہے لیکن اس کی جو شرائط اللہ رب العزت نی طے کر رکھی ہیں کیا فلسطینی ان شرائط پر پورا نہیں اتر رہے یا سقم کہاں ہے کہ بربریت کی طویل رات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی؟20لاکھ آبادی والے غزہ میں ،اجتماعی قبورمیں ہزاروں شہداء کو سپرد خاک کیا جا رہا ہے،بچوں ،بوڑھوں،عورتوں ،مریضوں کی لاشیں روز گر رہی ہے اور ہرصبح یہ مجبور و بے کس فلسطینی اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے از سر نو یہودی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے سینہ سپر نظر آتے ہیں۔دوسری طرف مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی یا تھوڑا سا زیادہ ہونے کے باوجود،اپنے جسم کی اس تکلیف پر سوائے مذمتی بیانات جاری کرنے کے ،عالمی طاقتوں سے جنگ بندی رکوانے کے مطالبوں کے علاوہ کیا کر رہے ہیں؟اقوام عالم پر حکمرانی کرنے والے نصاری کا رویہ اس قدر جانبدارانہ و جارحانہ ہے کہ وہ سب اسرائیلی یہودیوں کی بربریت ،ظلم و ستم کے باوجود انہیں مظلوم گردانتے ہیںاور فلسطینیوں کو ظالم قرار دیتے نہیں تھکتے،فلسطینیوں کے ظلم کے خلاف اسرائیل کی ہر ممکن مدد کرنے کے علاوہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر فلسطینیوں کی زبان بندی کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔اسرائیل ،ایک چھوٹی سی غاصب و ناجائز ریاست، جس نے مشرق وسطی کا امن داؤ پر لگا رکھا ہے جبکہ اس راکھ میں سلگنے والی چنگاریوں کے باعث خدشات ہیں کہ اس سے اگلنے والے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں لیکن اس کے باوجودامن و انصاف کے خود ساختہ ٹھیکیدار،اس خطے میں امن و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے سے کتراتے نظر آتے ہیں۔
آفرین ہے فلسطینی نہتے مجاہدوں پر کہ دہائیوں سے اپنے اصولی موقف پر ڈٹے ہیں اور اپنے زور بازو پر اسرائیلی بربریت کا دلیری و بہادری سے سامنا کررہے ہیں۔کبھی کبھار ،کہیں سے ان نہتوں کو کچھ مدد یوں مل جاتی ہے کہ اگر اسرائیل اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ہمسایہ ممالک میں چھیڑ خوانی کرے،تو وہاں موجود عسکری تنظیمیں،اسرائیل کو نانی یاد دلا دیتی ہیں،اس کی فوج کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتی ہیںاور اسرائیل روتا دھوتا واپس اپنی سرحدوں میں سمٹ جاتا ہے ۔ البتہ جوابا غزہ میں محصور فلسطینیوں پر زندگی اجیرن کر دیتا ہے،غزہ میں موجود مسلمانوں پر بے تحاشہ آتش و آہن، گولہ و بارود برسا کراس خود ساختہ ہولو کاسٹ کی یاد تازہ کرتا ہے،جس کی دہائی یہودی آج تک دیتے آ رہے ہیں لیکن اس پر تحقیق و تفتیش کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں اور نہ ہی اس پر بولنے یا لکھنے کی کسی کو اجازت ہے۔ جرمنی میں ہونے والی اس واردات کو اس قدر مقدس گردانا جاتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی شخص کو اس پر بات کرنے کی اجازت دینے سے منکر یہ منافق،آزادی اظہار رائے کی آڑ میں سرکاردوعالم،آقائے دو جہاں محمد مصطفیؐ کی ذات اقدس پر ہر طرح کی بات کرنے کی اجازت چاہتے ہیں اور دانستہ اس ذاتؐ کو زیر بحث لا کر مسلمانوں کی جذبات انگیخت کرتے ہیں۔افسوس تو اس امر پر ہوتاہے کہ اسرائیل کی حمایت میں سب مغربی ممالک کھل کر سامنے آ جاتے ہیں اور انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نظرنہیں آتا جبکہ غزہ میں محصور مسلمانوں کی اخلاقی مدد کرنے کے علاوہ کسی بھی مسلمان ملک کو ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی اجازت نہیں وگرنہ ’’ دہشت گردی‘‘ کا لیبل ہاتھ میں پکڑے،یہی مغربی ممالک لٹھ لے کر اس مسلمان ملک پر چڑھ دوڑتی ہیں۔غزہ کے نہتے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف،باقی دنیا کے مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے مجبور بھائیوں کو یہودیوں کے ظلم و ستم سے بچا سکیں،حالانکہ اگر عسکری لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو حقائق انتہائی تلخ ہیں کہ بیشتر اسلامی ممالک کی فوجی صلاحیت ایسی ہے کہ صرف ایک ملک ہی اسرائیل کے ظلم وستم ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔دوسری طرف ایسی کسی بھی جارحیت کو روکنے کے لئے اسرائیل نے ایسے جوڑ توڑ کررکھے ہیں کہ کسی بھی مسلمان ملک کے لئے یہ ممکن ہی نظر نہیں آتا کہ براہ راست اس جنگ میں کود سکے،کہ یہودی ریاست اسرائیل،خود کو ایک اقلیت کے طورپر پیش کرکے ،مغربی حمایت حاصل کر چکی ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہودی دنیا میںایک اقلیت تو ضرور ہیں لیکن ان کے پنجہ استبداد سے اس وقت امریکہ و مغرب قطعی محفوظ نہیں اور تمام تر اقدامات ان کے اشارہ ابرو سے طے کئے جاتے ہیں۔حالات یہ ہیں کہ غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی ہونے کے باوجود،یہ عالمی طاقتیں ،صم بکم کی تصویر بنی،امدادی سامان تک ان محصورین کو پہنچانے میں کامیاب نہیں اور انسانی حقوق کے دعوے وہاں کئے جاتے ہیں کہ جہاں عوام الناس قدرے بہتر حالت میں ہیں ۔ چونکہ انہیں وہ مادر پدر آزادی میسر نہیں ،جس کا مطالبہ ان طاقتوروں کو صرف اس لئے ہے کہ ان مسلم معاشروں میں اختلاط کو عام کر کے ،معاشرے کو تہس نہس کیا جا سکے،یہاں اپنی رسم و رواج نافذ کروائے جاسکیں،بے راہروی کو فروغ دے کر،رہے سہے اسلامی شعائر کو عملا ختم کروایا جا سکے۔غزہ میں بے شک ،اسرائیلی جبر کے باعث،انسانوں کو خورام نہ ملے،پینے کے لئے صاف پانی میسر نہ ہو،ہسپتالوںو ایمبولینسز پر جنگی قوانین کے برعکس کھلم کھلا بمباری ہوتی رہے،نہتے شہریوں پر میزائل برستے رہیں،ان عالمی طاقتوں کو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر حماس جوابی کارروائی میں اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل کرے،تو یہ مسلمانوں کی دہشت گردی ہے۔
اس پس منظر میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگلی کئی صدیوں تک منظر نامہ ایسے ہی رہی گا کہ یہی صیاد کی خواہش و مرضی ہے لیکن قانون قدرت اس سے مختلف ہے اور مظلوم تادیر مظلوم نہیں رہ سکتا۔اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی ناانصافی حد سے گزرتی دکھائی دے رہی ہے ،جس سے قدرت کسی بھی صورت خاموش نہیں رہ سکتی اور اللہ رب العزت کی ذات جو قادر مطلق ہے،ایسے اسباب پیدا کرنے پر قادر ہے کہ معاملات بدل جاتے ہیں۔یہی صورتحال اس وقت غزہ میں نظر آ رہی ہے کہ ایک طرف مسلمان ہیں جو اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن عالمی طاقتوں کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے تاہم اس وقت چند ایسی تنظیمیں ضرور موجود ہیں جو اسرائیلی جبر کے ہاتھ روکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ان تنظیموں کی ساخت،کردار ساری دنیا کے سامنے ہے کہ ان تنظیموں کو براہ راست کسی بھی ریاست کی سرپرستی حاصل نہیں اور نہ یہ کسی اسلامی اتحاد جیسی فوج سے تعلق رکھتے ہیں کہ سرکاری قواعدوضوابط کے تحت بروئے کار آئیں،ان کی بروئے کار آنے کا اپنا نظام ہے اور اس کے لئے ممکن ہیں کہ یہ انتظار کی بجائے حالات ایسے پیدا کر لیں کہ اس جنگ میں کود جائیں۔دوسری طرف ایران کی جانب سے مسلسل تنبیہات کی جارہی ہیں کہ غزہ میں ہونے والے غیر انسانی سلوک و مظالم کو روکا جائے وگرنہ ایران اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لئے مجبور ہو گا۔ ایران کے میدان میں اترنے سے ترکی کے لئے خود کو روکنا نا ممکن ہو جائے گااور مشرق وسطی کی صورتحال یکلخت بدل جائے گی اور چنگاریاں بڑے شعلوں میں بدل جائیں گی البتہ پاکستان ،جو کبھی عالم اسلام کا قلعہ کہلواتا تھا، آج کل رجیم چینج کے بعدفقط مروتا ہی بیان دے رہا ہے،عملا اس کی حیثیت عالمی سیاست میں بالعموم اور مسلم ممالک میں بالخصوص نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اس صورتحال میں امریکہ و مغربی اقوام بھی پیچھے نہیں رہیں گے، ان کے میدان میں اترنے سے، روس و چین کے لئے خاموش رہنا ممکن نہیں رہے گا، فلسطینی مجاہدوں کی جہد مسلسل حالات کو اس نہج تک لے آئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں وقت بدلے گا اور فلسطینیوں کی آزادی ممکن ہو سکے گی!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button