ColumnImtiaz Aasi

آزمودہ را آزمودن خطاست

امتیاز عاصی
سانحہ نو مئی سے بین الاقوامی طور پر ملک کی جگ ہنسائی نے قومی سطح پر پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سیاست کی پرخار وادی میں سیاسی رہنمائوں کی گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر دور میں سیاست دانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع کریں تو سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کرنے کے بعد دلائی کیمپوں میں بھیجا گیا۔ بھٹو نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ختم کی تو صوبے میں مزاحمت کی تحریک کا آغاز ہو گیا۔ ولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل ، افراسیاب خٹک اور اجمل خٹک ایسے رہنمائوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، ان کے خلاف حیدرآباد ٹریبونل قائم ہو گیا۔ بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کچلنے کے لئے فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ ولی خان کی پارٹی پر پابندی لگانے کے لئے بھٹو نے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا جس میں ولی خان کی لندن میں ہونے والی پریس کانفرنس کو بنیاد بنایا گیا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ولی خان کی جماعت پر پابندی عائد کر دی۔ اس سے پہلے اے این پی نے راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسہ کیا تو جلسہ کے شرکاء پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں کئی لوگ مارے گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ ولی خان تو دنیا میں نہیں رہے ان کی جماعت اب بھی ملکی سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ ولی خان کی پارٹی وفاق میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کی حکومت میں شریک اقتدار رہ چکی ہے۔مشرقی پاکستان میں کیا ہوا بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے جیل میں ڈالا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو بھٹو دور کے گرفتار تمام سیاست دانوں کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ ایک سیاست دان کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنا دوپٹہ ضیاء الحق کے قدموں میں ڈا ل دیا جس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے حیدر آباد ٹریبونل میں گرفتار تمام سیاسی رہنمائوں کو رہا کر دیا۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد سے جو صورت حال پیدا ہوئی وہ ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ مہذب معاشروں میں کسی حکمران کے خلاف عدم اعتماد ہو وہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے عمران خان نے ایک نجی چینل پر کہا تھا اسے گرفتار کیا گیا تو سخت ردعمل آئے گا پھر چشم فلک نے نو مئی کو دیکھا لیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد زمان پارک میں پارٹی رہنمائوں اور ورکرز کی شبانہ روز نقل و حرکت سے یہی تاثر ملتا تھا کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ اقتدار تو آنے جانے والی چیز ہے عمران خان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی جن قوتوں نے اسے اقتدار دلایا تھا انہی قوتوں کی ایماء پر انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا تو کون سی قیامت آگئی تھی۔ سانحہ نو مئی کے بعد عمران خان کے مخالفین کو اس کے خلاف لب کشائی کا ایک اچھا موقع میسر آگیا۔ سانحہ نو مئی سے قبل وزیر آباد کے واقعہ سے انہیں محتاط ہو جانا چاہیے تھا کہ ماحول ان کے لئے سازگار نہیں ہے۔ جن اداروں کے بل بوتے پر سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں انہی کے خلاف محاذ آرائی کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا ہے۔ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہونے کے بعد دفاعی پوزیشن میں چلا گیا۔ یہ اور بات ہے ان کی جماعت نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا البتہ عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کی بعد چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کی امید باندھے ہوئے ہے۔ آخر اس میں کون سی خوبی ہے جو عمران خان میں نہیں ہے۔ عمران خان آکسفورڈ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے کرکٹ کے میدان میں اس نے نام کمایا۔ سیاست کے اکھاڑے میں اترا تو سب کو پیچھے چھوڑ گیا تاہم سیاسی میدان میں ناتجربہ کاری نے اسے مات دے دی۔ ستم ظرفی دیکھئے اس کے ساتھ رہنے والے بعض طالع آزمائوں نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ محب وطن اور عوام سے والہانہ لگائو رکھنے کے باوجود لوگوں کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جے آئی ٹی یا کسی ادارے سے نو مئی کے سانحہ کی تحقیقات پر ہم معترض نہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا راست باز ججوں کا ایک آزاد کمیشن قائم کر دیا جاتا تو کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملتا۔ عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ پی ٹی آئی کے جن جن رہنمائوں نے پریس کانفرنس کی وہ ہماری سیاسی تاریخ کا انوکھا باب ہے۔ آپ کسی سے کوئی بات کہلوا سکتے ہیں دلوں کو نہیں موڑا جا سکتا۔ جیسا کہ خبروں میں آرہا ہے پی ٹی آئی نے وکلاء حضرات کو پارٹی ٹکٹ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر وکلاء میں سے ہوں گے وکلاء پریس کانفرنس نہیں کریں گے۔ ہمارا ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ۔ غریب عوام اپنی جگہ مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں، بے روزگار ی کا یہ عالم ہے لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں پی ٹی آئی کے جو رہنما جیلوں سے باہر ہیں انہیں کھل پر سیاست کرانے کا موقع ملنا چاہیی۔ جیسا کہ مسلم لیگ نون کو جلسوں کی اجازت ہے پی ٹی آئی والوں کو جلسہ کرانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ چند روز پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب سے منسوب بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملتی تو پھر کسی جماعت کو نہیں ملنی چاہیے۔ کاش ملک میں یکساں سیاسی ماحول قائم ہو جائے تو کسی جماعت کو شکوے کا موقع نہ مل سکے۔ انتخابات تو ایک روز ہونے ہیں جن کے انعقاد بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ گو عمران خان کے انتخابات میں حصہ لینے کے امکانات بہت کم ہیں، عوام میں اس کی مقبولیت میں کسی کو شک نہیں۔ شائد اسی لئے الیکشن کی تاریخ کا معاملہ التواء میں ہے۔ ایماندار نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق عوام پر چھوڑ دینا چاہیے جس کے لئے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد ضروری ہے ۔ بہر کیف آزمائوں کو بار بار آزمانا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button