ColumnRoshan Lal

غزہ: کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں!

روشن لعل
بحیرہ روم کے ساحلی حصہ پر واقع 40کلومیٹر لمبے اور مختلف مقامات پر 6سے 10کلو میٹر چوڑے غزہ کی آبادی 23لاکھ فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ مختصر رقبے پر اتنی زیادہ آبادی کی وجہ سے غزہ کو دنیا کا گنجان ترین علاقہ کہا جاتا ہے۔ غزہ میں آباد 23لاکھ نفوس دنیا کے ایسے بدقسمت لوگ ہیں جن کے سروں پر ہر وقت جنگ کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ یہ لوگ ایسے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کہ جب ان پر جنگ مسلط نہ بھی کی گئی ہو تو اس وقت بھی انہیں دنیا کی سب سے بڑی جیل کے قیدی تصور کیا جاتا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مبینہ جیل کے باسیوں پر آئے روز مسلط کی جانے والی جنگ کے دنوں میں ان کی زندگی کس قدر اذیتوں اور مسائل کا شکار ہو جاتی ہوگی۔ جو اذیتیں ، مشکلات اور عذاب جنگ کی شکل میں غزہ کے فلسطینیوں پر نازل کیا جاتا ہے حسب سابق اس مرتبہ بھی اس کے نزول کی کہانی دنیا بھر کا میڈیا نشر کر رہا ہے۔ اس کہانی کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کی فلسطینیوں کے لیے بنائی گئی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے 9 اکتوبر کی صبح اس پر اچانک ایسا حملہ کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حماس کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل ، غزہ پرمسلسل میزائلوں کی بارش کر رہا ہے۔ حماس نے سینکڑوں راکٹ فائر کرتے ہوئے اسرائیل پر جو اچانک زمینی، فضائی اور بحری حملہ کیا اس کے نتیجے میں اب تک 1200سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ میں کتنے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اس کا درست ڈیٹا تو ابھی تک مرتب نہیں ہو سکا لیکن ہسپتالوں کے ریکارڈ کے مطابق وہاں اب تک 1100 کے قریب لاشیں لائی جاچکی ہیں۔ غزہ کے دو لاکھ کے قریب لوگ اپنے گھروں کے اسرائیلی بمباری کی زد میں ہونے کی وجہ سے وہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق غزہ کے لوگ مکمل طور پر پانی ،بجلی، گیس اور پٹرول سے محروم ہو چکے ہیں۔ غزہ کے یہ حالات دیکھ کر اسرئیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کا وہ بیان سچ ہوتا محسوس ہو رہا ہے جس میں اس نے حماس کے حملے کے فوراً بعد یہ دھمکی دی تھی کہ وہ غزہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دے گا۔
غزہ کے فلسطینیوں کو اس وقت جو کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس کا رنج والم لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ چاہے جتنا بھی المناک ہے ، اسے غیر متوقع ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ غزہ کے فلسطینیوں کا الم، اذیت اور ان پر نازل ہونے والی قیامت اس لیے غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ قبل ازیں حماس نے جب بھی اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا اسرائیل نے کم و بیش اسی طرح جواب دیا جس قسم کا ردعمل اس نے بمباری کر کے اس مرتبہ ظاہر کیا ہے۔ اسرائیل نے2005میں غزہ پر 38برس سے جاری اپنا قبضہ ختم کر کے اسے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیا تھا۔ اس کے بعد حماس نے سب سے پہلے 2006میں ایک اسرائیلی فوجی اغوا کیا اور پھر 2008میں غزہ سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ پھینکنے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حماس نے 2012، 2014، 2018 ، 2021اور 2022میں جب بھی اسرائیل پر راکٹ پھینکے اس کا جواب اسرائیل نے تقریباً اسی طرح دیا جس طرح اب دیا جارہا ہے۔ حماس نے اسرائیل پر جو راکٹ حملے کیے اس سے کچھ اسرائیلیوں کی ہلاکتیں ضرور ہوئیں مگر اسرائیل کے جوابی حملوں سے فلسطینیوں کا جو جانی نقصان ہوا وہ ہمیشہ کہیں زیادہ رہا۔ مثال کے طور پر جولائی 2014 میں حماس نے تین اسرائیلی نوجوانوں کو اغوا کرنے کے بعد قت لکیا، اس کے جواب میں اسرائیل نے مسلسل سات ہفتے غزہ پر جو میزائل برسائے اور حماس نے اسرائیل پر جو راکٹ داغے اس سے اسرائیل کے تو صرف 73لوگ ہلاک ہوئے مگر فلسطینیوں کو اپنے 2100شہیدوں کی جنازے اٹھانا پڑے۔ مسلسل سات ہفتے میزائلوں کی بارش سے غزہ میں رہائش ، تعلیم اور صحت سے وابستہ عمارتوں کو کتنا نقصان پہنچا ہوگا اور وہاں کے باسیوں کو کتنے عرصہ تک پانی، بجلی ، گیس ، پٹرول اور اسرائیل سے آنے والی دیگر ضرورت کی چیزوں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا ہوگا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ قبل ازیں، حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیلی بمباری سے غزہ میں انسانی سہولتوں سے وابستہ تعمیراتی ڈھانچے کو نقصان پہنچتا رہا اس کی تعمیر و مرمت کے لیے امریکہ ، یورپی ممالک اور اقوام متحدہ فنڈز فراہم کرتے رہے۔ توقع تو اب بھی یہی کی جارہی ہے کہ حماس کے حملوں اور اسرائیل کی شدید جوابی کاروائی کے بعد جو کچھ پہلے ہوتا رہا ، حسب سابق اب بھی ویسے ہی ہوگا مگر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حماس کے اپنے بنائے ہوئے ایک سے تین میل تک مار کرنے والے راکٹوں سے اپنے شہریوں کو مستقل محفوظ رکھنے کے لیے اسرائیل پھر سے اسی طرح غزہ پر کنٹرول حاصل کر لے گا جس طرح یہ علاقہ پہلے 38سال تک اس کے قبضے میں رہا۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ اسرائیل کے قیام کیلئے وہاں بسائے گئے 33فیصد یہودیوں کو فلسطینی علاقے کا 55فیصد اور 67فیصد فلسطینی عربوں کو 42فیصد علاقہ دینے کا جو فیصلہ کیا گیا اسے رد کر کے عربوں نے کوئی بلاجواز کام نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد عالمی دھڑے بندیوں کے سبب فلسطینی عرب اپنے قابل جواز موقف کے باوجود ہر محاذ پر شکست دے دوچار ہوتے رہے۔ عرب ملکوں کے اتحاد کو نہ صرف فلسطین کے مسئلہ پر لڑی گئی تمام جنگوں میں شکست ہوئی بلکہ پی ایل او نے اسرائیل کے خلاف جس گوریلا جنگ کا آغاز کیا وہ بھی فلسطینیوں کو اسرائیل کے خاتمے اور آزاد و خودمختار فلسطین کے قیام کے مقصد کے قریب نہ لاسکا۔ اسرائیل کے خلاف بنایا گیا عرب ملکوں کا اتحاد انتہائی غیر موثر ہونے اور پی ایل او کی کارروائیوں کے لیے زمین تنگ ہونے کے بعد ہی یاسر عرفات اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ یاسر عرفات نے تو گوریلا کارروائیاں ختم کر کے فلسطینیوں کے لیے نئے سفر کی سمت استوار کی تھی مگر حماس نے اسرائیل کے خلاف وہی کارروائیاں پھر سے شروع کر دیں جن سے یاسر عرفات اور پی ایل او نے کنارہ کشی اختیار کر چکے گے۔ آج حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل جو کچھ غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا اس پر یہ باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یاسر عرفات جیسے جہاندیدہ شخص نے بادل نخواستہ اسرائیل کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں فلسطینیوں کا فائدہ تھا یا حماس جو کارروائیاں کر رہا ہے ان سے فلسطینیوں کے مفادات کو تحفظ حاصل ہورہا ہے۔ ان باتوں پر غور کرتے ہوئے شاید یہ بات بھی سمجھ میں آجائے کہ صرف اسرائیل کے ہاتھ ہی غزہ کے فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے نہیں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button