ColumnNasir Naqvi

’ پتہ ہی نہیں چلا ‘

ناصر نقوی
آپ امیر ہیں، غریب ہیں، طاقت ور ہیں کہ کمزور، جو طبیعت مانتی ہے کر گزریں۔ کل کیا ہو گا؟ آپ کیا کہہ سکتے ہیں؟ کسی کو نہیں پتہ کر بھی سکیں گے کہ نہیں؟ اسی لیے یہ تاکید موجود ہے کہ آج کا کام کل پر نہیں چھوڑو۔ یعنی بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں، لمحۂ موجود میں جو ہو سکے ضرور کریں۔ البتہ یہ خیال ضرور رکھیں کہ جو بھی کریں اس میں اگر سوچ مثبت اور اجتماعی ہو، تب ہی سکون میسر ہو گا ورنہ سب کچھ کرنے کے بعد پچھتاوا زندگی کا روگ بن جائے گا۔ اس نظریے کے مطابق آپ خود احتسابی کے عمل سے گزرنے کی کوشش کریں تو بہت کچھ سمجھ آ جائے گا لیکن شرط یہی ہے کہ اپنا احتساب بھی اسی جذبے سے کریں جیسے آپ دوسروں کا احتساب چاہتے ہیں ورنہ غلط فہمی اور خوش فہمی کے چکر سے نہیں نکل سکیں گے اور گزرے وقت اور لمحات آپ کو منہ چڑائیں گے تو آپ بھی صرف اتنا ہی کہہ سکیں گے کہ ’ پتہ ہی نہیں چلا‘ حالانکہ یہ بھی طفل تسلی ہی ہو گی ورنہ ہر شخص اپنے بْرے اچھے معاملات سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ ایسے صرف اس لیے وقوع پذیر ہوتا ہے کہ ہر بندہ اپنی حیثیت، منصب، جاہ و جلال میں بھول جاتا ہے کہ اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے؟ آج ہے کل نہیں، یہی نظام قدرت ہے پھر بھی دھوکہ دہی کی عادت میں ’’ کل نہیں‘‘ کو تسلیم نہیں کرتے یا کم از کم نفی ضرور کرتے ہیں حالانکہ ہر روز اپنے ہی درمیان سے لوگوں کو نہ صرف اٹھتے دیکھتے ہیں بلکہ اپنے پیاروں، عزیز و اقارب اور دوستوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر شہر خموشاں چھوڑ کر آتے ہیں پھر بھی آدم زادے اللہ کی اس زمین پر اپنی حیثیت، منصب اور جاہ و جلال میں ایسے اکڑ کر چلتے ہیں جیسے اس باپ کی جاگیر کے وہ تاقیامت مالک ہوں جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے کہ باپ کی جاگیر کم ہو کہ زیادہ سب کی سب یہی رہ جاتی ہے اور بندہ خود رخصت ہو جاتا ہے پھر بھی حضرت انسان اپنی گھمنڈ میں دنیا سے کچھ سیکھنے کی بجائے جب تک سانس میں سانس ہوتا ہے دوسروں کو سکھانے کی کوشش میں ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ ان کی رخصتی کے بعد بھی یہی کہانی سنائی جاتی ہے کہ کیا پتہ تھا اتنی جلدی چلا جائے گا۔ اللہ کا دیا کیا نہیں تھا اس کے پاس ، جو چاہتا کر سکتا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی ’’ پتہ ہی نہیں چلا‘‘ کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کائنات کے چھوٹے سے سیارے پر صرف چند سالوں کے لیے آیا ہوا ’’ انسان‘‘ کیسے سمجھ لیتا ہے کہ میں ہی سب کچھ ہوں۔’’ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ تھکاوٹ، بیزاری، مایوسی، صرف کاموں اور دوسروں سے لڑنے اور جدوجہد سے نہیں ہو تی، اکثر ہم خود سے لڑتے لڑتے بھی نہ صرف تھک جاتے بلکہ مایوس اور بیزار بھی ہو جاتے ہیں اور پھر یہ کہنا شروع کرتے ہیں ‘‘ پتہ ہی نہیں چلا، یہ سب کیسے ہو گیا؟ وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا اور نہ ہی ٹھہرتا ہے یہ بالکل اسی طرح نظام قدرت کا تابعدار ہے جیسے ’’ زمین‘‘ اپنے مدار میں گھومتی ہے۔ جس نے اس کی چال بھانپ لی اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے حال اور مستقبل کی منصوبہ بندی کر لی اس کے لیے سب اچھا ہو جاتا ہے اور جو اپنی حیثیت، مال و دولت پر غرور کرتے رہے، انہیں پھر پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کیا ہو گیا اور کیسے ہو گیا، پچھتاوا ان کی زندگی کا روگ بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، میں اور آپ اس بات کے گواہ ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی میں کتنے بادشاہوں کو گداگر اور کتنے فقیروں کو بادشاہ بنتے دیکھا، لیکن ان دونوں تبدیلیوں میں ان شخصیات کا اپنا ہی کیا دھرا ہے پھر بھی دونوں کا خیال یہی ہے کہ ’’ پتہ ہی نہیں چلا‘‘۔۔۔۔۔ مالک کائنات نے عقل سلیم کا تحفہ عطا کر کے ہمیں اشرف المخلوقات بنا دیا اب ہمارے اکثر لوگ اسی بات پر اتراتے ہیں اور اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو استعمال ہی نہیں کرتے۔ تاہم مایوسی گناہ ہے اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اب وقت اور پتہ ہی نہیں چلا کی تکرار ملاحظہ کریں، یقینا اسے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے کارگر نسخہ پائیں گے۔۔۔۔۔۔ یہ تحریر کس کی ہے ، مجھے علم نہیں لیکن اسے صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے آپ کی نذر کر رہا ہوں:
وقت چلا، لیکن کیسے چلا
پتہ ہی نہیں چلا
زندگی کی آپا دھاپی میں
کب نکلی عمر ہماری، یارو
پتہ ہی نہیں چلا
کندھے پر چڑھنے والے بچے
کب کندھے تک آ گئے
پتہ ہی نہیں چلا
سائیکل کے پیڈل مارتے
ہانپتے تھے ہم اس وقت
کب سے ہم، کاروں میں آ گئے
پتہ ہی نہیں چلا
کبھی تھے ہم ذمہ دار، ماں باپ کے
کب، بچوں کے لیے ہوئے ذمہ دار
پتہ ہی نہیں چلا
اک دور تھا، جب دن میں
بے خبر سو جاتے تھے
کب راتوں کی، اْڑ گئی نیند
پتہ ہی نہیں چلا
جن کالے گھنے بالوں پر
اتراتے تھے کبھی ہم
کب گرنا شروع ہو گئے
پتہ ہی نہیں چلا
اب سوچ رہے تھے
اپنے لیے بھی، کچھ کریں
پھر جسم نے، ساتھ دینا، بند کر دیا کب
پتہ ہی نہیں چلا
وقت چلا، پر کیسے چلا؟
پتہ ہی نہیں چلا
سوچئے، ایک روز جان و جہاں کے مالک کے دربار میں جانا ہے کلمہ گو کا یہ ایمان ہے جزا و سزا کا دن لازمی آئے گا لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ واپس پہنچیں تو کہنا پڑ جائے کہ اے اللہ تو رحمان و رحیم ہے، معاف کر دے، زندگی اتنی مختصر تھی کہ ’’ پتہ ہی نہیں چلا‘‘ کب ختم ہو گئی۔ لمحہ، موجود ہمارے اور آپ کے پاس موجود ہے جو کچھ کر سکتے ہیں کر گزیں، یہ نہ ہو کہ یہ لمحات بھی بیت جائیں، بات تو بالکل درست ، ابھی اپنا اپنا احتساب کیا جا سکتا ہے ورنہ وقت گزر گیا تو پھر روح کی پرواز کے بعد تو جانے والا ہاتھ بھی نہیں مل سکتا؟۔
ہم عجیب لوگ ہیں انفرادی اور اجتماعی ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں جس طرح اپنی زندگی سے لاپرواہ ہیں بالکل اسی طرح اجتماعی مفادات کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ 76سال گزر گئے ملک کو بنے ہوئے پھر بھی سیاستدان ہوں کہ حکمران، بیانیہ دونوں جانب سے یہی ہے کہ اب تک کیا کچھ ہوا اور مستقبل میں کیا کچھ ہو سکتا ہے کسی کو ’’پتہ ہی نہیں چلا‘‘ ۔۔۔۔۔ 76سالوں میں مارشل لاء لگے، آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ دیا گیا، وقفے وقفے سے جمہوریت کا تڑکا بھی لگا۔ سیاسی اور ملکی سطح پر بہت سے تجربات کیے گئے اور آج وطن عزیز سنگین بحرانوں میں مبتلا ہو گیا۔ ملک میں تین جمہوری ادوار گزرے، جن میں تین وزرائے اعظم کو بھی گھر بھیجا گیا اس سے پہلے بھی دو مرتبہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اقتدار سے بے دخل کیے گئے پھر بھی پاکستانی سیاست الزامات سے آگے نہیں بڑھی کیونکہ کسی کو ’’ پتہ ہی نہیں چلا‘‘۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے ریاست میں وہ کچھ نہیں ہو سکا جو کچھ ہونا چاہیے تھا وجہ صرف ایک ہی ہے کہ ہم اجتماعی مفادات کی بجائے انفرادی اور گروہی مفاد کے غلام بن کر ’’ ڈیوٹی فل‘‘ ہو چکے ہیں لہٰذا ملک کے سیاسی، آئینی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ سب ذمہ دار ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں لیکن بدترین حالات میں بھی عوام یہی کہتی ہے یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ہم نے تو ہمیشہ اچھے منشور کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی کے ’’ بیانیے‘‘ کو ووٹ دے کر اقتدار سونپا لیکن ہماری وفاداری اور ذمہ داری کے باوجود ہمارے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا ہم نے ہر مرتبہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا پھر بھی نتیجہ ایسا نکلا جس کا ہمیں بالکل ادراک نہ تھا اس لیے کہ ہمیں شاید سیاسی دائو پیچ کا ’’ پتہ ہی نہیں چلا‘‘؟ اب بھی ہم کچھ نہ سمجھیں تو کیا ہو سکتا ہے ۔ کہتے ہیں مشکل وقت میں دوست کی خاموشی دھوکہ دینے کے برابر ہے۔ لہٰذا س طعنے سے بچنے کے لیے میں نے ایک قلم دوست کی حیثیت سے اپنا فرض پورا کر دیا لیکن سبق تو وہی یاد رہتا ہے جو وقت اور لوگ سکھاتے ہیں اور پچھتاوا بھی وقت اور لوگوں کا ہی ہوتا ہے جب انسان کچھ نہیں سیکھتا؟ حقیقت حال یہی ہے کہ کچھ لوگ مفاد کی خاطر اپنے لہجے بدل لیتے ہیں مگر ان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بْرے وقتوں میں آزمائے گئے لوگوں کو پھر سے اپنی زندگیوں میں شامل کر کے خود کو تکلیف اور فریب نہ دیں بلکہ ہم اپنی چالاکیوں اور مفاد میں دھوکے پہ دھوکہ کھانے کے عادی ہو گئے ہیں اور پھر معصومیت سے کہہ دیتے ہیں زمانہ اور وقت ہمارے ساتھ کیا کر گیا ہمیں پتہ ہی نہیں چلا؟ ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے۔۔۔۔۔ پھر بھی بقول احمد ندیم قاسمی:
راستہ نہیں ملتا
منجمد اندھیرا ہے
پھر بھی باوقار انسان
اس یقین پہ زندہ ہے
برف کے پگھلنے میں
پوپھٹنے کا وقفہ ہے
اس کے بعد سورج کو
کون روک سکتا ہے!!!
اسی آس اور امید پر سب اپنی زندگی گزار ر ہے ہیں عقل و دانش کے باوجود انہیں ’’ پتہ ہی نہیں چلا‘‘ کہ زندگی کیسے گزارنی ہے اور اگلی زندگی کے لیے کیا کچھ کرنا ہے کیونکہ زندگی کی رنگینیوں یا مایوسیوں میں ’’ کچھ پتہ ہی نہیں چلا‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button