ColumnNasir Naqvi

کچھ بھی نہیں بدلا؟

ناصر نقوی
پتھر کے زمانے سے آج کے جدید دور تک کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ حضرت انسان کہاں سے چلے اور کہاں تک پہنچ گئے۔ دنیا نے بہت ترقی کی اور انسانیت کے نام پر بھی بہت کچھ کیا گیا جبکہ انسانی حقوق کے اصول پرست دوسروں کے لیے اپنے تمام اصول بھول جاتے ہیں کیونکہ سب کو پہلے اپنے مفادات کی فکر ہے یعنی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے مختلف ہی ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ٹھیکیدار ترقی پذیر اور غریب ممالک کے لیے مختلف پالیسی رکھتے ہیں حالانکہ دنیا کے امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے یکساں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں پوری دنیا معاشی بحران میں مبتلا ہے لیکن ہر ملک اور خطے کی وجوہات میں زمین و آسمان کا فرق ہے پھر بھی ’’ امریکہ بہادر‘‘ اور اس کے اتحادی کمزور اور غریبوں کو اصولوں کے پابند بنا کر اپنا اپنا الو سیدھا کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی ا س راز سے واقف ہے کہ دنیاوی مسائل کا حل کسی بھی صورت جنگ اور لڑائی جھگڑے میں نہیں، ویت نام سے افغانستان تک کے نتائج کسی سے پوشیدہ نہیں پھر بھی یوکرین اور روس آمنے سامنے آ گئے۔ وہاں بھی امریکہ بہادر کی پشت پناہی موجود اس لیے اتحادی بھی برابر کے شریک، اثرات سے صرف خطہ ہی نہیں، پوری دنیا محفوظ نہیں رہ سکی۔ نائن الیون کے حوالے سے زبردستی اسلامی ممالک کی مشقیں باندھی گئیں، لیکن نہ مسلم امہ بول سکی اور نہ ہی اسے بولنے دیا گیا اس سے پہلے ’’ ایران اور عراق‘‘ کو بھی تختہ مشق بنایا گیا تھا۔ جب بھی ایسی گروپ بندی رہی، ایران کو ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، مفادات کے غلام سب ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ وہ ثابت قدم رہے تو اپنے پائوں پر کھڑ ے ہو گئے لیکن عراق، لیبیا، شام، یمن اور مصر کی کسی کو فکر لاحق نہ ہوئی؟ مار کٹائی ، معرکہ آرائی اور مفادات کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ سہولت کاری میں صرف منہ کالا ہوا کسی کو ترقی و خوشحالی کا راستہ نہیں ملا اس لیے کہ امن و سلامتی کے نمبردار اور سامان حرب و ضرب کے ٹھیکیداروں کے ساتھ دوسرے ممالک بھی شامل تھے۔ چھوٹے سے چھوٹے سے اور بڑے سے بڑے پلیٹ فارم پر فیصلہ ہوا کہ جنگ نہیں ، انسان اور انسانیت کے لیے صرف امن، اصول وغیرہ ایک ہی چلے گا، ’’ جیو اور جینے دو‘‘ لیکن جو ذمہ دار ہے انہوں نے ہی محض اپنے مفادات کے لیے دوسروں کو اسی طرح جنگ میں دھکیل دیا جیسے ’’ یوکرین‘‘ دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس بے اصولی اور ناہموار پالیسی نے دنیا میں ’’ دہشت گردی‘‘ کا تحفہ دے دیا۔ اب ترقی یافتہ اور ذمہ دار ممالک ’’ دہشت گردی‘‘ کے ردعمل میں اپنے مفادات کو پروان چڑھاتے ہیں اور غریب کم ترقی یافتہ ممالک کی مشکلات کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو گئیں۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل نے ادھم مچا رکھی ہے ۔ انسانی جانوں اور ان کا خون بہایا جا رہا ہے لیکن کسی کو پرواہ اس لیے نہیں کہ مسلم امہ کے ممالک کی تنظیم او آئی سی درشنی پہلوان سے زیادہ نہیں، اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان ہے لیکن اسے اپنے پرائے ہر قدم پر کسی نہ کسی نئے امتحان میں الجھائے رکھتے ہیں۔67سالہ تاریخ میں ملک ایک تجربہ گاہ بنا ہوا ہے ، ’’ امریکہ بہادر‘‘ کی نوکری اور چاکری ذمہ دار حکمرانوں نے پوری وفاداری سے کی پھر بھی نتائج مثبت اس لیے نہیں نکل سکے کہ ’’ امریکہ بہادر‘‘ نہ صرف مفاد پرست بلکہ ابن الوقت ہے۔ انہیں علم ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اچھے نہیں اور اچھے ہو گئے تو اس کے مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے، وہ خود تو بھارت اور روس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا اس لیے کہ اسے پاکستان دشمنی میں بھارت کو اسلحہ بیچنا تھا۔ آبادی کے لحاظ سے فائدہ اٹھانا تھا لیکن پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا کر بھی ہمیشہ ’’ ڈومور‘‘ کا راگ الاپتا ہے، لہٰذا ہم اپنی ترقی ، خوشحالی کے لیے اپنے آزمودہ دوست عوامی جمہوری چین سے مل کر جیسے ہی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں وہ تھانیدار بن کر دبائو بڑھا دیتا ہے انہی حکمرانوں کی کوشش کے باوجود کچھ نہیں بدلا؟ بلکہ ہم اب بھی دو کشتیوں کے سوار ہیں، حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے تک پہنچا دیا لیکن تجربات کا سلسلہ بند نہ ہو سکا، وجوہات یہی ہیں کہ سیاستدان کسی بھی دور میں الزامات کی سیاست سے آگے نہیں بڑھ سکے، ایک دوسرے پر مقدمات بنائے گئے اور ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے بھی سہولت کاری کی، جس کو اقتدار ملا وہ بادشاہ ٹھہرا، باقی سب کے سب ملزم سے مجرم بنے۔ اس گورکھ دھندہ میں سب سے زیادہ نقصان قوم، ملک، سلطنت کا ہوا پھر بھی دعویٰ عوامی خدمت کا ہی رہا۔ جس کا جتنا دائو چلا اس نے اتنا ہی قومی خزانہ باپ کا مال سمجھ کر لوٹا، شخصیات اور ذمہ دار گھرانے امیر سے امیر تک ہو گئے اور غریب روتا، منہ بسورتا، آہیں بھرتا ہی رہ گیا۔ جب جب سیاسی دور بدلا قوم نے تبدیلی کی امیدیں بھی وابستہ کر لیں لیکن قومی بدقسمتی اس انتہا کی ہے کہ جو ’’ تبدیلی اور احتساب‘‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں بڑی شان سے آئے اور قوم کو یقین دہانی کرائی کہ اب عوامی خوابوں کو عملی تعبیر ملے گی اس لیے کہ ’’ تبدیلی‘‘ آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے۔ چور، ڈاکو اور لٹیروں کی جگہ جیل ، قومی خزانہ بھرا جائے گا ، انصاف ملے گا۔ پاکستان اپنے دقیانوسی دور سے نکل کر ’’ نیا پاکستان‘‘ بن جائے گا۔ عوامی سطح پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ قومی سیاستدانوں نے نہ چاہتے بھی نہ صرف الیکشن کے نتائج تسلیم کئے بلکہ اقتدار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے، امپائرز نے بھی خان اعظم خان عمران خان کو کھل کر کھیلنے دیا کیونکہ وہ بھی تیسری سیاسی پارٹی سے ’’ تبدیلی‘‘ کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ ’’ احتساب‘‘ کا شور و غوغا بلند ہوا، پکڑ دھکڑ بھی ہوئی، لیکن کچھ بھی نہیں بدلا؟ تجزیہ کاروں اور مبصرین کا اندازہ ہے کہ ایسا ناتجربہ کاری میں ہوا، میرا خیال ہے کہ نادان دوستوں کی ٹیم اور ناتجربہ کاری نے مل کر رنگ دکھایا لیکن جونہی امپائرز نے حکومتی ناکامی پر موڈ بدلا تو عمران خان بھی بدل گئے، لہٰذا کچھ بھی نہیں بدلا۔
ہم جیسوں نے روز اول سے ہی نشاندہی کر دی تھی کہ کھلاڑی چونکہ اناڑی ہیں اس لیے ان کی اقتدار کی کشتی پر ضرورت سے زیادہ سامان لاد دیا گیا ہے یوں کشتی اپنے ہی بوجھ سے ڈوب سکتی ہے۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں بھی ’’ دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر کاربند رہیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمان ہار کر اسمبلی سے باہر تھے۔ انہوں نے دلی طور پر شکست تسلیم نہیں کی تھی اس لیے خاصے برہم اور تلملائے لیکن انہیں بھی ذمہ داروں نے صبر و استقامت کا درس دے کر مطمئن کر دیا ان کے بارے میں بہت سے لوگوں کو دعویٰ ہے کہ وہ بھی شیخ رشید کی طرح گیٹ نمبر 4کے خصوصی مہمان ہیں اور اسی لیے وہ ہر حکومت میں ایک آل رائونڈ پرفارمنس پر ’’ فٹ‘‘ ہو جاتے تھے لیکن تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں نے انہیں گھاس نہیں ڈالی، پہلے انہیں بھی اسمبلیوں سے استعفیٰ کی فکر لاحق ہوئی پھر انہیں ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کا مشورہ دیا گیا لیکن وہ تبدیلی سرکار کا حکومتی منظر زیادہ دیر برداشت نہ کر سکے اور پھر اپنا لشکر لے کر اسلام آباد کا رخ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بڑا رونق میلہ لگا اور اسلام آباد کی حکومت کسی حد تک معطل ہو کر رہ گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے سرپرستوں سے منت سماجت کی کہ اس مصیبت سے جان چھڑائیں انہوں نے صاحب بصیرت ’’ ڈیوٹی فل‘‘ سیاستدان سے رابطہ کر کے فرمائش ڈال دی کہ ’’ مولانا نوں کہو جان دے گسہ‘‘ اور پھر سب نے دیکھا، ’’ چودھری برادران‘‘ نے اپنی مہارت سے ’’ مٹی پائو‘‘ فارمولا استعمال کیا اور حضرت مولانا فضل الرحمان اپنے لشکر اور ہزاروں ڈنڈا برداروں کے ساتھ ہنسی خوشی واپس لوٹ گئے پھر بھی حالات و معاملات پرانی ڈگر پر ہی چلتے رہے، کچھ بھی نہیں بدلا؟
حکومت عمرانی نے پر پرزے نکالے، نت نئے منصوبوں کا اعلان کیا، قومی خزانہ لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنانے کی ٹھان لی ، پناہ گاہیں، لنگر خانے بنائے گئے ، صحت کارڈ جاری ہوئے۔ داخلی اور خارجہ محاز پر فتوحات کی کہانیاں سنائی گئیں ، سستے اور جلد انصاف کی بات کی گئی لیکن کچھ بھی نہیں بدلا؟ کرونا حملہ آور ہوا تو حکومتی اور عوامی امتحانات بھی بدلے اور مشکلات بھی، بے روزگاری سے کم آمدنی والوں کو بچانے کے لیے ’’سمارٹ لاک ڈائون‘‘ متعارف کرایا گیا تاکہ جز وقتی کام کرنے والوں کو کم سے کم نقصان ہو، لیکن پھر بھی اشرافیہ کے بچے گھروں سے کام کرتے رہے اور غریبوں کی اولاد نہ کام کی رہیں نہ کاج کی۔ البتہ دشمن اناج تو بنی رہیں کیونکہ زندہ رہنے کے لیے کھانا تو پڑتا ہے اس ناگہانی مشکل سے اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اخلاقی اور معاشرتی طور پر قوم اپنے انداز بدل لے گی لیکن ہم نے کسی بھی حالت میں کچھ نہ سیکھنے کا عہد کر رکھا ہے لہٰذا دنیا بدل گئی ہمارے ہاں کچھ نہیں بدلا۔۔۔۔۔ تاہم مہنگائی اور بے روزگاری نے مسائل میں اضافہ کر دیا۔ لوگوں نے پریشانی اور بے زاری کا اظہار کیا تو اپوزیشن جماعتیں مہنگائی سے نجات کا نعرہ لگا کر حکومت پر حملہ آور ہو گئیں پھر جو کچھ ہوا وہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ تحریک اعتماد آصف زرداری کا نسخہ استعمال ہوا اور سابق وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا، سابق وزراء اور مشیر جدھر سے آئے تھے ادھر واپس چلے گئے۔ عمران خان ایک مرتبہ پھر سڑکوں کی رونق بن گئے اور 13جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم ہو گئی۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کو اولیت حاصل ہو گئی کیونکہ ’’ ڈیفالٹ‘‘ ملک کی چوکھٹ پر دستک دے رہا تھا۔ خیال تھا کہ ٹوٹا معاہدہ جڑ گیا تو بات بن جائے گی لیکن معاہدہ ہوجانے کے باوجود بھی معاملات میں سدھار نہیں آ سکا، نہ ہی حکومت اپنے وعدے کے مطابق عوامی ریلیف دے سکی، الزامات عمرانی حکومت کے سر لگے کہ ان حالات تک ناقص فیصلوں اور غلط منصوبہ بندیوں کے باعث پہنچے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے اپیل کی کہ حالات کی بہتری اور مشکلات سے نجات کے لیے سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے۔ لہٰذا قوم ان حالات سے نمٹنے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔ یقینا غیر معمولی حالات کا تقاضا تھا کہ غیر معمولی فیصلے کئے جائیں ایسا ہی ہوا لیکن مشکلات بڑھ گئیں۔ عوامی فلاح اور عام آدمی کے لیے کچھ نہیں بدلا؟ وعدے بھی ہوئے اور معرکہ آرائی کے اعلانات بھی بلکہ ملک کے ڈیفالٹ مسلم لیگی ارسطو سینیٹر اسحاق ڈار کی واپسی بھی ہو گئی اور انہیں وزیر خزانہ بھی بنا دیا گیا۔ انہوں نے عدالت کے رحم و کرم پر اپنے آپ کو پیش کر کے ریلیف لے لیا بعد ازاں منجمد اکائونٹس بھی بحال ہو گئے۔
ضبط شدہ جائیداد بھی مل گئی لیکن قوم نے اپنے آپ کو انتہائی صبرو تحمل سے اسحاق ڈار کے حوالے کئے رکھا ، پھر بھی کچھ نہیں بدلا؟ سب وعدے اور یقین دہانیاں ہوا میں اْڑ گئیں۔ اتحادی حکومت کے 16ماہ کے دور اقتدار میں سزائیں ختم ہوئیں، آئینی ترامیم بھی ہوئیں، معاشی، سیاسی اور آئینی بحران بھی بڑھا، سیاستدانوں کی پوزیشن بھی تبدیل ہو گئی ، جیلوں اور مقدمات میں پھنسے رہائی پا گئے اور اقتدار کے نشے میں بڑھکیں مارنے والے جیل چلے گئے۔ عمرانی دور میں ایک سے زیادہ سابق وزرائے اعظم جیل گئے اور ایک تو ملک سے باہر ہی چلے گئے کیونکہ وہ پاکستانی تاریخ کے ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم ہیں جیل جانے والے رہا ہو گئے تاہم ’’ نیب‘‘ ترامیم کالعدم ہونے پر مقدمات کا سامنا اب بھی کریں گے جبکہ چار ہفتوں کے علاج پر جانے والے نواز شریف کی واپسی کا بھی چرچا ہے۔ مقدمات ان کے بھی منتظر ہیں۔ نگران حکومت اور سپہ سالار کی حکمت عملی سے کچھ بلکہ بہت کچھ بدلنے کی امیدیں وابستہ ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد کی واپسی پر جارحانہ بیانیہ مزاحمتی سے مفاہمتی ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی اپنے چیئرمین کی گرفتاری کے سخت ردعمل میں بْری طرح پھنسی ہوئی ہے اور یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ کہ نواز شریف نہیں آ رہا، ترقی و خوشحالی کی واپسی ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ ن استقبال اور الیکشن مہم میں چھلانگ لگا چکی ہے جبکہ حضرت مولانا فضل الرحمان اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ الیکشن مسائل کا حل نہیں، تاہم پیپلز پارٹی ان سب سے دور رہتے ہوئے بھی آئینی اور قانونی حدود میں الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن حالات چغلی کھا رہے ہیں کہ سیاسی اور ملکی سطح پر بہت کچھ بدل چکا ہے اور مزید بھی بدلنے کی امید ہے لیکن عوامی سطح پر کچھ بھی نہیں بدلا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button