ColumnRoshan Lal

جبر ، گھٹن ، مزاحمت اور پی ٹی آئی

تحریر : روشن لعل
پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ، یہاں کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا جسے جبر اور گھٹن سے پاک قرار دیا جاسکے۔ لفظ ’’ پاک ‘‘ سے موسوم’’ پاکستان‘‘ میں جبر اور گھٹن کی آلودگی پہلے دن ہی سمو دیا گیا تھا۔ اس ملک کی تاریخ جبر اور گھٹن کی بد ترین مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جبر اور گھٹن کی اس تاریخ میں مسلسل نئے ابواب کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس تسلسل میں آج کل جبر اور گھٹن کا ایک نیا باب تاریخ میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ جبر اور گھٹن کے اس باب کو بعض لوگ ویلڈنگ کرنے والی عینک میں سے دیکھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تو کہیں جبر اور گھٹن نظر نہیں آرہی، ان کے برعکس کچھ لوگ یہی کام طاقتور محدب عدسوں کا استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں ، ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس قدر جبر اور گھٹن اس وقت ملک میں موجود ہے اس کی مثال کسی سابقہ دور میں نظر نہیں آتی۔ جن دو انتہائوں پر بیٹھ کر اس ملک میں جبر اور گھٹن کی پیمائش کی جارہی ہے ، ان میں سے کوئی انتہا بھی ایسی نہیں ہے جسے نظروں کو دھوکے میں مبتلا کرنے والا مقام نہ کہا جاسکے۔ جس خاص مقام کا استعمال دوسروں اور خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا اس کا انتخاب دونوں انتہائوں سے چمٹے ہوئے لوگوں کا اپنا کیا ہوا ہے۔ ان انتہائوں پر بیٹھ کر حسب سابق پراپیگنڈے کا ہر ہتھیار استعمال کرتے ہوئے دونوں طرف کے لوگ تمام تر توانائیاں اپنے غلط موقف کو درست ثابت کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں انتہائوں پر براجمان لوگوں کا موقف غلط ہے تو پھر درست بات کیا ہے۔
یاد رہے کہ کسی ملک میں جبر اور گھٹن کی موجود گی کا اندازہ سب سے پہلے اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہاں طے شدہ آئین و قانون پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے ۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وطن عزیز میں طے شدہ قوانین کا اطلاق پہلے بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں بلکہ پسند ناپسند کی بنیاد پر کیا جاتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہاں جبر اور گھٹن کسی طور موجود نہیں ہے ان کا موقف کسی صورت درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ جب یہ بات طے ہے کہ یہاں جبر اور گھٹن کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں تو پھر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا حقیقتاً جبر اور گھٹن کی شدت اس حد تک ہے کہ ماضی
میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جبر اور گھٹن کی شدت کا تعین ، جبر اور گھٹن کے خلاف ہونے والی مزاحمت کی شدت سے کیا جاتا ہے۔ یہ بات شاید ان لوگوں کو سمجھ نہ آسکے جن کی اکثریت نے ماضی بعید ہی نہیں بلکہ ماضی قریب میں بھی نہ کبھی یہاں جبر اور گھٹن کی موجودگی کو تسلیم کیا نہ اس کو برا سمجھا اور نہ ہی اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کو قابل جواز قرار دیا۔ ایسے لوگوں نے جب یہ دیکھا ہے کہ سہولت کاروں نے اچانک ا ن سے دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے ، دوسروں کے گریبان تار تار کرنے ، دوسروں کو گالیاں دینے اور دوسروں کے خلاف ہر قسم کی ہرزہ سرائی کرنے کی رعایت واپس لے لی ہے تو انہوں نے اسے اپنی آزادی چھینے جانے کے مترادف قرار دے کر خود کو گھٹن اور جبر کا اسیر سمجھنا شروع کر دیا۔ جن لوگوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اس بات پر غور کرنا مناسب نہ سمجھا کہ جبر اور گھٹن اصل میں کس کیفیت کا نام ہے انہوں نے دوسروں کو برا کہنے کی آزادی چھن جانے کو صرف جبر قرار نہیں دیا بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا کہ پاکستان میں ایسا جبر ماضی میں کبھی کسی پر نہیں کیا گیا۔
ماضی کے جبر کے دوران یہاں جن دردناک کہانیوں نے جنم انہیں کسی کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ جبر اور گھٹن کی ایسی ہر کہانی اس لیے ناقابل فراموش ہے کیونکہ ایسی ہر کہانی کے ساتھ بے جگری سے کی گئی مزاحمت کی کوئی نہ کوئی کہانی بھی جڑی ہوئی ہے۔ ماضی کے مزاحمت کاروں کی ظلم کے خلاف طویل عرصہ تک بے جگری سے کی گئی مزاحمت کی وجہ سے ہی دنیا پر یہ واضح ہو سکا تھا کہ ان پر ہونے والے جبر کی شدت کتنی زیادہ ہے۔ آج جب مزاحمت کہیں نام کو بھی نظر نہیں آرہی تو کیسے مان لیا جائے کہ لوگوں کو ایسے جبر اور گھٹن کا سامنا ہے جس کی تاریخ میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہاں پر جس مبینہ جبر اور گھٹن کا پراپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کا تصور 9مئی کے واقعہ کے بعد پیدا ہوا۔ جن لوگوں کو اس مبینہ جبر اور گھٹن کا شکار قرار دیا جارہا ہے اگر ان کے سابقہ افعال کو دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ وہ جس گروہ سے وابستہ رہے اس کی طاقت کے متعلق ان کا خیال یہ تھا کہ اس کے بل پر پاکستان میں کچھ بھی روندا جاسکتا ہے۔ 9مئی کے بعد جب یہ خیال خام ثابت ہوا تو جس گروہ پر سیسہ پلائی دیوار ہونے کا گمان کیا جاتا تھا وہ ریت کے گھروندے سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہو کر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ 9مئی کے بعد اگلے بیس دنوں میں عمران خان کے قریب ترین سمجھے جانے والے 100سے زیادہ لوگ سیاست، تحریک انصاف اور اپنے اس قائد کا ساتھ چھوڑ چکے تھے جس کے دم بھرنے کا دعویٰ وہ دن رات کرتے رہتے تھے۔ ان بیس دنوں میں آخر ان لوگوں پر کسی نے کتنا جبر کیا ہوگا جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا۔ عمران خان کا ساتھ، سیاست اور تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کرنے والوں میں تازہ ترین اضافہ عثمان ڈار کا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ عثمان ڈار اگر ایسا نہ کرتے تو انہیں اور ان کے بھائی کا پانچ ملین روپے کرپشن کا کیس اینٹی کرپشن سے نیب کے حوالے کر دیا جہاں طویل عرصہ تک ان کی ضمانت ہونا ممکن نہ ہوتا ۔ واضح رہے کہ اس کرپشن میں مفرور قرار دے کر عدالت نے عثمان ڈار کی فیکٹری اور جائیداد کو سر بمہر کر دیا تھا جو ان کے منظر عام پر آنے اور خود کو قانون کے حوالے کرنے کے بعد واپس کردی گئی۔ عثمان ڈار اور ان جیسے پی ٹی آئی کے دیگر لوگوں نے جس انداز میں سیاست، عمران خاں اور پی ٹی آئی سے کنارہ کشی اختیار کی اس میں کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ ان پر تاریخ کا بے مثال جبر کیا گیا ہو۔ اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ عثمان ڈار اور ان جیسے لوگوں کی موقع پرستی ہے ۔ عثمان ڈار اور ان جیسے لوگوں کی موقع پرستی یہ ہے کہ ان سب نے 9مئی کے واقعہ میں شریک کار ہونے کے باوجود غداری کے مقدمہ سی بچنے کے لیے سیاست عمران اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ اس طرح کے کام جبر اور گھٹن کے آگے بے بس ہو کر نہیں بلکہ ذاتی نفع و نقصان کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button