ColumnFayyaz Malik

کس کس کا رونا روئیں یہاں تو اندھیر نگری چوپٹ راج ہے

تحریر : فیاض ملک
انسانوں میں انسانیت کی تلاش پر مشہور یونانی فلسفی دیوجانس کلبی نے کہا تھا کہ ’ انسانوں کی بھیڑ میں انسان تلاش رہا ہوں‘، انسان اور انسانیت میں فرق ہے، انسان کی تخلیق آب و گل سے جبکہ انسانیت کی تشکیل ایمان کامل، عمل صالح، حسن اخلاق، صلہ رحمی، جذبہ مواخات اور خدمت خلق سے ہوتی ہے، ہمیں انسان بنانے والا ہمارا کریم رب ہے جب کہ انسانیت کی راہ پر چلنا ہمارے اپنے اختیار میں ہوتا ہے ،آج انسان بہت ملیں گے مگر انسانیت تلاش سے بھی نہیں ملتی، کل میں فیملی کے ساتھ چیک اپ کرانے کے لئے سروسز ہسپتال گیا تو ڈاکٹر صاحب نے کوئی 1؍2دوائیاں بازار سے لانے کا کہا، اس دوران ساتھ ہی کھڑی نرس نے مجھے بتایا کہ یہ زیادہ مہنگی نہیں ہیں، 300تک آئیں گئیں، بازار میں اکثر نئے بندے کو میڈیکل سٹور والے لوٹ لیتے ہیں ذرا احتیاط سے، یہ سن کر میں نے ادویات والی پرچی لی اور سروسز ہسپتال کے باہر انڈر پاس میں بھی اترا ہی تھا کہ وہاں پر دائیں اور بائیں موجود میڈیکل سٹور پر کھڑے سیلز مین ٹائپ کے افراد نے آوازیں کسنا شروع کر دی کہ بھائی جان ادھر آئیں، ہمارے ہاں سے دوائیاں اچھی اور ڈسکائونٹ ریٹ پر ادویات لے لیں، تاہم میں ایک میڈیکل سٹور میں داخل ہو گیا، ان کو میں نے دوائی والی پرچی دی تو اس بھائی نے ڈسکائونٹ کر کے 960روپے بل بنایا، جس پر میں نے کہا کہ یہ ادویات پہلے بھی ایک مریض 300میں لیکر گیا ہے تو ان سٹور والے بھائی نے کہا کہ وہ اور ادویات ہونگی، یہ سننے کے بعد میں نے وہ ادویات واپس کیں اور سڑک عبور کر کے دوسری سائیڈ پر چلا گیا وہاں میڈیکل سٹور سے وہی ادویات 300میں مل گئیں، اب آپ بتائیں تبدیلی آئی، یا نیا پاکستان یا پرانا پاکستان ہو، بھٹو زندہ ہو یا نہ ہو، کرپشن دھیلے کی کی ہو یا نہ کی ہو، عوام تو لٹ رہے اور مر رہے ہیں، کچھ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب برفباری کی وجہ سے مری کے خراب حالات میں پھنسے ہوئے سیاحوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل مالکان کی جانب سے کرایے کی مد میں ہیٹر والا روم50 ہزار کا، بغیر ہیٹر والا 20سے 25ہزار کا، بیڈ سپیس 15ہزار، ٹوائلٹ جانے کا 3سو سے4سو روپے، پارکنگ فیس کا 500سے 1500سو روپے، ابلے ہوئے ایک انڈے کا 500 روپے اور پراٹھا چائے کا 700روپے جبکہ گاڑیوں کو برف سے کلئیر کرنے اور پھنسی گاڑیوں کو دھکا لگانے کی مزدوری بھی دس گنا وصول کی گئی تھی، یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد تو مجھے یقین ہوگیا کہ ہمارے معاشرے میں صرف حکومتیں ہی نہیں بلکہ انتظامی نظام اور ہمدردی کے جذبے ناکام ہوتے جا رہے ہیں، یہی نہیں چند سال قبل لاہور کی انار کلی بازار میں دہشتگردی کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا تھا، دہشتگردی کے اس افسوسناک واقعہ کے بعد دھماکے کے قریب واقع پرائز بانڈ کی دکانوں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں اور مختلف موبائل فونز کی فوٹیج میں کچھ ایسے شرمناک مناظر بھی آنکھوں کے سامنے آئے جن کو دیکھ کر دل دہل کر رہ گیا، دھماکے میں زخمی سڑک پر تڑپ رہے تھے، جن کو ہسپتال منتقل کرنے کے بجائے وہاں پر انسانیت کے جذبے سے عاری کچھ مفاد پرست لوگ پرائز بانڈ کی دکانوں پر لوٹ مار کرنے کے ساتھ ساتھ سڑک پر بکھرے پیسے اور پرائز بانڈز سمیٹتے رہے، کچھ نے تو وہاں پر ٹھیلے والے کے بکھرے ناریل اور پرانے کپڑوں کو بھی مال غنیمت سمجھتے ہوئے نہ بخشا، خیال رہے کہ دھماکے کے بعد لٹنے والی پرائز بانڈ کی ایک دکان کا مالک بھی زخمیوں میں شامل تھا، جو انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنی جمع پونجی لٹتے ہوئے دیکھتا رہا، لوٹ مار کے اس گھنائونے عمل میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ یہاں تو سب کے ضمیر ہی مرے ہوئے ہیں، کس کس کا رونا روئیں یہاں تو اندھیر نگری چوپٹ راج ہے، جس کا جہاں دل کرتا ہے وہ اپنی تمام تر خباثتوں کا ( دا) لگا جاتا ہے، جب ملک میں ڈینگی وبا آئی تو ( سی بی سی ٹیسٹ ) اور اس بیماری کے تدارک کیلئے استعمال ہونیوالی عام سی دوا ( پیناڈول) کو مارکیٹ سے غائب کرتے ہوئے اس کی مہنگے داموں فروخت شروع کردی گئی، یہی نہیں کرونا کی وبا آئی تو میڈیکل سٹورز اور فارمیسیوں پر کرونا میں استعمال ہونیوالی ادویات، ماسک اور آکسیجن سلنڈر کے ریٹ دگنا نہیں بلکہ دس گنا ہو گئے، ذخیرہ اندورزوں کی جانب سے اشیائے خوردونوش کا مصنوعی بحران پیدا کرکے اس کی قیمتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ کرتے ہوئے ملک بھر میں لوٹ مار کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی، کاشتکاروں نے گندم مارکیٹ میں فروخت کی اسکے فوراً بعد گندم کا بحران پیدا ہو گیا تو مارکیٹ میں بیٹھے مافیا نے گندم ذخیرہ کرلی، جس سے مارکیٹ میں آٹے کے نرخ بڑھ گئے۔ چینی بحران میں اس قوم نے چینی سٹاک کر لی، جس سے نرخ دگنا ہو گئے۔ اب جب آشوب چشم کی وبا پھیلی تو شہر میں آئی ڈراپس کی مصنوعی قلت پیدا ہوگئی۔ ادویات اور آئی ڈراپس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ آئی ڈراپس کی بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی سے منافع خوروں کا بازار سرگرم ہوگیا ہے۔ جو آئی ڈراپس با آسانی 25سے 30روپے میں دستیاب تھے، ان کی قیمتوں میں 20فیصد اضافہ ہوچکا ہے، شہر میں پولی پیپ، جینٹا سن، بیٹناسول، فلورومیتھولون اور افلاسیسن سمیت دیگر آئی ڈراپس میڈیکل سٹورز اور ادویات کی ہول سیل مارکیٹوں سے غائب ہوچکے ہیں، آئی ڈراپس کی ڈیمانڈ میں اضافے کے سبب شہر میں بحران سر اٹھا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ المیہ ہے جب پاکستان میں کوئی مرض پھوٹ پڑھتا ہے تو منافع خوروں کا بازار سرگرم ہوجاتا، ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے خوف سے کھیل کر اپنے پیسے کمالے اور کوئی کاروائی تک نہیں کی جاتی ہے، یہی نہیں ہم سب ہمیشہ سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ رمضان المبارک، عید یا کوئی بھی خوشی کا تہوار ہو تو ارض پاک میں ناجائز منافع کے حصول کیلئے اشیائے ضروریہ کے نرخ یہ کہتے ہوئے بے تحاشا بڑھا دئیے جاتے ہیں کہ ہم نے بھی تو اسی سیزن میں ہی کمائی کرنی ہے، پس ثابت ہوا کہ آج کے اس دور میں انسان بہت ترقی کر رہا ہے لیکن اپنے لئے کیا کچھ نہیں کر رہے، اس گہماگہمی کے دور میں انسان انسانیت کو ہی بھول بیٹھا ہے، اگر کوئی انسان مر رہا ہے تو بجائے اس کی مدد کے کھڑے ہو کے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ سڑک پہ کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے یا کس کا جھگڑا ہو جائے تو لوگ فوراً اپنا موبائل نکالتے ہیں اور تصویریں یا ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں اور اسی وقت ہی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ انسانیت ایسی چیز ہے جو نہ صرف اس دنیا میں ہمارے کام آئے گی بلکہ اس زندگی کے بعد والی زندگی میں بھی اس کا اجر ملے گا جیسا کے ہم سب جانتے ہیں کے حقوق اللہ تو معاف ہو سکتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہو سکتے جب تک انسان خود معاف نہ کرے۔ سب سے افسوس ناک بات یہی ہے کے ہم سب کچھ جانتے ہوئے خود کو حقیقت سے غافل رکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کے بتائے ہوئے رستے پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کا مظاہرہ کریں۔ کیوں کہ انسانیت ہی انسان کو انسان سے وابستہ رکھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button