Column

موت اور فکر آخرت ایک حقیقت

تحریر : شکیل امجد صادق
وہ بڑے آرام سے اپنی بڑی گاڑی میں وارد ہوا ( وہ دن یکسر بھول گیا جب اس کے پاس ٹوٹی ہوئی سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی اور پیدل سکول جایا کرتا تھا)۔ ڈرائیور نے بھاگ کر دروازہ کھولا۔ وہ بڑی تمکنت کے ساتھ نیچے اترا اور لان میں نیم دراز کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے گاڑی گیراج میں کھڑی کی اور اجازت لیکر اپنے گھر کی راہ لی۔ ٹائون پلانر صاحب نے چوکیدار کو آواز دی کہ فریج میں پڑا اْبلا ہوا گوشت لائے۔ چوکیدار فوراً فریج کی طرف بھاگا اور ابلے گوشت والا شاپر اٹھا لایا۔ صاحب نے اپنے پالتو کتے کو آواز دی۔ کتا ایک ہی جست میں اپنے مالک کے قدموں میں آ پہنچا۔ مالک نے چوکیدار کے سامنے کتے کو ابلا ہوا گوشت کھلایا اور گوشت بھی ایسا کہ شاید چوکیدار نے ایسا گوشت عیدِقربان پر بھی نہ دیکھا ہوگا۔۔۔ کھانا تو بہت دور کی بات۔۔۔۔ جب کتا گوشت کھا چکا اور اپنے مخصوص انداز میں اپنے مالک سے کھلینے لگا تو چوکیدار جو ( صبح سے بھوکا بھی تھا اور گرمی سے بے حال بھی تھا) اپنے مالک سے گویا ہوا کہ مالک ایک درخواست تھی۔ مالک ( ٹائون پلانر) نے بہت بیزاری اور بے اعتنائی سے جواب دیا کہ کہیے کیا مسئلہ ہے؟ چوکیدار نے کہا صاحب! گرمی بہت ہے۔ سارا دن حبس سے برا حال ہو جاتا ہی اور میری ڈیوٹی والی جگہ پر پنکھا نہیں ہے۔ براہ مہربانی ایک پنکھے کا انتظام کرا دیں۔ یہ سنتے ہی مالک لال پیلا ہو گیا جیسے اس کی دم پر کوئی پائوں آگیا ہو حالانکہ اسے اس بات کا علم ہو گا کہ قبروں میں کھوپڑیوں پر اکثر و بیشتر پائوں آتے رہتے ہیں اور وہاں بڑے بڑے پْر غرور سر موجود ہیں جو ہڈیوں سمیت چور چور ہیں۔ مالک کہنے لگا اگر نوکری کرنی ہے تو اسی گرمی میں کرو۔۔ نہیں تو کل سے چھٹی۔۔۔۔۔ چوکیدار جس کی کل دْینا یہی تنخواہ تھی۔ لہو کے گھونٹ پی کر اپنی ڈیوٹی پر چل دیا اور ٹائون پلانر اپنے کتے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگا حالانکہ وہ کتا کوئی اصحاب کہف کا کتا نہیں تھا۔ وہ ایک عام سا کتا تھا اور ایسے کتے معاشرے میں عام پائے جاتے تھے۔ یہ ایک معمولی واقعہ تھا جس نے میرے اعصاب شل کر دیئے اور مجھے گھنٹوں ذہنی طور پر معذور کر دیا۔ اس معاشرے میں بے شمار اندوہناک اور روح سوز واقعات رونما ہوتے ہیں، مگر ایسے تمام لوگ موت
اور اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ جب موت آئے گی تو یقین جانیں کہ کچھ بھی کام نہ آئے گا۔ آپ کے دنیا سے جانے پر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور اس دنیا کے سب کام کاج جاری و ساری رہیں گے۔ دھوپ چھائوں تمام موسم معمول پر رہیں گے۔ آپ کی ذمہ داریاں کوئی اور لے لے گا اور تمام معاملات چلتے رہیں گے۔ آپ کا مال وارثوں کی طرف چلا جائے گا اور ان کی موجیں لگ جائیں گی مگر آپ کو اس مال کا حساب دینا ہوگا۔
موت کے وقت سب سے پہلی چیز جو آپ سے چلی جائے گی وہ نام ہوگا لوگ کہیں گے کہ میت کہاں ہے؟ جب وہ جنازہ پڑھنا چاہیں گے تو کہیں گے کہ جنازہ لائیں۔ جب دفن کرنا شروع کریں گے تو کہیں گے کہ میت کو قریب کر دیں۔ آپ کا نام، حسب و نسب اور عہدہ ہرگز نہ لیا جائے گا، مال، حسب و نسب، منصب اور اولاد کے دھوکے میں نہ آئیں۔ یہ دنیا کس قدر زیادہ حقیر ہے اور جس کی طرف ہم جا رہے ہیں وہ کس قدر عظیم ہے۔ آپ پر غم کرنے والوں کی تین اقسام ہوں گی(1) جو لوگ آپ کو سرسری طور پر جانتے ہیں وہ کہیں گے ہائے مسکین! اللہ اس پر رحم کرے۔(2)۔ آپ کے دوست چند گھڑیاں یا چند دن غم کریں گے پھر وہ اپنی باتوں اور ہنسی مذاق کی طرف لوٹ جائیں گے اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جائیں گے۔ آپ کی اولاد میں سے جو کبھی کبھار ملے گا اس سے آپ کی دو باتیں کر لیں گے۔(3) آپ کے گھر کے افراد کا غم گہرا ہوگا، وہ کچھ ہفتے، کچھ مہینے یا ایک سال تک غم کریں گے اور اس کے بعد وہ آپ کو یادداشتوں کی ٹوکری میں ڈال دیں گے۔ جب کبھی آپ کی کوئی تصویر سامنے آئے گی بس چند لمحوں کے ملول ہوجائیں گے۔ بہت تابع فرمان ہوئے تو چند آنسو بہا لیں گے اور قبر پر پھول ڈال کر قرض ادا کر دیں گے۔ لوگوں کے درمیان آپ کی کہانی کا اختتام ہو جائے گا اور آپ کی حقیقی کہانی شروع ہو جائے گی اور وہ آخرت ہے۔ آپ سے آپ کا حسن، مال، صحت، اولاد، اور دوست احباب زائل جائیں گے۔ آپ اپنے مکانوں اور محلات سے دور ہو جائیں گے، شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے جدا ہو جائے گی، آپ کے ساتھ صرف آپ کا عمل باقی رہ جائے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی قبر اور آخرت کے لیے ابھی سے کیا تیاری کی ہے؟ کیا آپ نے کتوں کو گوشت ڈالنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کا بھی خیال کیا ہے؟ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی کا خیال رکھا ہے؟ تکبر، غرور، لالچ اور حرص کو شکست دی ہے یا نہیں؟ یہ وہ حقیقت ہے جو غور و فکر کی محتاج ہے اس لیے آپ اس کی طرف توجہ کریں۔ فرائض، نوافل، پوشیدہ صدقہ، نیک اعمال، تہجد کی نماز اور اچھے اخلاق کی طرف، توجہ دیں شاید کہ نجات ہو جائے.آج جسم میں روح ہے موقع ہے اچھائی والے کام کرو اور آگے بھیجو کل جسم ہوگا لیکن روح پرواز کر چکی ہوگی پھر افسوس اور پچھتاوے کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ابھی بھی وقت ہے توبہ کرلو اور باقی زندگی رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے والے کام میں گزار دیجیے۔ عوام الناس سے اخلاق سے پیش آئیے اور اس کی مخلوق کا خیال رکھ یہ ثابت کر دیجیے کہ واقعی ہی انسان فرشتوں سے بہتر مخلوق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button