ColumnHabib Ullah Qamar

بھارتی مظالم کا آن لائن ڈیٹا غائب کرنیکی نئی سازش

حبیب اللہ قمر
بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے ثبوت مٹانے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیے جانے کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔ ماضی میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کے اکائونٹس بلاک کیے گئے اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ ان پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بھارتی فوج پر پتھرائو کے لیے منظم کرتے ہیں اور ہندوستانی فوج کے مظالم و دہشت گردی کو دنیا کے سامنے اجاگر کر رہے ہیں۔ مودی حکومت کی طرف سے پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ سیکڑوں کی تعداد میں فیس بک پیج مبینہ طور پر پاکستان سے چلائے جارہے ہیں حالاں کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور دنیا جانتی ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوان تیزی سے تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کا بھیانک چہرہ بین الاقوامی دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں جس سے ہندوستانی فوج اور حکومت میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ ہر صورت اس سلسلہ کو روکنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے بھارتی حکومت کی ایک نئی سازش سامنے آئی ہے جسے فرانسیسی رسالے لی ایکسپریس نے بھی شائع کیا ہے۔ مذکورہ رسالے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کچھ عرصے سے مقامی میڈیا کے سیکڑوں آن لائن آرکائیوز پراسرار طور پر غائب ہو نا شروع ہو گئے ہیں اور اِس کے ساتھ کئی دہائیوں کے تشدد اور جنگی جرائم کا ریکارڈ بھی سرچنگ میں نہیں آرہا۔ گریٹر کشمیر اخبار میں 2010میں 16سالہ اشتیاق احمد کے قتل کے بارے میں ایک مضمون کے لنک پر کلک کرنے سے یہ صفحہ error 404دکھاتا ہے۔ یہی سلوک کشمیر ریڈر کے ریکارڈ کے ساتھ ہوا ہے۔ سجاد احمد ڈار جو 2012 میں پولیس کی تحویل میں لینے کے بعد ہسپتال میں دم توڑ گے تھے، ان کے متعلق سرچ کرنے پر جواب آتا ہے’’ معذرت، آپ جس صفحہ کی تلاش کر رہے ہیں وہ اَب نہیں ہے‘‘۔ سری نگر میں ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر نے کہا کہ اس نے پہلے سوچا کہ یہ تکنیکی مسئلہ ہے لیکن اپنے آن لائن آرکائیوز پر گہری نظر ڈالنے کے بعد انکشاف ہوا کہ جو معلومات غائب تھیں وہ زیادہ تر پچھلے کئی سالوں کی کشمیریوں کی بھارتی افواج کے ہاتھوں تشدد اور قتل و غارت گری کا احاطہ کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ کشمیر میں 2019سے پہلے کچھ نہیں ہوا۔ زیادہ تر غائب کی گئی معلومات کا تعلق 2008، 2010اور 2016میں بھارتی حکومت کے خلاف بڑے مظاہروں سے ہے، جن میں 300سے زاہد کشمیریوں کو بھارتی فورسز نے شہید کیا اور ہزاروں کو زخمی جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ کشمیری صحافیوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے وہ تمام مضامین اور رپورٹیں جن میں بھارتی فوج کی قتل و غارت گری، عصمت دری، تشدد اور دیگر جرائم شامل ہیں ، انہیں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں سے چھپانے کیلے آرکائیوز ختم کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ چیف ایڈیٹر روزنامہ کشمیر آبزرور سجاد حیدر نے کہا کہ ہماری رسائی کو کم کرنے اور ہمارے قارئین کو محدود کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور کشمیری قوم کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک وقت تھا کہ ڈھائی سو سے زیادہ اخبارات کے ساتھ ایک متحرک پریس تھا لیکن آج ان کی تعداد گنتی کی رہ چکی ہے۔ میڈیا کی خودمختاری اور آزادی سلب کرنے کے بعد ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ ان پر بھارتی حکام کی جانب سے تنقید روکنے کے لیے منظم دبا ڈالا گیا ہے۔ صحافیوں کو انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا یا پولیس کی طرف سے بار بار طلب کیا گیا ہے تاکہ ان کی رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں کچھ عرصہ قبل ہندوستانی حکام نے کشمیر انڈیپنڈنٹ پریس کلب کو بند کر دیا جس نے ہندوستانی فورسز کو ہراساں کرنے پر تنقید کی تھی۔ امریکی صحافی مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ آرکائیوز کا غائب ہونا نئی دہلی کی کشمیر پر بیانیہ کو کنٹرول کرنے کی مسلسل کوششوں کا حصہ لگتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فیس بک، ٹویٹر ، یوٹیوب، انسٹا گرام اور دوسر ے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جس کسی سوشل میڈیا صارف کی جانب سے برہان وانی شہید اور حافظ محمد سعید کی تصویر لگائی جاتی ہے اس کا اکائونٹ فوری طور پر بلاک کر دیا جاتا ہے اور ایسی ویڈیوز فوری طور پر ڈیلیٹ کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں کئی سینئر صحافیوں کے فیس بک اور ٹوئٹر اکائونٹس محض کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر بلاک کیے جاتے رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق متعدد ٹوئٹر صارفین کا کہنا تھا کہ انہیں ای میلز موصول ہو رہی ہیں جس میں ’ بھارتی مظالم‘ کی خلاف ورزی
کرنے پر انہیں متنبہ کیا جارہا ہے۔ ٹوئٹر کے ان اقدامات کو سماجی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو اس معاملے پر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔ ٹوئٹر بھارتی حکومت کے اثر میں آ کر کشمیر کے لئے آواز بلند کرنے والے سوشل ایکٹوسٹس کے اکائونٹ بند کر رہا جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے کیا ظلم پر آواز اٹھانے کا ہمیں حق نہیں ہے ؟ رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر اکائونٹس بلاک کرنے اور پوسٹس کو سنسر یا ڈیلیٹ کرانے والے ممالک میں بھارت کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ صرف 2015میں بھارت نے فیس بک اکائونٹس یا پوسٹس کو ہٹانے کی 15ہزار درخواستیں دی تھیں۔ پاکستان میں معروف آئی ٹی اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ حضرات کا کہنا ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھارتی ماہرین کلیدی عہدوں پر تعینات ہیں جو ہندوستانی حکام کی ہدایات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ سوشل میڈیا سیکٹر میں اپنی سپرمیسی ثابت کی جائے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ سوشل میڈیا پر کشمیر کی جدوجہد آزادی سے متعلق پوسٹ کی جائے یا ویڈیو اپ لوڈ کی جائے تو آٹو میٹک ذریعے سے سیاق و سباق دیکھے بغیر سوشل میڈیا صارفین کی ایسی پوسٹیں ختم، ویری فائیڈ اکانٹس بلاک اور ایسی ویڈیوز حذف کر دی جاتی ہیں۔ انڈیا یوں تو آزادی اظہار رائے کا بہت شور مچاتا ہے لیکن سب سے زیادہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزیاں بھارت کی طرف سے ہی کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے نئے لوگ آن لائن سرچنگ کر کے ریسرچ پیپر وغیرہ لکھتے ہیں اور انہیں تحریک آزادی کشمیر سے آگاہی ہوتی ہے تاہم بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ نوجوان نسل تک کشمیریوں کی حمایت والا بیانیہ ہی پہنچنے نہ دیا جائے ۔ اسی مقصد کے تحت اخبارات کی ویب سائٹوں سے مضامین اور خبریں غائب کی جارہی ہیں۔ آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مکمل طور پر بھارتی مفادات کا تحفظ اور کشمیریوں کی تحریک کچلنے میں پوری طرح معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے بھارت کے دہشت گرد کردار کو پوری دنیا پر بے نقاب کریں تاکہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نقصانات سے دوچار ہونے سے بچایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button