ColumnImtiaz Aasi

کرنسی کا ایک تہائی افغانوں کے پاس ہے

امتیاز عاصی
ایک ادارے کے اکنامک ونگ کی طرف سے نگران حکومت کو دی جانے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیر گردش کرنسی کا ایک تہائی افغانوں کے پاس ہے جو تقریبا تین ہزار ارب بنتے ہیں۔وہ جب چاہیں اس پر ڈالرخرید کر پاکستانی کرنسی کی ویلیو گرا دیتے ہیں۔صرف یہ نہیں بلکہ ڈالر اسمگلنگ کرکے پاکستانی کرنسی کی ویلیو گرا دیتے ہیں۔قریبا ہر افغانی کے پاس نادرا کا کارڈ ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے ان کے نادرا کارڈ بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے افغانستان کے ساتھ سمندر نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کی رو سے افغان پناہ گزیں پاکستان کی Liability ہے ۔تاہم اس کا یہ مطلب نہیں انہیں شتہر بے مہار سمجھ کر چھوڑ دیا جائے۔آخر دوسرے ملکوں میں بھی افغان مہاجرین قیام کئے ہوئے ہیں ۔ایران میں کسی افغان پناہ گزیں کو کیمپ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے جب کہ ہمارے ہاں جہاں جی چاہیے وہ جا سکتے ہیں بلکہ کاروبار اور جائیدادیں خرید سکتے ہیں۔وفاقی حکومت نے غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیاہے پہلے مرحلے میں کئی سو غیر قانونی افغانوں کو گرفتار کیا گیا ہے البتہ جن افغان باشندوں کے پاس قانونی دستیاویزات ہیں انہیں پوچھ گچھ کے بعد چھوڑا دیا جاتا ہے ۔حکومت پاکستان کو غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن کو کامیاب کرنا ہے تو انہیں اخبارات کے ذریعے عوام سے اپیل کرنی چاہیے تاکہ جن جن علاقوں میں غیر قانونی تارکین وطن قیام کئی ہوئے ہیں ان کے خلاف آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو سکے ۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعدگیارہ لاکھ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان نقل مکانی کی جنہیں ان کے وطن واپس کیا جائے گا ۔حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی اس ضمن میں آگاہ کر دیا ہے۔نگران حکومت کا یہ فیصلہ صرف غیر قانونی افغان مہاجرین کے لئے نہیں بلکہ ان تمام تارکین وطن کے لئے جو یہاں غیر قانونی طور پر قیام کئے ہوئے ہیں۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سات لاکھ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان نقل مکانی کی جن میں سے دو لاکھ افغان مہاجرین امریکہ اور پورپی ملکوں کو جا چکے ہیں۔درحقیقت افغان پناہ گزینوں کے قیام سے مملکت خداداد کئی ایک مسائل کا شکارہے جس میں سماجی ،اقتصادی ،اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ جیسے مسائل شامل ہیں۔تعجب ہے چالیس لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزیں ملک کے چاروں صوبوںمیں رہ رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے حالانکہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے خاص طور پر بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے۔افغان پناہ گزینوں کی طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وطن چھوڑنے کی جہاں اور کئی وجوہات ہیں ایک بڑی وجہ خواتین پر تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند ہیں نہ تو انہیںکسی پبلک پارک میں جانے اور نہ ڈرئیونگ کرنے کی اجازت ہے ۔طالبان کے افغانستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ سے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد میں بڑی تیزی آئی ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے انخلاء کے سلسلے میں ملک گیر کریک ڈائون کا آغاز ہو چکا ہے ۔یہ سابقہ حکومتوں کی نااہلی کا شاخسانہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں کمی کی بجائے روز بروز تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔تعجب ہے اسی کے عشرے میں کئی لاکھ تارکین وطن صر ف کراچی میں رہ رہے تھے جب کہ کئی عشرے گزرنے کے بعد ان کی تعداد کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان واحد ملک ہے جہاں غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا کوئی مستقل پلان موجود نہیں ہے اگر کسی وقت ان کے خلاف آپریشن ہو بھی تو وقتی طور پر چند روز کے بعد آپریشن میں شدت ختم ہو جاتی ہے۔حکومت پاکستان کو غیر قانونی تارکین وطن کو قیام کی اجازت دینا ہے تو ایران کی طرح باقاعدہ کیمپ بنائے جائیں جہاں افغان مہاجرین اور غیر تارکین وطن کو ٹھہرانے کا بندوبست کئے بغیر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ بند نہیں ہوگا۔اس وقت چاروں
صوبوں کے بڑے بڑے شہروں کے علاوہ کوئی دیہی علاقہ ایسا نہیں جہاں غیر قانونی افغان پناہ گزینوں نے بسیرا نہ کیا ہو۔ جن افغان مہاجرین نے نادرا کے مبینہ کرپٹ ملازمین کی ملی بھگت سے قومی شناخت کارڈ بنوا لئے ہیں وہ الگ بات ہے ایسے افغان باشندے جن کے پاس نہ تو اقوام متحدہ کے پی آو آر کارڈ ہیں نہ قومی شناخت کارڈ بلکہ ان کے پاس کسی قسم کی دستاویز نہ ہونے کے باوجود وہ کاروبار کر رہے ہیں ۔قانون نافذ کرنے والے ادارے جانے کیوں ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔حقیقت یہ ہے غیر قانونی تارکین وطن کی روز بروزبڑھتی ہوئی تعداد ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ماضی کی منتخب حکومتیں افغان مہاجرین کو کیمپوں سے نکلنے کی اجازت نہ دیتی تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔دراصل نادرا کے قیام سے قبل افغان پناہ گزنیوں کی بہت بڑی تعداد نے قومی رجسٹریشن کے محکمہ کے ملازمین کی مبینہ ملی بھگت سے قومی شناختی کارڈ بنوالئے تھے جب رہتی کسر نادرا کے ملازمین نے پوری کر دی۔افسوناک پہلو یہ ہے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدری کا کام منتخب حکومت کو کرنا چاہیے تھا جونگران حکومت کو کرنا پڑرہا ہے ۔ماضی کی حکومتیں غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کی ذمہ داری پوری کرتیں تو غیر قانونی تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد ملک میں قیام پذیر نہیں ہو سکتیں تھیں۔سیاسی حکومتوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اس مقصد کے لئے ان کا فوکس اپنے مفادات پر ہوتا ہے جیسا کہ پی ڈی ایم عمران خان کی حکومت کے خلاف مہنگائی کو سامنے رکھ کر عدم اعتمادکیا اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ترجیحات بدل گئیں اور غریب عوام کا جینا دوبھر ہو گیا۔معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے جیسا کہ سپہ سالار نے جس عزم کا اظہار کیا ہے اگر وہ غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کی ذمہ داری لے لیں تو ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔پوری قوم کی نظریں سپہ سالار پر لگی ہیں وہ ملک میں امن کے ساتھ ڈالر اور چینی کی افغانستان اسمگلنگ پر بھی قابو پا لیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button