ColumnNasir Naqvi

زمان پارک سے اڈیالہ تک

ناصر نقوی
آدم زادوں کو اپنی عقل و فہم پر کچھ زیادہ فخر ہے، چھوٹا ہو کہ بڑا، تعلیم یافتہ ہو کہ جاہل اَن پڑھ چونکہ مالک نے اسے عقل سلیم دے کر اشرف المخلوقات قرار دے دیا ہے لہٰذا اس کا غرور اور تکبر ہی کم نہیں ہوتا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا بھی ہے کہ صرف انسان کے گھر پیدا ہونے سے وہ انسانیت کا چیمپئن نہیں بن جاتا اس کے اور بھی بہت سے تقاضے ہیں پھر بھی ہر کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ۔ اور تو اور کلمہ حق پڑھنے والے بھی بھول جاتے ہیں کہ کسی کو کسی دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں، کالا گورا، پڑھا لکھا ، اَن پڑھ جاہل اگر اخلاقیات، روایات، بھائی چارے اور تقویٰ کا قائل نہیں تو بلا امتیاز سب ایک ہی آدم کی اولاد آدم زادے ہیں۔ کسی کو کسی پر برتری بالکل نہیں، پھر آدم زادے کسی نہ کسی گھمنڈ میں اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ معیار سب کے الگ الگ ہیں۔ کوئی دولت، کوئی عقل و دانش اور کوئی منصب کے باعث اپنے آپ کو افضل جان لیتا ہے حالانکہ عزت و ذلت منجانب اللہ ہے۔ کسی کو وہ کچھ دے کر امتحان لیتا ہے کسی سے کچھ چھین کر، دراصل دنیا ہے ہی ایک امتحان گاہ، جہاں قدم قدم پر امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے پھر بھی جسے کچھ مل جائے وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور جسے نہ ملے وہ اپنے آپ کو بد قسمت سمجھتے ہوئے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے جبکہ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ مایوسی دین حق میں گناہ ہے، یہی نہیں نظام قدرت ہے کہ وقت کا پہیہ نہ رکتا ہے اور نہ ہی ایک جیسا رہتا ہے تب بھی کوئی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ ’’ ہم اور آپ‘‘ دنیا کی رنگینیوں میں یوں کھو گئے ہیں کہ ہم صرف اور صرف اپنے مفادات، خواہشات اور فتوحات سے آگے کچھ نہیں جانتے۔ مالک پر ایمان بھی ہے اور اس راز سے واقف بھی ہیں وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ جو بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے وہ ناجائز ہوگا پھر بھی جدوجہد جاری رکھتے ہیں اور جو مل جائے اس پر اکتفا نہیں کرتے اس لیے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ دنیا تسخیر کرو، ہم بادشاہ کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنتے دیکھ کر مکافات عمل کا نعرہ بھی لگاتے ہیں لیکن اپنی ذات کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کیوں؟۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف پانچ چھ سال دور ماضی کا جائزہ لیں تو نواز شریف ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ مرتبہ وزیراعظم رہنے والی مقبول شخصیت دکھائی دیں گے۔ پھر سب گواہ ہیں کہ پہلے ادوار کی طرح تیسری مرتبہ بھی اقتدار سے کیسے نکالے گئے اور انہیں سڑکوں پر للکارتا کھلاڑی عمران خان وزیراعظم بن گیا۔ دونوں کے درمیان شاہد خاقان عباسی بھی وزیراعظم بنے۔ جن کے بارے میں اسی طرح کسی نے نہیں سوچا تھا جیسے پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف کو باری ملی تھی اس پوری کہانی میں کیا ناجائز ہوا اور کیا جائز۔ آج پوری داستان وطن عزیز کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ عمرانی دور سے تبدیلی اور احتساب کا خواب وابستہ تھا وہ منتخب تھے کہ سلیکٹڈ ، یہ بحث سیاستدانوں کے لیے چھوڑ دیں۔ عام آدمی کے لیے تبدیلی اور احتساب بھی اہمیت رکھتے تھے۔ اس لیے کسی نے سیاستدانوں کی تنقید اور نعرے بازی پر کان نہیں دھرے۔ واضح اختلاف موجود تھا۔ خان اعظم اپنے اقتدار کو جدوجہد اور عوامی مقبولیت کا نتیجہ گردانتے تھے۔ اپوزیشن جماعتیں اسے فرینڈلی فکس میچ ، پھر بھی سب نے اس لیے برداشت کیا کہ لٹیروں، چوروں اور قومی خزانے پر ڈاکہ زنی کرنے والوں کا احتساب ضروری تھا لیکن تین سے چار سال کے دوران تمام اپوزیشن جماعتوں کے نمایاں اور فرنٹ لائن کے لیڈر پکڑے جکڑے گئے اور باری باری رہائی بھی پا گئے ۔ حکومت اور ادارے کسی پر کچھ ثابت نہیں کر سکے۔ ذمہ داری سسٹم کی خرابی کہلائی، نواز شریف، شہباز شریف ، مریم نواز، آصف علی زرداری، فریال تالپور، خورشید شاہ، رانا ثناء اللہ ، حمزہ شہباز شریف، سب نے نہ صرف جیل کی ہوا کھائی بلکہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خصوصی احکامات کے تحت ظلم و جبر بھی برداشت کیا۔ تین مرتبہ ریکارڈ ہولڈر وزیر اعظم نواز شریف خود بھی گرفتار ہوئے اور ان کے سامنے بیٹی مریم نواز کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اسی دوران سابق خاتون اول کلثوم نواز دنیا سے رخصت بھی ہوئیں لیکن عمران خان کی بڑھکیں کم نہیں ہوئیں۔ کبھی کہتے کہ میں نواز شریف کے کمرے کا پنکھا اور اے سی اتروا دوں گا، کبھی حکم دیا جاتا کہ ’’ قیدی‘‘ اے کلاس کا خاتمہ کیا جائے۔ بی کلاس بھی کسی کو نہ دی جائے۔ ایسے میں بھی نواز شریف بیمار ہوئے اور وزیراعظم عمران خان کے وزرائ، خاص کی تصدیق کے بعد صرف پچاس روپے کے ’’ اشٹام پیپر‘‘ پر چار ہفتوں کے لیے لندن چلے گئے۔ بعد ازاں بیماری اور لندن روانگی کو بھی ’’ ٹوپی ڈرامہ‘‘ قرار دیا گیا اور وفاقی وزراء اس وقت اپوزیشن کے تمام لوگوں کا آخری ٹھکانہ اڈیالہ جیل قرار دیتے رہے۔ وفاقی وزراء فواد چودھری اور شیخ رشید احمد اس بیانیہ میں پیش پیش تھے لیکن کچھ کا نصیب اڈیالہ نہ بن سکا جو پکڑے گئے وہ چھوڑے بھی گئے اور پھر حالات نے کروٹ لی، وقت بدلا، سیاسی موسم بھی بدل گیا، جن پیاروں اور سرپرستوں پر تکیہ تھا وہ بھی پرائے ہو گئے۔ خان اعظم منہ تکتے رہ گئے کیونکہ انھیں تو بتایا ہی کچھ اور گیا تھا اور ہوا اس کے الٹ، پھر سب نے دیکھا کہ ایک ڈائری پکڑ کر کپتان، ایوان اقتدار سے باہر آ گیا۔ نصیب وہی سڑکیں اور احتجاج بنا جہاں سے تخت اقتدار تک پہنچا تھا۔ دبنگ جارحانہ بیانیہ منظر عام پر آیا، احتجاج، ریلیاں، دھرنا اور گھیرائو جلائو کی کچھ کامیاب اور کچھ ناکام کوششیں بھی ہوئیں۔ جس عدالت عظمیٰ نے رات بارہ بجے دفاتر کھول کر ’’ گڈ ٹو سی یو‘‘ کہا ، ماضی کے چور اچکے چودھری بن کر اقتدار پر ’’ براجمان‘‘ ہوگئے۔ خان اعظم نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، لیکن امپائرز نے نظریں پھیر لیں، موکل بھی کمزور پڑ گئے لہٰذا ایک سال چھ ماہ شہباز شریف وزیراعظم اور اتحادی جماعتوں کے وزراء نے جیسے تیسے گزار لئے۔
خان اعظم نے پہلے ’’ بنی گالہ‘‘ کو کیمپ بنا کر مزاحمتی تحریک شروع کی، پھر پشاور سے ’’ لانگ مارچ‘‘ بھی اسلام آباد آیا لیکن نتیجہ تمام تر عدالتی ریلیف کے باوجود بھی حق میں نہیں نکل سکا۔ پھر ’’ زمان پارک‘‘ میں مرشد اعظم زندہ پیر کا ’’ میلہ ٹھیلہ‘‘ بھی اپنی مثال آپ بنا۔ مقدمات بنائے گئے تو عمران خان ہزاروں کے لشکر کے ساتھ نکلتے اور اپنی مرضی کا فیصلہ لے کر گھر آ جاتے۔ لیکن آخری معرکہ آرائی میں لاہور سے راولپنڈی اسلام آباد کا رخ کیا تو وزیر آباد کے قریب فائرنگ کا شکار ہو گئے پھر جن حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی مہینوں پر محیط تھے اور اڈیالہ اڈیالہ کہتے اڈیالہ جیل کے مہمان بن گئے۔ ذمہ دارو ں نے لاہور سے پکڑ کر اسلام آباد کے صحافیوں اور پولیس سے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے ’’ اٹک جیل‘‘ پہنچا دیا۔ واویلا ہوا کہ انڈر ٹرائل ملزم ’’ اڈیالہ‘‘ میں رکھا جاتا ہے لہٰذا ظلم و تشدد کا نشانہ بنا نے کے لیے ’’ اٹک‘‘ پہنچایا گیا وہاں اے بی کلاس نہیں، ملزم سابق وزیراعظم ہے اس کا استحقاق مجروح ہو رہا ہے۔ پہلی سزا اثاثے چھپانے اور فارم بی میں غلط بیانی پر ملی۔ الیکشن کمیشن نے اسی پاداش میں نااہل بھی کر دیا تھا۔ پھر ’’ سائفر کیس‘‘ میں پھنس گئے۔ چودھری اعتزاز احسن سمیت نامی گرامی وکلاء کا دعویٰ تھا ایک دو روز سے زیادہ نہیں رکھا جا سکتا۔ ضمانت ہو جائے گی لیکن نادان وکلاء کی کارکردگی پر عرصہ بڑھتا ہی گیا۔ ’’ سائفر کیس‘‘ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں تھا لہٰذا جج ابو حسنات ذوالقرنین سکیورٹی کی خاطر عدالت ہی ’’ اٹک جیل‘‘ لے گئے۔ عدالتی حکم پر ’’ اٹک جیل‘‘ میں تمام سہولیات فراہم کر دی گئیں لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں دعویٰ دائر کر دیا گیا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل لایا جائے۔ جہاں بہتر سہولیات بھی موجود ہیں اور وکلاء کی رسائی بھی آسان رہے گی۔ اللہ اللہ کر کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے نہ صرف اڈیالہ کے لیے حکم دے دیا بلکہ یہ فیصلہ بھی دیا کہ ’’ سائفر کیس‘‘ بھی شاہ محمود قریشی کی طرح اوپن کورٹ میں کیا جائے۔ عمران خان نے عدالت میں ہی ابو حسنات ذوالقرنین سے تقاضا کر دیا کہ میں اٹک میں ہی ایڈجسٹ ہو چکا ہوں مجھے یہاں رہنے دیا جائے، میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لوں گا۔ جواب ملا آپ کی درخواست پر فیصلہ ہو چکا اب وقت گزر گیا۔ عمران خان صاحب نے بہت شور مچایا لیکن پولیس اور سکیورٹی اداروں نے رات کی تاریکی میں اڈیالہ جیل پہنچا دیا۔ مکافات عمل یہ ہے کہ یہ وہی کمرہ ہے جو نواز شریف کے لیے سجایا گیا تھا جس کا پنکھا اور اے سی اتروانے کا وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا لیکن آج انہیں وہی پنکھا اور اے سی اچھا لگ رہا ہوگا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹک میں اٹکے رہنے کے باوجود بھی نہ رہ سکے اور ’’ اڈیالہ جیل‘‘ کی خواہش پر مہینوں انتظار کرنا پڑا بلکہ جب خواہش پوری ہوئی تو انہیں انکار کرنا پڑا۔ ذرا سوچئے؟ ایسا کیوں ہوا؟ عام خیال یہ ہے کہ وہ عمران خان ہی نہیں جو ’’ یوٹرن‘‘ نہ لے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’ اٹک‘‘ میں دل اس لیے لگا کہ ذہنی طور پر تو وہ اپنے آپ کو قیدی تسلیم کر چکے ہیں اور انہیں علم ہے کہ فی الحال جلدی جان نہیں چھٹے گی ۔ لہٰذا چپ کرکے وہیں بیٹھے رہوں، سہولیات مل چکیں، مرضی کے مطابق کھانا پینا اور معاملات چل رہے تھے عدالت بھی وہاں پہنچ چکی تھی اب کسی نے سمجھایا ہو گا کہ آپ کے ساتھی ملزم شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اب اڈیالہ جائیں گے تو یہی سلوک آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ آپ سیاسی مرشد اعظم ہیں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی حقیقی مرشد ہیں ، ہزاروں لاکھوں افراد ان کے ہاتھ خواہش کے مطابق چوم نہیں پاتے پھر بھی ان ہاتھوں میں آپ کی وفاداری اور سائفر نے ہتھکڑیاں ڈلوا دیں۔ آپ کے وفادار، جان نثار شیخ رشید ہتھکڑیوں کو زیور اور جیل کو سسرال صرف سیاسی نعرے میں کہتے تھے وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اسی لیے مہینوں روپوش رہے ورنہ ہنسی خوشی ہتھکڑیاں پہن کر فوٹو شوٹ نہ کراتے؟؟؟ بس اسی کہانی پر عمران خان نے اڈیالہ جانے سے انکار کر دیا۔ شیخ رشید پکڑے گئے لیکن ظالموں نے انہیں ’’ فوٹو شوٹ‘‘ کا موقع تک نہیں دیا۔ لہٰذا موجودہ سیاست کے رنگ میں بھنگ پڑ گئی۔ اصلی سسرال تو ان کے نصیب میں ہی نہ تھی۔ پکڑنے والوں نے جعلی سسرال بھی ابھی تک نہیں پہنچایا۔ شاید ان کے ساتھ اور پسند کے زیورات کا خصوصی اہتمام کیا جا رہا ہو۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’ گیٹ نمبر 4‘‘ والے ہیں وہ بھی بند ہے اور لال حویلی بھی چاروں اطراف سے سیل کی جا چکی ہے اس لیے انھیں لاپتہ ہی سمجھیں لیکن عمران خان کو اگلی پیشی پر زیور مل سکتا ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button