Ahmad NaveedColumn

بی بی سی ڈاکیومنٹری دی مودی کویسچن

احمد نوید
آج یہ سوچنا بھی محال ہے کہ ہندوستان میں مرکزی دھارے کا کوئی میڈیا ہائوس مودی کیخلاف مضامین شائع کرے گا۔ وہ سب کارپوریٹ اشتہارات پر زندہ ہیں۔ گزشتہ بیس سال میں آزاد منڈیوں، فاشزم اور نام نہاد آزاد صحافت نے ملکر ہندوستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اسے کسی بھی لحاظ سے ایک جمہوریت نہیں گردانا جاسکتا ہے۔
رواں سال دو ایسی چیزیں ہوئیں جو اس صورت حال کو بہت خوبی سے بیان کرتی ہیں۔ بی بی سی نے دی مودی کویسچن نام سے دو حصوں میں ایک ڈاکیومنٹری دکھائی اور اس کے کچھ دنوں بعد ہنڈنبرگ ریسرچ نامی ایک امریکی کمپنی نے اپنی رپورٹ شائع کی، جسے اب ہنڈنبرگ رپورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہنڈنبرگ ریسرچ میں مہارت رکھتی ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی سب سے بڑی کارپوریٹ کمپنی اڈانی گروپ کی حیرت انگیز دھاندلیوں کو تفصیل سے اجاگر کیا ہے۔ بی بی سی اور ہنڈنبرگ معاملے کو ہندوستانی میڈیا نے اس طرح پیش کیا کہ یہ ہندوستان کے ٹوئن ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں تھا۔ یہ ٹاورز ہی وزیراعظم نریندر مودی اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعتکار گوتم اڈانی کے ہیں، جو دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص بھی رہ چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ان دونوں کیخلاف لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔
بی بی سی کی ڈاکیومنٹری اشارہ کرتی ہے کہ مودی نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کیلئے اکسایا تھا۔ ہنڈنبرگ رپورٹ نے اڈانی پر کارپوریٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
30اگست کو گارڈین اور فنانشل ٹائمز نے جرائم کے شواہد فراہم کرنے والی دستاویز پر مبنی مضامین شائع کئے، جنہیں آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ نے جمع کیا تھا۔ ان میں بھی ہنڈنبرگ رپورٹ کی مزید تصدیق کی گئی۔ ہندوستانی تحقیقاتی ایجنسیاں اور زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ ان کی چھان بین کر سکیں یا ان مضامین کو شائع کر سکیں۔ جب غیر ملکی میڈیا انہیں شائع کرتا ہے، تب یہ آسان ہو جاتا ہے کہ ایک کھوکھلی جارحانہ قوم پرستی کے موجودہ ماحول میں اسے ہندوستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا جائے۔ مودی اور اس کی حکومت یہی کر رہی ہے۔
بی بی سی ڈاکیومنٹر ی دی مودی کویسچن کا پہلا حصہ 2002میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلمانوں کو ایک ریلوے کوچ کو جلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جس میں 59ہندو تیرتھ یاتری زندہ جل گئے تھے۔ مودی اس قتل عام سے چند ماہ قبل ہی ریاست کے وزیراعلیٰ نامزد کئے گئے تھے۔ اس وقت وہ الیکشن جیت کر وزیراعلیٰ نہیں بنے تھے۔ بی بی سی ڈاکیومنٹری صرف ہلاکتوں کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ کچھ متاثرین کے اس 20سالہ طویل سفر کے بارے میں بھی ہے، جسے انہوں نے ہندوستان کے قانونی نظام کی کمزوریوں میں انصاف اور سیاسی احتساب کی امید میں طے کیا تھا۔
بی بی سی ڈاکیومنٹری میں عینی شاہدین کی شہادتیں شامل ہیں، جن میں سب سے زیادہ لرزہ خیز گواہی امتیاز پٹھان کی ہے، جنہوں نے گلبرگ سوسائٹی قتل عام میں اپنے خاندان کے دس افراد کو کھو دیا تھا۔ اس قتل عام میں ایک ہجوم نے ساٹھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ جس میں ایک سابق ایم پی احسان جعفری بھی شامل تھے۔ جن کے جسم کے اعضاء کاٹ کاٹ کر زندہ جلا دیئے گئے۔ وہ مودی کے سیاسی حریف تھے اور انہوں نے ایک حالیہ انتخاب میں مودی کیخلاف مہم چلائی تھی۔ گلبرگ سوسائٹی میں ہونیوالا قتل عام ان چند دنوں میں گجرات میں ہونیوالے اسی طرح کے بہت سے خوفناک قتل عام میں سے ایک تھا۔
دوسرے قتل عام میں سے ایک جس کا فلم میں ذکر نہیں کیا گیا ہے، وہ جواں سال بلقیس بانو کا گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے 14افراد کو قتل عام ہے۔ اس میں ان کی 3سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔
گزشتہ سال اگست میں یوم آزادی کے موقع پر جب مودی خواتین کے حقوق پر قوم سے خطاب کر رہے تھے، ان کی حکومت کی جانب سے ٹھیک اسی دن بلقیس اور ان کے خاندان والوں کے ان ریپسٹ اور قاتلوں کو معافی دیدی گئی، جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ ویسے بھی ان لوگوں نے قید کے اکثر ایام پیرول پر باہر گزارے تھے۔ اور اب وہ آزاد لوگ تھے۔ جیل کے باہر ان کا استقبال پھولوں سے کیا گیا تھا۔ اب وہ سماج کے معزز افراد ہیں اور بی جے پی کے سیاست دان عوامی پروگراموں میں ان کے ساتھ سٹیج پر آتے ہیں۔ بی بی سی ڈاکیومنٹری نے اپریل 2002میں برطانوی دفتر خارجہ کی تیارکردہ ایک اندرونی رپورٹ کو بھی اجاگر کیا ہے، جس کے بارے میں انڈین عوام کو ابھی تک علم نہیں تھا۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ کم از کم 2000افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ نسل کشی کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ برطانوی دفتر خارجہ کی تیارکردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باوثوق ذرائع نے انہیں بتایا کہ پولیس کو خاموش رہنے کے حکم صادر کئے گئے تھے۔ رپورٹ بہت سیدھے سیدھے مودی کی طرف انگلی اٹھاتی ہے۔ گجرات کے قتل عام کے بعد امریکہ نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد مودی نے یکے بعد دیگرے تین انتخابات جیتے اور 2014تک گجرات کے وزیراعلیٰ بنے رہے۔ ان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان پر عائد پابندی ہٹا دی گئی مگر مودی سرکار نے ڈاکیومنٹر ی پر پابندی لگا دی۔ ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے اس پابندی کی پیروی کی اور اس کے تمام لنکس اور حوالہ جات کو ہٹا دیا گیا۔ ڈاکیومنٹری کی ریلیز کے چند ہفتوں کے اندر ہی بی بی سی کے دفاتر کو پولیس نے گھیر لیا اور ٹیکس حکام نے ان پر چھاپے مارے۔
ہنڈنبرگ کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اڈانی گروپ سٹاک کی بھاری ہیرا پھیری اور اکائونٹنگ فراڈ کی سکیم میں ملوث رہا ہے، جس نے آف شور شیل کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے (شیئر بازار میں) لسٹڈ اپنی بڑی کمپنیوں کی قیمت کو فرضی طریقے سے بڑھا چڑھا کر دکھایا۔ اس کی وجہ سے اس کے مالک کی مجموعی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق اڈانی کی لسٹڈ کمپنیوں میں سے سات کو ان کی اصل قیمت سے 85فیصد زیادہ قیمت پر دکھایا گیا ہے۔ مودی اور اڈانی کی شناسائی دہائیوں پرانی ہے۔ ان کی دوستی 2002میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد مضبوط ہوئی۔ اس وقت زیادہ تر ہندوستان جس میں کارپوریٹ انڈیا بھی شامل ہے، گجرات کے قصبوں اور دیہاتوں میں ہندو ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کے کھلے عام قتل اور ریپ کے خوف سے سہم گیا تھا مگر گوتم اڈانی مودی کے ساتھ کھڑے رہے۔ گجراتی صنعتکاروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ انہوں نے تاجروں کا ایک نیا پلیٹ فارم بنایا۔ گوتم اڈانی نے اپنے ناقدین کو مسترد کرتے ہوئے مودی کی حمایت کی، جنہوں نے ہندو ہردیہ سمراٹ کے طور پر اپنے نئے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس طرح اس چیز کا جنم ہوا جسے وکاس گجرات ماڈل کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ تھی کارپوریٹ دنیا کی بے پناہ دولت کے زورپرمضبوط ہوتی پرتشدد ہندو قوم پرستی۔
( جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button