Ali HassanColumn

قبائلی سرداروں کیخلاف کارروائی کرنے کا اعلان

علی حسن
صوبہ سندھ کے ایک علاقے میں، جو پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے، امن و امان کی صورت حال اتنی مخدوش ہے جو کسی کے قابو میں نہیں آرہی ہے۔ عوام ڈاکوئوں کیخلاف فوج کی جانب سے آپریشن کی مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگوں کو تاوان کیلئے اغوا کرلیا جاتا ہے اور انہیں ڈاکو جنگل میں اپنی کمین گاہ میں لے جاتے ہیں۔ بعض واقعات میں تو ڈاکو اغوا کئے جانے والے افراد کی تشدد کرتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جامشورو میں ایک پکوان والے کو فون کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک شادی کی تقریب میں 300افراد کو کھانا پکانا ہے، پیسے بتا دو اور سامان لیکر پہنچ جائو۔ جب وہ لوگ سامان لیکر پہنچے تو انہیں اغوا کرلیا گیا اور تاوان کا مطالبہ کر دیا گیا۔ کابینہ کی ایک اجلاس کے بعد نگراں وزیر داخلہ متاثرہ علاقے پہنچے جہاں انہیں نے ایک ایسا اعلان کر دیا جس پر اگر صحیح جذبہ سے عمل در آمد ہو جائے تو سندھ سے ڈاکو راج کا ہی خاتمہ ہو جائے۔ بریگیڈئیر ریٹائرڈ حارث نواز نے کہا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جس علاقے سے لوگ اغوا ہوں گے اس علاقے کے قبائلی سردار کا احتساب کیا جائیگا۔ انہوں نے نام لیکر کہا کہ سردار کا تعلق شر قبیلہ سے ہو، سندرانی قبیلہ سے ہو یا مزاری قبیلے سے ، سردار سے جواب طلبی ہوگی اور ان کیخلاف کارروائی کی جائیگی۔ یہ طریقہ کار ایسا ہے جس پر عمل در آمد سے منتخب حکومتیں ہچکچاتی ہیں اور آنکھیں بند رکھتی ہیں۔ خواہ علاقے عوام کیلئے جہنم ہی کیوں نہ بن جائیں۔ سزا و جزا کو تصور ہی ناپید ہو گیا ہے۔ پولس کا عام اہل کار ہو یا بڑا افسر، سیاسی کارکن ہو یا قبائلی سردار سب ہی اپنے آپ کو جزا و سزا سے بالا تر سمجھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر آعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ضلع گھوٹکی کے دو بڑے قبائلی سرداروں مہر قبیلہ کے سردار غلام محمد اور لونڈ قبیلہ کے سردار نور محمد کو تحفظ امن و امان کے قانون کے تحت نظر بند کرا دیا تھا۔ ان کی نظربندی ضلع میں دونوں قبائل کے درمیان خون ریز تصادم کے واقعات کے بعد پیش آئی تھی۔ سرداروں کی گرفتاری کے بعد دونوں قبائل جو مسلح دست و گریبان تھے، پرامن ہوگئے تھے اور تصادم کے واقعات پر برف گر گئی تھی۔ یہ ایسا نسخہ تھا جس پر عمل کرنے سے حکومتیں ہچکاتی ہیں۔ حالانکہ یہ ہی امن و امان قائم رکھنے کا مجرب نسخہ ہے۔ انگریز بھی اپنے دور میں امن و امان کی صورت حال پر پورے پورے گائوں کو اجتماعی سزاوار قرار دیتا تھا۔ جن علاقوں میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو رہی ہیں وہاں شر، سندرانی اور مزاری سمیت مختلف قبائل رہائش رکھتے ہیں۔
نگران وزیر داخلہ کے دورے سے قبل نگران وزیراعلیٰ سندھ کے زیر صدارت حال میں کراچی میں کابینہ کا ایک اجلاس ہوا جس میں آئی جی پولس نے بریفنگ دی۔ انہوں نے اجلاس کو بتایا اس سال 2023ء میں 218لوگ اغوا ہوئے ہیں۔ 218میں سے 207 مغوی بازیاب ہوئے ہیں۔ اس وقت 11لوگ ابھی تک یرغمال ہیں۔11میں سے 3لوگ شہید بینظیر آباد، 7لاڑکانہ اور ایک سکھر سے اغوا ہوئے ہیں۔ آئی جی کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے آئی جی پولیس کی حیثیت کے چارج سنبھالا تو 57اغوا تھے اور اب 11ہیں۔ مغویوں کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے، نگران وزیراعلیٰ سندھ کی آئی جی پولیس کو ہدایت۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ نے مغویوں کے خاندان کے ساتھ رابطہ میں رہنے کی بھی ہدایت دی۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ نے کچے میں انٹرنیٹ کی سہولت ختم کرنے کا حکم بھی دیا۔ آئی جی نے کابینہ کو یہ نہیں بتایا کہ اکثر لوگ تاوان ادا کرنے کے بعد رہائی حاصل کرنی میں کامیاب ہوسکے تھے۔ جس علاقے میں اغوا کی وارداتیں ہورہی ہیں اس کے بارے میں بتایا گیا کہ کچے کی کل 4لاکھ آبادی ہے جہاں 238دیہات ہیں، 8پولیس سٹیشن اور 20چیک پوسٹ ہیں۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت دی کہ کچے کے علاقے میں اچھی شہرت کے حامل پولیس افسر اور اہلکار تعینات کئے جائیں اور جو پولیس والے اچھی کارکردگی نہ دکھائیں ان کو تبدیل کر دیا جائے۔ سندھ کابینہ نے کچے میں پولیس اور رینجرز کا آرمی کے ساتھ آپریشن کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کو تحفظ دینا حکومت کا کام ہے۔ کوئی شخص موبائل فون لیکر نکل نہیں سکتا ہے۔ یہ صورتحال کسی صورت قابل قبول نہیں۔ سندھ کابینہ نے کراچی میں رینجرز کی تعیناتی 6ماہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے اس وقت کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے جب بھی امن و امان کا سوال کیا جاتا تھا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا، کوئی تشویش کی بات نہیں ہے، سب ٹھیک ہے۔ یہ کہتے کہتے انہوں نے پانچ سال گزار دیئے۔ بعض مواقع پر پولس نے ڈاکوئوں کیخلاف موثر کارروائی بھی کی کبھی کبھی کامیابی بھی ہوئی۔ لیکن عوام کو مکمل سکون نہیں مل سکا۔ اس سوال کا کہ ڈاکوئوں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے اور کس طرح پہنچتا ہے، جواب ماضی کی حکومت ہو یا موجودہ نگراں حکومت، تلاش نہیں کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ حکومت ہو، منتخب ارکان ہوں، سردار ہوں، یا پولس کے چھوٹے اہل کار، سب ہی ناکام نظر آتے ہیں۔ متاثر صرف اور صرف عام آدمی ہوتا ہے۔ جس کی کسی کو فکر نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button