ColumnImtiaz Aasi

چیف جسٹس سے غیر ضروری توقعات

امتیاز عاصی
پاکستان کی تاریخ میں کتنے چیف جسٹس آئے اور چلے گئے۔ جسٹس منیر سے عمر عطاء بندیال تک 28چیف جسٹس ہو گزرے ہیں، جن میں بہت سوں کے ناموں سے لوگ وقف نہیں ہیں البتہ کچھ ایسے ہیں جن کے نام لوگوں کے دلوں دماغ میں نقش ہیں۔ جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس کی کاوش کو وکلاء اور عوام شاندار الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ بسا اوقات سیاست دان منصفوں سے غیر ضروری توقعات وابستہ کر لیتے ہیں حالانکہ ان کے سامنے آئین اور قانون ہوتے ہیں جن کی روشنی میں انہیں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے بعض جج صاحبان کئی قسم کا دبائو آنے کی صورت میں مقدمات کو التواء میں رکھ دیتے ہیں یا پھر دبائو کا شکار ہو کر فیصلے دینے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کے پاس آئین اور قانون سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں جن معاملات کو پارلیمنٹ میں لے جانا ہوتا ہے وہ اعلیٰ عدالتوں میں لے جانے سے عوام کے مقدمات غیر ضروری التواء کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ اعلیٰ عدلیہ ہی ایک ایسا فورم ہے جہاں عام سائلین کو انصاف کی توقع ہوتی ہے۔نئے چیف جسٹس نے منصب سنبھالتے ہی زیر التواء مقدمات کو نپٹانے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے جج صاحبان او ر وکلا سے مشاورت شروع کر دی ہے جس سے برسوں زیر التواء اپیلوں کا فیصلہ ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ماضی قریب میں منصفوں کے بعض فیصلوں نے نہ صرف عدلیہ کو تقسیم کر دیا ہی بلکہ عوام کو بھی مایوسی کا سامنا پڑا ہے۔ اس صورت حال میں عدلیہ کے وقار کو دھچکا لگنے کے اثرات ختم کرنے میں خاصا وقت درکار ہوگا۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی بہت سی وجوہات ہیں جیسا کہ عدالت کے سامنے دو فریق ہوتے ہیں ایک فریق کی کوشش ہوتی ہے اس کے مقدمے کا جلد فیصلہ ہو جائے جب کہ دوسرا فریق جو اپنے مقدمے میں کسی قسم کی قانونی کمزوری کا حامل ہوتا ہے کی حتمی المقدور کوشش ہوتی ہے اس کا کیس التواء میں پڑا رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ماتحت عدلیہ کے اہل کاروں سے مبینہ ساز باز کرکے اپنے کیس کو التواء میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کے ذمہ دار وکلا صاحبان بھی ہیں جو کسی نہ کسی بہانے عدالتوں میں پیش ہونے سے گریزاں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مقدمات غیر ضروری التواء کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس وقت کئی ہزارکیسز عدالت عظمیٰ میں زیر التواء ہیں۔ مقدمات میں تاخیر کی ایک اور وجہ عدالتوں پر مقدمات کا غیر ضروری بوجھ ہے ۔ عدالتوں کی تعداد میں کمی مقدمات کے فیصلوں میں التواء کا باعث بنتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے انکار نہیں کرنا چاہیے سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں کو اعلیٰ عدلیہ میں لانے کے برے اثرات نے عدلیہ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے ہاں ماحول اس طرح کا بن چکا ہے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال کے جانے سے بعض سیاست دانوں نے نئے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ سے غیر ضروری توقعات وابستہ کر رکھی ہیں حالانکہ چیف جسٹس نے اپنا منصب سنبھالتے ہی ایک بات واضح کر دی ہے وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے آئین اور قانون کی روشنی میں فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔ اگر ہم ماضی کی طرف جھانکیں تو یہ سپریم کورٹ تھی جس نے بعض اداروں کے قبضے کو قانونی جواز فراہم کرکے عدلیہ کی تاریخ بدل دی۔ ملک میں جس طرح کا غیر یقینی ماحول بن چکا ہے جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ امید کی کرن ثابت ہوں گے۔ ایک طرف پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مقدمہ اور دوسری طرف نیب ترامیم کے فیصلے کے بعد ریویو میں جانے کی صورت میں فیصلہ چیف جسٹس کے لئے امتحان سے کم نہیں۔ پی ڈی ایم کی چودہ ماہ کی حکومت نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے نیب قوانین میں ترامیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترامیم کیں۔ دراصل پی ڈی ایم کی حکومت کے دو مقاصد تھے نیب قوانین میں ترامیم کرکے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانا اور دوسرا آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اپنے اراکین اسمبلی میں تقسیم کرکے الیکشن کی تیاری کی راہ ہموار کی۔ عجیب تماشا ہے سیاست دانوں کو پوچھنے والاکوئی نہیں۔ ان کے خلاف فیصلہ آئے تو اسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ ہم سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہوگی جس طرح کے ماحول میں پنجاب کے الیکشن کی تاریخ دی انہی کا خاصہ تھا۔ یہ اور بات ہے الیکشن کا انعقاد نہیں ہو سکا عدلیہ کی تاریخ میں ان کا یہ فیصلہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہمیں سابق وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بیان پڑھ کر خوشی ہوئی نئے چیف جسٹس کی آمد سے انصاف کا ڈنکا بجے گا۔ پاکستانی قوم اس سلسلی میں قوی امید رکھتی ہے جناب قاضی فائز عیسیٰ جنہوں نے اپنے خلاف ایک جھوٹے ریفرنس کا دلیری سے مقابلہ کرنے کی تاریخ رقم کی وہ فیصلہ سازی میں بھی ایسی تاریخ رقم کریں گے تاکہ عوام انہیں جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس کی کاوش کی طرح یاد رکھیں۔ بعض حلقوں کے خیال میں نئے چیف جسٹس ان کے لئے ترنوالہ ثابت ہوں گے یہ ان کی خام خیالی ہے۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد جو پہلی بات کہی ہے وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پابند نہیں ہیں بلکہ آئین اور قانون کے تابع ہیں، ان کا یہ بیان ان حلقوں کی آنکھیں کھولنے کے لئی کافی ہے جو ان سے غیر ضروری توقعات رکھے ہوئے ہیں۔ ان حلقوں پر یہ بات واضح ہو جانی چاہیے نئے چیف جسٹس آئین اور قانونی کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ وہ خاص حلقوں کے تابع رہتے ہوئے فیصلے کریں گے۔ پاکستان کے عوام پر امید ہیں نئے چیف جسٹس اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر برسوں سے زیر التواء اپیلوں کے سماعت کے لئے خصوصی بینچ قائم کریں گے جیسا کہ سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید خان کھوسہ نے برسوں سے زیر التواء سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلوں کی سماعت کے لئے خصوصی بینچ بنایا تھا۔ ہمیں امید ہے نئے چیف جسٹس کرپشن کے مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کی حکمت عملی اپنائیں گے تاکہ کرپشن میں ملوث لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button